درۂ بولان میں مچھ کا یہ علاقہ جہاں "ہزاروں" کا قتل عام ہوا، ایسے واقعات کے حوالے سے اسکی اپنی ایک تاریخ ہے۔ معاملے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے، مچھ اور اس کے اردگرد آباد قوموں اور قبیلوں کا جاننا انتہائی ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس پورے علاقے میں کوئلے کی کانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے آبائی علاقوں کی پسماندگی اور غربت کا علم اور کانوں کے مالکان کے بارے میں تفصیلی معلومات اس واقعے کے پس منظر کوجاننے میں بہت حد تک معاون ہو سکتی ہیں۔ جذباتیت سے دور اور مسلکی و نظریاتی وابستگی سے مکمل طور پر علیحدہ ہو کر اس مسٔلے کو سمجھنے کی اشدضرورت ہے، ورنہ ہم کبھی بھی اس طرح کے مسائل کو حل نہیں کر پائیں گے۔ گذشتہ پندرہ سالہ میڈیائی دور میں پاکستان کے ساتھ جو سب سے بڑا ظلم ہوا وہ یہی ہے کہ ہر کسی نے اپنی نظریاتی اور مسلکی عینک لگا کر تجزیہ کیا۔ ایماندارانہ تجزیے میں خطرہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ایک نہیں بلکہ سب کے سب گروہ ناراض ہوتے ہیں، مگر غیرجانب داری اور نیک نیتی سے لکھنے والے کو اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ بقول اقبالؒ "اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش"۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کی یہ پٹی جو کوئٹہ کے شمال میں "تکاتو" پہاڑ اور زیارت کے پہاڑوں کے بیچوں بیچ "ناکس" اور "شاہرگ"کی کانوں سے گھومتی ہوئی، دو راستوں سے کوئٹہ کے گرد نیم دائرہ بناتی ہے، ایک سمت سے یہ کوہ مردارمیں "سنجدی" اور پھر اسی پہاڑ کے اختتام پر "مچھ"کے علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایک زمانے میں ان کانوں کی ملکیت اکثر پنجابی، سرائیکی اور اردو بولنے والوں کے پاس ہوتی تھی اور مزدورکانکن خیبر پختونخواہ کے علاقے سوات خصوصاً شانگلہ سے آتے تھے۔ مقامی بلوچ اور پشتون قبائل کا ان کانوں میں حصہ اس لیے ضرور رکھا جاتا تھاکہ مالکوں اور کانکنوں دونوں کوتحفظ ملتا رہے۔ اس کاروبارنے آبادکاروں کی ایک امیر کیمونٹی تیار کی جو ایک عرصے تک کوئٹہ پر چھائی رہی۔ مچھ میں بھی زیادہ تر کوئلے کا کاروبار وہاں موجود آبادکارہی کیاکرتے تھے۔ بلوچستان میں انگریز کے زمانے ہی سے جب کبھی حکومت کے خلاف لوگ اٹھتے تو اس کے نتیجے میں کوئلے کی کانوں کا دھندہ سب سے پہلے متاثر ہوتا۔ وجہ ایک تھی کہ ان کانوں میں کام کرنے والے مزدور، علاقائی نہیں ہوتے تھے اور مالکان بھی زیادہ تر "سٹیلر" تھے اس لیے یہ کاروبار سب سے آسان ٹارگٹ تھا اور کسی قسم کے قبائلی ردِ عمل کا خوف بھی نہیں تھا۔
