پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سول سروس اور فوج کی بناوٹ، ساخت اور گھڑت ایک جیسی ہے۔ اس لئے کہ انہیں انگریز نے برطانوی استعمار کے تحفظ اور نوآبادیاتی تسلّط کے اُصولوں میں گُندھے ہوئے دھاگے سے بُنا ہے۔ افواج کے لئے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات کے تحفظ کے لئے 1600 عیسوی میں ہی بھرتی کر لی گئی تھی اور یہ تقریباً ایک سو تہتر سال تک ہندوستان میں برطانوی تجارت کا تحفظ کرتی رہی۔
ہندوستانی فوج میں مسلسل مقامی افراد کو بھرتی کیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ہندوستان پر قبضے کا منصوبہ بھی بنتا رہا۔ سراج الدولہ کا بنگال اس فوج کا پہلا نشانہ تھا۔ 1757ء کی جنگِ پلاسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کی پہلی فتح تھی جو ایک جرنیل سید میر جعفر علی خان بہادر کی غدّاری سے ممکن ہوئی۔ آغاز میں بنگال کی حکمرانی اسی میر جعفر کو ہی دے دی گئی لیکن غدّاری کا یہ صلہ زیادہ دیر قائم نہ رہا اور انگریز خود حکمران ہوگیا۔
شروع شروع میں بغیر کسی قاعدے قانون، حکومت چلائی جاتی رہی مگر 1793ء میں ایک سول سروس کا ڈھانچہ متعارف کروایا گیا۔ اس ڈھانچے کو کارنویلس کوڈ (Cornwallis Code) کہتے ہیں۔ یکم مئی 1793ء کو نافذ ہونے والے اس ضابطے کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کی سروس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، محصولات (Revenue)، عدلیہ (Judiciary)، اور تجارت (Commerce)۔
عدلیہ اور محصولات کے افسران پر تجارت کرنے کی پابندی عائد تھی تاکہ ان کا اس سے کسی بھی قسم کا مفاد وابستہ نہ ہو۔ اس "قربانی" کے بدلے، انہیں انتہائی اہم حیثیت دے کر شاندار مراعات اور تنخواہوں سے نوازا گیا۔ محصولات کے افسران ہی سے بعد میں کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدوں کا ارتقاء ہوا اور آخر کار ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایک ایسا عہدہ تخلیق کیا گیا جو نہ صرف ایک ضلع کا انتظامی سربراہ تھا بلکہ اپنے ضلع کی حدود میں وہ انگریز وائسرائے کے اختیارات رکھتا تھا۔ کئی ایکڑوں پر پھیلی اس کی رہائش گاہ تھی اور اس کی تنخواہ اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے ذہن میں کرپشن، بددیانتی یا کسی قسم کے کاروبار کا تصور بھی آنا محال تھا۔
آخری دفعہ جب انگریز نے تنخواہوں پر نظرثانی کی تو ایک ڈپٹی کمشنر کی تنخواہ کم از کم دو ہزار روپے تھی جبکہ اس دور میں ایک کلرک کی تنخواہ صرف بارہ روپے ماہانہ تھی۔ اسی طرح عدلیہ کو مالی مسائل سے آزاد رکھنے کے لئے سیشن جج کی تنخواہ ڈپٹی کمشنر سے بھی زیادہ رکھی گئی تھی۔ سول سروس کی طرح یوں تو افواج کی تنخواہیں بھی بہتر تھیں مگر وہ مراعات کے اعتبار سے سول سروس کا ہرگز مقابلہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ انہیں مراعات عطا کرنے کے لئے انگریز نے ایک طریق کار وضع کر رکھا تھا کہ افواج میں سے بہترین افسران کو سول سروس میں بھیجا جاتا تھا۔
سنڈیمن، لارنس، لٹن، بارنس، لائل وغیرہ کہ جن کے نام پر آج شہر یا شاہراہیں موجود ہیں، یہ سب انگریز سول سروس کے وہ افسران تھے جو پہلے فوج میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد سول سروس میں آئے تھے۔ پاکستان میں اس کی مثال سکندر مرزا کی ہے جس نے 1920ء میں برٹش آرمی میں کمیشن لیا۔ بنگال کے اس آفیسر نے 1920ء ہی میں وزیرستان کی جنگ میں اپنے مسلمان پشتون بھائیوں پر گولیاں چلا کر انگریز کا دل جیتا اور اس کے صلے میں اسے سول سروس میں بھیج کر 1926ء میں علی گڑھ میں اسسٹنٹ کمشنر لگا دیا گیا۔
سول سروس میں نوکری کے ساتھ ساتھ اسے فوج میں بھی مسلسل پرموشن دی جاتی رہی۔ وہ ترقی پا کر ہزارہ کا پولیٹیکل ایجنٹ بنا تو 1927ء میں اسے ساتھ ہی فوج میں کیپٹن بھی بنا دیا گیا۔ آخری دفعہ جب وہ سیکرٹری دفاع کے عہدے سے صدرِ پاکستان بنا تو وہ میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھا۔
