ساحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ "میں جب تاروں پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں " جیسا تجربہ جس کی زندگی میں آیا ہو، اس کے حساس دل، دکھی روح اور فطرت شناسی کی گواہی دی جاسکتی ہے۔ شہروں کے گدلے اور بے نور روشنیوں میں چھپے آسمان سے دور اگر آپ کو حدِ نگاہ تک لہلہاتے کھیتوں، وسیع و عریض لق و دق صحراؤں یا سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں آباد کسی گھر کی چھت پرچارپائی بچھا کر رات آنکھوں میں کاٹنے کا موقع میسر آجائے تو غم و اندوہ اور حزن و ملال کے عالم میں اس سے پرسکون لمحے میسر نہیں آسکتے۔ ستارے رات کا حسن ہیں اور اس کائنات کے نظام کی وسعت کا آپ کو ہر لمحے مشاہدہ کرواتے رہتے ہیں۔
آپ رات کے وقت شمال میں قطبی تارے (North Star) کو ڈھونڈ کر اسے مرکزِ نگاہ بنا لیں تو آپ کو سات ستاروں کا جھرمٹ جسے "بنات النعش"کہا جاتا ہے، اگر آسمان کے درمیان میں نظر آرہا ہو تو صبح ہونے تک وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا افق کے قریب پہنچ کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔ آسمان کا یہ گنبد دن رات ان ستاروں، سورج، چاند اور سیاروں کے اپنے رستوں پر ہر لمحے رقص کناں رہنے کا منظر دکھاتارہتا ہے، اقبال کی راتوں کا ساتھی "یہ گنبدِ مینائی یہ عالمِ تنہائی"۔ اللہ نے ستاروں کی گذرگاہوں کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا، "پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کی گذرگاہوں کی، اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے" (الواقعہ:75، 76)۔ اسی طرح اللہ نے آسمان کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا، "آسمان کی قسم ہے جس میں برج ہیں "۔ (البروج:1)
انسان ہزاروں سال سے ستاروں کی انہی رہگذاروں کا مشاہدہ کرتا چلا آرہا ہے۔ مدتوں صحراؤں میں سفر کرنے والے اور سمندروں کا سینہ چیر کر کشتیاں چلانے والے انہی ستاروں کی رہنمائی سے منزل کی سمت معلوم کیا کرتے تھے۔ یہی واحد قابلِ بھروسہ نظام، کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ پہلے انسان آسمان پر ان کا براہ راست آنکھوں سے مشاہدہ کر کے راستہ ڈھونڈتا رہا، پھر مقناطیسی سوئی سے قطب نما میں آسمان کی سمت کا عکس اتار ا اور اب کمپیوٹر کی سکرین پر زمین و آسمان کی حرکت، چال اور رفتار کے ذریعے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ تمام سمتیں، راستے، گذرگاہیں اور رفتاریں، ربِ ارض و سما کی ایسی تخلیق ہیں کہ جن میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کا بھی جھول نظر نہیں آتا۔ اللہ نے اپنے اس سارے نظام کی انسان کو مطالعہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا، "اور رات اور دن اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے، اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیئے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں " (النحل:12)۔
عقل رکھنے والے انسان صدیوں سے ان ستاروں، چاند اور سورج کی چال کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی آسانی کے لیئے آسمان کو بارہ برجوں میں تقسیم کر کے ان کے نام بھی رکھ دیئے۔ یہ برج بھی دراصل آسمان پر ستاروں کے مختلف جھرمٹوں کو دیئے گئے نام ہیں۔ جیسے برج اسد کے ستارے شیر کی شکل میں آسمان پراکٹھے نظر آتے ہیں اور برج جدی کے ستارے بکری کی شکل بناتے ہیں۔ سورج ہر برج میں دوگھنٹے گذارتا ہواروز کی گردش مکمل کرتا ہے۔ اسی طرح آسمان پر تیرتے ہوئے ستارے اور ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے بھی جب اپنی اپنی گذرگاہوں پر چلتے ہوئے ایک برج کے علاقے میں سے گذرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ مریخ یا زحل برج جدی کے آسمانی علاقے سے گذر رہا ہے۔ ہزاروں سال سے انسان اللہ کی ان نشانیوں کا مطالعہ کرتا رہا ہے۔ عقل اور غور و فکرکرنے والوں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ عام آدمی نے بھی اپنے مشاہدے سے اتناضرور جان لیا کہ چودہویں کے چاند کی روشنی میں سمندر میں جو اربھاٹا ضرور آتا ہے۔ صدیوں کے اس جوار بھاٹا والے مشاہدے کو سائنس نے "کشش ثقل" کی پیمائش سے آج درست ثابت کر دیا ہے۔ ستاروں کی گذرگاہوں اور ان کی چال کے طویل مشاہدے سے انسان نے یہ نوٹ کرنا شروع کیا کہ فلاں ستارہ جب فلاں برج میں آتا ہے تو اس دوران انسانوں کے مزاج کیسے تھے۔ اسی طرح جب بھی کوئی دو ستارے کسی ایک برج میں اکٹھے ہوئے تو زمین والوں کے مزاج کیسے بدلتے رہے، خبط کا شکار ہوئے، خوش باش رہے یابے نیل و مرام۔