"دشت"سے لے کر "بی بی نانی پُل" تک کا علاقہ ہر دور میں تخریب کاری اور دہشت گردی کا مرکز رہا ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے بلوچستان کو ملانے والی بنیادی شاہراہ پر واقع ہے اس لیے یہاں دہشت گردی بہت جلد نمایاں ہوجاتی ہے۔ یہ ایک تنگ درہ ہے جس کے دونوں اطراف بلند و بالا پہاڑوں میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے راستے ہیں، جن پر مقامی لوگ آج بھی پیدل سفر کرتے ہیں۔ دونوں جانب کے پہاڑوں کے بیچ، پچاس سال سے کئی ایسے محفوظ مقامات موجود ہیں جو فراریوں اور تخریب کاروں کے کیمپوں کے طور پر وقت پڑنے پر زندہ ہوجاتے ہیں۔ سپلنجی، رودبار، سانگان، سورنیج، پنجپائی اورا غبرگ وغیرہ، ان اندرونی راستوں کی وجہ سے ایسے آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ ان رستوں پر دن رات سمگلنگ آسانی سے ہوتی رہتی ہے اور مجرموں، قاتلوں اور دہشت گردوں کو پناہ کے لیے ٹھکانے بھی میسر آتے ہیں۔
یہی غیر معروف پہاڑی راستے کسی مجرم کوباآسانی افغانستان بھی پہنچا سکتے ہیں اور قاتلوں کو وہاں سے لا بھی سکتے ہیں۔ اس سارے علاقے میں زیادہ تر بروہی اور بلوچ آباد ہیں اور کسی اجنبی کا واردات کرکے ان علاقوں میں چھپنا یا ان راستوں سے گذرناکسی طور بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔ اپنے مخصوص محلِ وقوع کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی کارروائی کے دوران بھی یہ علاقہ شدید متاثر ہوا تھا اور اکبر بگٹی کے جاں بحق ہوجانے کے بعد بھی اسی علاقے سے ہی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا آغاز ہوا تھا۔ پہلا دل دہلا دینے والا واقع مچھ سے چند کلومیٹر دور "پیرغیب"کے تفریحی مقام پر پیش آیا جہاں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین پکنک پر گئے ہوئے تھے، ان میں سے شناختی کارڈ دیکھ کر ایسے لوگوں کو شناخت کیا گیا جو بلوچ اور پشتون نہیں تھے اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔
وقت بدلنے اور حالت کے دن بدن خراب ہونے سے غیر مقامی لوگ علاقہ چھوڑتے گئے اورکوئلے کے کاروبار پر آہستہ آہستہ بروہی اور پشتون افرادکا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ مزدور تو بلوچستان سے ملتا ہی نہیں اس لیے انہیں سوات سے ہی لایا جاتا رہا۔ مچھ میں کوئلے کی کان پہلی دفعہ "گورنر موسیٰ" کے بھتیجے اور میرے بہت ہی پیارے مرحوم دوست "سردار سعادت" نے حاصل کی جو ہزارہ قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک دو اور "ہزاروں " نے بھی اس کاروبار میں حصہ لینا شروع کیا۔ ان مالکان کی وجہ سے اب یہاں کوئلے کی کانوں پر کام کرنے کے لیے افغانستان سے "ہزاروں " کو "برآمد" کیا جانے لگا کہ جو جفاکش بھی تھے اور اس کام کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ سردار سعادت جب 1988ء میں الیکشن لڑرہا تھا تو اس پر اسی کی ہزارہ قوم کے امیدوار نور محمد صراف نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے افغانستان سے لاتعداد"ہزاروں " کو لاکر بروری روڈ پر آباد کروایاہے اور ان کے شناختی کارڈ بنا کر اسکے خلاف جعلی ووٹ ڈلوائے ہیں۔ ہزاروں کا بروری میں آکر آباد ہونادراصل افغانستان میں روسی افواج کے آنے کے بعد شروع ہوا۔