صدارت کے عہدے پر ہی اس نے سات اکتوبر 1958ء کو اپنے جونیئر پارٹنر اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا، مگر صرف 20 دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو جب جسٹس منیر نے یہ فیصلہ دیا کہ "طاقت ہی اصل قانون ہوتی ہے" تو اس نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کی دو سو سالہ بساط اُلٹ کر رکھ دی۔ اب ملٹری بیوروکریسی سینئر پارٹنر بن گئی اور سول بیوروکریسی جونیئر کی سطح پر آ گئی۔ اس اہم تبدیلی کے بعد کے پینسٹھ سال اس ملک میں افواجِ پاکستان کے عروج اور سول سروس کے زوال کے سال ہیں۔
بظاہر دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اس ملک کے عوام پر بے دریغ حکمرانی کرتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کی مراعات یہاں تک کہ اختیارات میں بھی نمایاں فرق آتا چلا گیا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے بارہ سال اس پرانی شادی کے مرتب کئے گئے نئے اُصولوں کے ابتدائی سال تھے۔ سول سروس نے انتہائی آسانی اور خوش دلی سے طاقت کے اصل مرکز "فوج" کے سامنے اپنا سر نگوں کر دیا اور اب عوام پر حکمرانی کے تمام "حربے" فوج کے جرنیلوں کی چھائوں میں استعمال کئے جانے لگے تھے۔
فوج سے سول سروس میں لوگوں کو بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری رہا مگر اس عرصے میں ان کا معیار برقرار رکھا گیا۔ کیپٹن کی سطح کے ایسے افراد کو سول سروس میں بھیجا جاتا جو ملٹری اکیڈیمی میں اعزازی تلوار "Sword of Honor" کے مستحق قرار پائے ہوتے تھے جیسے کیپٹن عسیانی وغیرہ۔ لیکن وقت کے ساتھ سول سروس میں بھیجے جانے والے افسران خالصتاً سفارش اور اقرباء پروری پر بھیجے جانے لگے، جس کی بدترین مثال مریم نواز کے شوہرِ نامدار کیپٹن صفدر کی ہے۔ ایسے افسران کی ایک طویل لسٹ ہے جو کسی جرنیل کے بیٹے، داماد، بھانجے، بھتیجے تھے یا پھر ان کے لاڈلے اے ڈی سی رہے تھے۔
اس پینسٹھ سال کے عرصے میں اتنا پانی پُلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے کہ اب دونوں گروہوں کی صورت ہی پہچانی نہیں جاتی۔ وہ سول سروس جس کی بنیاد پر انگریز نے ایک ایسا نظام قائم کیا تھا جس کے ذریعے وہ عام ہندوستانیوں کو خوش رکھنے کے لئے ان کے درمیان عدل قائم کیا کرتی اور یہ افسران رشوت و بددیانتی سے پاک ہوتے۔ البتہ یہ سول سروس تاجِ برطانیہ کے خلاف بغاوت کو کچلنے اور اس کے اقتدار کو قائم کرنے کے لئے عوام پر کسی بھی قسم کا ظلم روا رکھنے کے لئے تیار رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ 1857ء کے بعد نوے سالہ اقتدار میں انگریز نے اس ہندوستان کے وسائل کو بے دریغ طریقے سے لُوٹا، لیکن عام آدمی کو بہت حد تک مطمئن رکھا۔
دوسری جانب انگریز نے اپنی افواج کو عوام سے اتنا دُور رکھا کہ عام آدمی کا سایہ بھی ان پر نہ پڑے تاکہ بوقت ضرورت عوام کو دبانے کے لئے ان کا خوف ہی کافی ہو۔ شہروں سے کئی میل دُور کنٹونمنٹ بنائے گئے اور فوجیوں کو سول علاقوں میں آنے کے لئے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا۔ لاہور کا سول علاقہ چیئرنگ کراس پر ختم ہو جاتا تھا اور کنٹونمنٹ کئی میل دُور میاں میر سے شروع ہوتا۔
گذشتہ پینسٹھ سال میں سول سروس کے ڈھانچے کی مسلسل تباہی جاری رہی اور ایک لمحے کے لئے بھی اس کو گرانے کی رفتار میں کمی نہ آئی۔ افواجِ پاکستان کے جرنیل ہوں یا سیاستدانوں کے وزرائے اعظم سب نے سول سروس کے مضبوط ڈھانچے کو اوّل تو کمزور کر کے اپنے حق میں نرم کرنا چاہا اور پھر مسلسل شکست و ریخت سے اسے تباہ و برباد کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی 1973ء کی سول سروس ریفارمز اور پرویز مشرف کی 2001ء کا ناظمین کا نظام اس تباہی کی واضح مثالیں ہیں۔ (جاری ہے)