جنوری 2013ء کی یخ بستہ سردی میں جب علمدار روڈ پرہزارہ قبیلہ کے مرد و زن چھیاسی (86) میتیں اپنے درمیان رکھے ہوئے دھرنا دے رہے تھے تو ان سے یک جہتی کے لیے ملک کے دیگر شہروں میں ان کے ہم مسلک اہلِ تشیع بھی دھرنا دیئے ہوئے تھے۔ کاش اس ملک میں رہنے والے دیگر مسالک کے لوگ بھی ہزارہ قبیلہ کے افراد کے دکھ میں شریک ہو کر اپنے اپنے علاقوں میں احتجاجاً دھرنا دیتے، تو مجھے یقین ہے کہ آج سات سال بعد ہزاروں کو ایک بار پھر کوئٹہ کی سردی میں اپنی گیارہ میتیں مغربی بائی پاس پر رکھ کر دھرنا دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ہزارہ قبیلے کا معاملہ دیگر مسالک کی اسی بے اعتنائی اور بے رُخی نے گھمبیر بنا دیا ہے۔ مدتوں میں نے اپنے ملک کے علمائے کرام سے دست بستہ عرض کی ہے کہ"ملی یکجہتی کونسل"بنانے کی بجائے اگر سنی علمائے کرام کسی دھماکے میں مرنے یا ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہوجانے والے شیعہ افراد کے جنازوں میں اپنے مقتدیوں کو لے کر ایسے جوق در جوق شامل ہوں، جیسے وہ اپنے اکابرین کے جنازے پڑھتے ہیں یا اپنے بزرگوں کے عرس میں شریک ہوتے ہیں اور شیعہ علماء کرام اپنے لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ یا دھماکوں میں جاں بحق ہونے والے سنی اکابرین کی نماز جنازہ میں ایسے شرکت کی ترغیب دیں جیسے عاشورہ اور چہلم کے جلوسوں میں جانے کی ترغیب دیتے ہیں تو اس ملک میں فرقہ واریت کا سانپ علماء کرام کی جوتیوں کے نیچے آکر کب کا کچلا جاچکا ہوتا۔
فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونیوالے قتل کا الزام آپ امریکہ، ایران، عرب ممالک سے لے کر بھارت بلکہ ملکی اداروں پر بھی لگا سکتے ہیں، مگر اس کو روکنے میں جو کوتاہی ہے اس کی بنیادی ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ہماری سیاست بھی فرقہ وارانہ اختلاف کی تابع ہوتی جا رہی ہے۔ کوئٹہ بائی پاس پر دھرنا دیئے ہوئے ہزاروں کے بارے میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کاش شیعہ علمائے کرام کے ساتھ وہاں سنی علمائے کرام بھی موجود ہوتے، مگرمجھے اچانک ایک بہت بڑا دھچکا لگا جب وزیراعظم عمران خان نے انہیں منانے کے لیے بھی اپنی کابینہ سے دو شیعہ ارکان علی زیدی اور زلفی بخاری کو چنا۔ اس حرکت نے تقسیم کو اور گہرا کردیا۔
ہزارہ قبیلہ چوتھے منگول حکمران ارغون خان کے بیٹے "غیاث الدین محمد خدابندہ" کی اولاد ہیں۔ یہ ارغون خان کی تیسری عیسائی بیوی کا بیٹا تھا جس کا نام ماں نے نکولس رکھا اور عیسائی پادری کے پاس جا کر بپتسمہ بھی دلوایا۔ یہ اور اس کا بھائی غازان خان دونوں عیسائت سے بیزار ہوکر مسلمان ہوگئے۔ غازان خان نے اپنا نام محمود اور نکولس نے اپنا نام محمد رکھا۔ یہ دونوں سنی العقیدہ مسلمان تھے، لیکن خدابندہ کے بقول وہ حنفی اور شافعی اختلافات سے اس قدر بیزار ہوا کہ اس نے شیعہ علمائ"الہلی" اور"البحرانی" کیساتھ نشست و برخاست شروع کی اور پھر 1310ء میں اثنا عشریہ شیعہ ہوگیا۔ جبکہ دوسرا بھائی غازان خان سُنی رہا اور وہ منگول سلطنت کا سربراہ بھی بنا، جو تبت سے لے کر دجلہ و فرات تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے منگولوں کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا اور اسی کی وجہ سے تمام منگول جوق در جوق مسلمان ہوگئے۔ اسی کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے میں
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
غیاث الدین محمد خدابندہ کے ساتھ منگولوں کی ایک بہت بڑی تعداد شیعہ ہوگئی، جو بعد میں ہزارہ کہلائی جو دراصل منگولوں کی ایک فوجی یونٹ سے تعلق رکھتی تھی جو ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔ غازان خان نے اپنی سلطنت میں اسلامی قوانین نافذ کئے، شراب اور سود پر پابندی لگائی۔ اس کی موت کے بعد محمد خدابندہ حکمران ہوا تو اس نے حجاز کے علاقے پر لشکر کشی کی تاکہ اسے ایرانی منگول سلطنت کا حصہ بنایا جائے، لیکن جزیرہ عرب اور حجاز کے حکمران حسام الدین محمد ابن عیسیٰ نے بصرہ عبور کرتے ہی اس لشکر کو بدترین شکست سے دوچار کر دیااور پوری فوج بکھر کر رہ گئی۔ اس کے چند ماہ بعد مشہور عالم اور مؤرخ جس نے "جامع التواریخ"مرتب کی، رشید الدین فضل اللہ ہمدانی، اس نے ہزارہ قبیلہ کے مورث اعلیٰ خدابندہ جو خود کوچینی نام"اولجائتو" سے بلواتا تھا، اسے زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ اس جرم میں رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کی گردن اُڑا دی گئی۔