یہ ان کی کوئٹہ میں دوسری آبادکاری تھی جو پہلی آبادکاری کے نوے سال بعد شروع ہوئی۔ جس طرح 1890ء میں حاجی ناصر علی نے کیرانی چشتی مودودی سے مشرقی پہاڑ کے دامن میں "ناصرآباد" کی زمین خرید کر اپنی قوم کو آبادکیا تھا ویسے ہی افغانستان کے آئے ہوئے ایک اور "ہزارہ" جس کا نام غالباً نجف علی تھا، اس نے مغربی پہاڑ کے دامن میں بروری میں بلوچوں سے زمین خرید کر اپنی قوم کو وہاں آباد کرنا شروع کیا۔ افغانستان سے آئے ہوئے پشتون مہاجرین اور ہزارہ مہاجرین میں ایک اہم اور نمایاں فرق یہ رہا کہ پشتون مہاجرین اپنے لیے بنائے گئے کیمپوں، جنگل پیر علی زئی، سرخاب، محمد خیل اور دیگر جگہوں پر بحثیت مجموعی جاکر آباد ہوگئے تھے۔ ان میں سے چند ایک صاحبِ حیثیت شہروں میں آبسے اور جو تھوڑا بہت کام جانتے تھے وہ بازاروں اور کھیتوں میں مزدوری کرنے لگے، کوئی کھیت پر رہتا تو کوئی کیمپ چلا جاتا۔ لیکن افغانستان سے آئے ہوئے" ہزاروں "میں سے کوئی ایک بھی ان مہاجر کیمپوں میں نہیں گیا بلکہ یہ سب کے سب بروری کے اس علاقے میں آکر آباد ہوتے چلے گئے اور یوں یہ "نووارد ہزارے" بھی کوئٹہ میں پہلے سے آباد ہزارہ کمیونٹی کا حصہ بن گئے۔
یہی وجہ ہے کہ مچھ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے گیارہ افراد جو بروری میں رہتے تھے ان کے بارے میں افغانستان کی حکومت نے باقاعدہ ایک مراسلہ تحریرکیا ہے کہ ان میں سے سات جاں بحق ہمارے شہری ہیں اور ہمیں تین مرنے والوں کے ورثا نے درخواست دی ہے کہ ہماری میتیں پاکستان سے منگوائی جائیں تاکہ ہم انہیں اپنے آبائی علاقے ہزارہ جات افغانستان میں دفن کریں۔ افغانستان سے آنے والے ان "ہزاروں "نے کوئٹہ میں سو سال سے آباد مقامی ہزاروں کیلئے بھی قدم قدم پر مشکلات کھڑی کیں۔ دونوں کے روّیوں، مزاج، ماحول اور معاشرتی تربیت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ایک کا جرم دوسرے کے کھاتے پڑ جاتا۔ لیکن سب سے بنیادی معاملہ جس نے اس صورت حال کو گھمبیر کر دیا وہ افغانستان سے تازہ آئے ہوئے ہزاروں کا افغانستان میں اپنی قوم کے دیگر افرا د سے مسلسل رابطہ، افغانستان کی جنگ میں ایک فریق کی حیثیت سے شمولیت اور اپنی دشمنی کا بوجھ ساتھ لے کر پاکستان منتقل ہونا تھا۔
افغانستان کی گذشتہ چالیس سال کی تاریخ نے جہاں پشتون، ازبک، تاجک اور ترک عوام کو قتل و غارت کا شکار کیا ہے، وہاں اس ملک کے ہزارے بھی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ جس طرح افغانستان میں موجود قبائل کے افراد کو عالمی جہادی تنظیمیں، دیگر ممالک میں پھیلی ہوئی جنگ میں ملوث کرتی رہی ہیں جیسے تاجک، تاجکستان میں، ازبک، ازبکستان میں اور پشتون، پاکستان میں، ویسے ہی ہزاروں کو بھی ان کی "مسلکی وابستگی" نے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلی ہوئی جنگ میں جھونک دیا۔ شام و عراق میں داعش کے ظلم کے خلاف لڑنے والوں میں افغانستان کے ہزارے پیش پیش رہے اور اس جنگ میں جانوں کا نقصان سب سے زیادہ انہی افغان ہزاروں کا ہوا۔ (جاری ہے)