اللہ کی اس کائنات میں آسمانی دنیا کے گلوب پر ستاروں کی حرکت کو سائنسی اعتبار سے جانچنے کے علم کو "فلکیات" (Astronmy)کہا جاتا ہے اور انہی ستاروں کی حرکات کی بنیاد پر صدیوں سے جو ایک جیسے واقعات دنیا میں رونما ہوتے رہے ہیں، ان کے مشاہدے سے لگائے جانے والے "اندازوں " کے علم کو" علم نجوم"(Astrology) کہتے ہیں۔ یہاں میں نے لفظ "اندازوں " کا اس لیئے استعمال کیا ہے، کیونکہ یہ علم صرف مشاہدے کی بنیاد پر ایک اندازہ ہی ہے، جو صدیوں سے ایک جیسا ہوتا چلا آرہا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا؎ اللہ قادر ہے کہ وہ کبھی بھی اور کسی وقت بھی انسان کے تمام اندازے غلط ثابت کردے۔ کئی بار ایسا ہوا بھی ہے کہ انسان کے مشاہدات کی بنیاد پر کئے جانے والے اندازے بالکل غلط ہو گئے۔
ستاروں کی چالوں کو سمجھنے والے، آسمان پر ہونے والی حرکت میں سب سے اہم حرکت، دو یا دو سے زیادہ ستاروں کو آپس میں انتہائی قریب آنے کو قرار دیتے ہیں۔ جسے اقتران، قران یا (Conjunction)کہتے ہیں۔ انسان کا صدیوں کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ کونسے دو یا زیادہ ستارے جب قریب ہوئے تھے تواس وقت زمین پر کیسے واقعات رونما ہوئے تھے۔ اگر ماضی میں بار بار ایک جیسا کچھ ہوا ہو تو پھر اس مشاہدے کی بنیاد پراندازہ لگایا جاتاہے کہ شایداب کی بار بھی اگر ستاروں کا ملاپ اسی طرح ہوا توپھر ویسا ہی ہوگا۔ ان میں سب سے اہم قران یا ملاپ مشتری اور زحل کا سمجھا جاتا ہے جو ہر بیس سال بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔ آخری دفعہ یہ ملاپ 2000ء کی مئی میں ہوا تھا۔ اس ملاپ میں دونوں ستارے ایک ہی برج میں تھے، لیکن کافی فاصلے پر تھے۔ اتنے دوری والے ملاپ کا مشاہدہ بتاتا ہے اس کے بعد کے بیس سال اس دنیا میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے سے لے کر جنگوں کی ہولناکی کے سال ہی رہے ہیں۔ 21دسمبر2020ء کو ایک بار پھریہ دونوں ستارے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں مگر اس دفعہ یہ اتنے قریب ہو جائیں گے کہ آنکھ سے صاف نظر آئیں گے اور یہ منظر دیدنی ہوگا۔ ایسی غیر معمولی قربت آخری دفعہ گلیلیو کے زمانے میں 397 سال قبل 1623ء میں ہوئی تھی۔
آپ اگر 16دسمبر 2020ء سے رات کو آسمان کا مشاہدہ شروع کر دیں گے تو آپکو چاند کے تھوڑا اوپر دو ستارے قریب قریب محسوس ہوں گے اور پھر 21دسمبر کو یہ دونوں آپس میں مدغم ہوتے نظر آئیں گے۔ یہ نظارہ صرف ایک رات کے لیئے ہوگا اور عام سی دوربین سے بھی اسے واضح طور پر دیکھا جا سکے گا۔ ان ستاروں میں اسقدر قربت تقریباًآٹھ سو سال بعد پیدا ہو گی۔ پوری دنیا کے صاحبان عقل و مشاہدہ اس ملاپ اور قران سے لاتعداد اندازے لگا رہے ہیں۔ کئی ہزار سال کی تاریخ کھنگالی جا رہی ہے کہ جب ایسا ہوا تھا تو کیا ہوا تھا۔ تاریخ اپنا ایک اندازہ بتا تی ہے کہ ماضی میں جب بھی ایسا ہوا تو دنیا بالکل تبدیل ہو کر ایک نئے نظام میں ڈھل گئی۔ یہودیوں کے اہلِ سیئر، عیسائیوں کے راہب، ہندوؤں کے پنڈت اور ماہرین علم و نجوم اس ملاپ کے بعد دنیا کے مکمل طور پر بدل جانے کے انتظار میں ہیں، کیونکہ ستاروں کی گذرگاہوں میں ستاروں کی ایسی ہی قربت کے وقت بابل کی تہذیب اجڑی تھی اور فرعون غرقاب نیل ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے اس بار کچھ بھی نہ ہو، اس لیئے کہ سب ستارے میرے مالک کے حکم پر چلتے ہیں اور اسی کا حکم زمین و آسمان پر نافذ ہے۔ لیکن خوف اس بات کا ہے کہ اگر ان علامتوں کے دوران اللہ کے حکم سے کہیں پہلے جیسا سانحہ ہی وقوع پذیر ہوگیا تو یہ دنیا یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے گی۔ کون صفحہ ہستی سے مٹتا ہے اور کون اُفق پر طلوع ہوتا ہے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