ایران کی علمی تاریخ کا یہ روشن ستارہ اپنی قائم کردہ مشہور علمی درسگاہ"ربع رشیدی"کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ آج اس عظیم درسگاہ کے صرف کھنڈرات میں نظر آتے ہیں۔ رشید الدین فضل اللہ ہمدانی ایک قوم پرست ایرانی تھا، جس نے جامع التواریخ میں پہلی دفعہ اس خطے کا نام ایران رکھاتھااور اس کی شاعری "پہلوی نظمیں " کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ جب امیر تیمور کا بیٹا جلال الدین میران شاہ حکمران ہوا، توایک منگول حکمران کے قتل کے جرم میں فضل اللہ ہمدانی کی قبر کھدوائی گئی اور اس کی ہڈیاں ایک یہودی قبرستان میں دفن کر دی گئیں کیونکہ وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک ایرانی یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی نوعیت کے بے شمارگروہی، سیاسی اور مسلکی اختلافات اور لڑائیوں کی وجہ سے"اولجائتو"کا وفادار منگول "ہزارہ قبیلہ"افغانستان کے دوردراز پہاڑی علاقے "ہزارہ جات" میں جاکر آباد ہو گیا۔ چند صدیوں بعد ہزارہ جات میں آباد یہ پُرامن قبیلہ اس وقت ایک بہت بڑی کشمکش کا شکار ہوا، جب امیر عبدالرحمٰن 1889ء میں افغانستان میں برسراقتدار آیا تو اس کے خلاف اس کے چچازاد بھائی محمد اسحٰق نے بغاوت کر دی اورہزارہ قبیلہ کے سربراہ شیخ علی ہزارہ نے محمد اسحٰق کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں کے خلاف دیگر قبائل کو اکٹھا کرنے کیلئے امیر عبدالرحمٰن نے اسے ایک مذہبی رنگ دیا اور سُنی شیعہ تقسیم کا آغاز کیا، یوں اس نے "سُنی ہزاروں "کو "شیعہ ہزاروں " سے لڑوا کر ان کی طاقت کو منتشر کر دیا۔ اس کے بعد امیر عبدالرحمٰن نے ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے۔
ہزارہ جات کے علاقہ کوایک عقوبت خانہ بناکر رکھ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے اس قبیلہ کے افراد ہجرت کر کے مختلف علاقوں میں پناہ گزین ہونے لگے جن میں ایک کوئٹہ شہر بھی تھا جہاں انگریز کی عملداری تھی۔ دوسری افغان جنگ کے دوران ہزاروں نے انگریز فوج میں ملازمت اختیار کی اور کوئٹہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ امیرعبد الرحمٰن کے بعد اسکا بیٹاحبیب اللہ برسرِ اقتدار آیا تو اس نے ہزاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ لیکن کوئٹہ شہر میں آبادہزار ے واپس جانے پر راضی نہ ہوئے۔ اس لیے کہ یہ لوگ برطانوی فوج میں اتنی بڑی تعداد میں بھرتی ہوچکے تھے کہ 1904ء میں ان کی ایک علیحدہ رجمنٹ "ہزارہ پائنیرز" بنائی گئی۔ کوئٹہ کی مشرقی سمت پہاڑ کے دامن میں مولانا ابو الاعلی مودودی کے ایک بزرگ کیرانی چشتی کی زمین تھی جسے ہزاروں کے بزرگ حاجی ناصر علی نے خرید کر وہاں اپنے قبیلے کو آباد کیا، اسی نسبت سے آج بھی یہ علاقہ "ناصر آباد" کہلاتا ہے۔ جنرل موسیٰ خان اپنے والد کے ساتھ افغانستان سے یہیں آکر آباد ہوئے، جو شیعہ ہزارہ قبیلے کے سرکردہ فرد کہلائے۔ جبکہ سُنی ہزارہ قبیلے میں قاضی فائز عیسیٰ کے دادا قاضی جلال الدین قلاّت ریاست کے وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئے۔
ہزارہ قبیلے کا المیہ یہ ہے کہ گذشتہ 132سال سے افغانستان اور خطے کے حالات پرسکون ہوتے ہیں اور نہ ہی ان پر مسلط مسلسل عقوبت اور ظلم میں کسی طورکمی آتی ہے۔ ان پر مظالم کی کہانی اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی داستان بہت طویل اور دلگداز ہے۔ اس کی کڑیاں لبنان کے تریپولی، شام کے حلب، عراق کے بغداد، افغانستان، ایران اور پاکستان کے بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیئے انہیں علاقائی حالات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ (جاری ہے)