کہانی کہنے والے، بادشاہوں کی داستانوں میں ایک ایسی حسینہ کی کہانی بیان کیاکرتے تھے، جسے فاتح حکمران سے انتقام لینے کے لیے پالا جاتا تھا۔ ایک انتہائی خوبرو، دلکش اور حسین بچی کو پورے ملک سے منتخب کیا جاتا اور اسے شاہی طبیب کی نگرانی میں پالاپوسا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہی طبیب اسے ایک خاص قسم کے زہر کو ہزار درجہ کم مہلک بنا کر بچپن سے اس خاتون کی خوراک کا حصہ بناتا اور وہ خاتون اس زہر پر پلتی ہوئی جوان ہوتی۔ عمر کے ساتھ ساتھ زہر میں بھی اضافہ کر دیا جاتا اور ایک دن ایسا آتا کہ اس کے جسم کے پسینے اور لعابِ دہن تک سب کے سب زہر آلود ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ایسی خاتون کو کوئی بھڑکاتی تو اس کے خون کی زہرناکی کی وجہ سے تڑپ کر مر جاتی۔ اسے پال پوس کر اس لیے جوان کیا جاتا کہ اگر ان کے ملک پر کوئی بادشاہ چڑھ دوڑے تو وہ اسے دیکھتے ہی اسکے حسن پر فریفتہ ہو کر اسے اپنے حرم میں داخل کر لے یا دوسری صورت میں شکست خوردہ قوم کے معززین اسے بادشاہ کو بطور نذرانہ کے طور پر پیش کردیں۔ دونوں صورتوں میں فاتح بادشاہ کی موت اس خاتون کی صورت سجا سنوار کر اس کے سامنے رکھ دی جاتی۔ کہانی کہنے والے کہانیوں کے دو مختلف انجام بتاتے تھے۔ بادشاہ حسن و دلکشی سے اس قدر مرعوب ہوجاتا کہ اسے اپنی قربت کا شرف بخشتا اور صبح کو اس کے حجلہ سے اس کی لاش برآمد ہوتی یا پھر اگر بادشاہ کو شک گزرتاتووہ اپنے شاہی طبیب کو بلاتا اور حقیقت کھلنے پر خاتون کو پیش کرنے والے عمائدین کی گردنیں اڑا دی جاتیں۔
دنیا کے ہر ملک کا بینکاری نظام بھی ایسی ہی خوبرو حسینہ ہے جسے آہستہ آہستہ سودی قرضوں کے زہر سے پالا جاتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ پوری قوم کے لیے مکمل خوفناک موت کا باعث بن جاتا ہے۔ فرق صرف ایک ہے کہ بینکاری نظام کی زہر آلود حسینہ اپنے شکار کو مارتی نہیں بلکہ نیم مردہ حالت میں زندہ رکھتی ہے اور اسے اتنی خوراک حاصل کرنے دیتی ہے، جس سے اس کے جسم میں پیدا ہونے والے خون کو وہ چوستی رہے۔ دنیا کے ہر درندے، زہریلے جانور یہاں تک کہ اسلحہ بردار دشمن کے حملے کے نتیجے میں انسان کی ایک ہی دفعہ میں موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن عالمی مالیاتی سودی نظام اپنے پنجوں میں آئے ہوئے شکار یعنی ملک کو زندہ رکھتا ہے اور پھر اس کا مسلسل خون نچوڑتا رہتا ہے۔ یہ خاموشی سے کسی ملک کی معیشت کے درخت پر آکاش بیل کی طرح لپٹنا شروع کرتا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ درخت بالکل کھوکھلا ہوجاتا ہے اور چاروں جانب صرف آکاش بیل کا غلبہ اور قبضہ ہوتا ہے۔ پاکستان کا سٹیٹ بینک جو اس ملک میں سودی معیشت کا محافظ اور نگہبان ہے، گذشتہ چند سالوں سے اس کا شکنجہ اس ملک پر ایک آکاش بیل کی طرح مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا تھا، لیکن اب پاکستان کی کابینہ نے یہ قانون منظور کر لیا ہے کہ پاکستانی معیشت کا کرم خوردہ درخت اس بینک دولتِ پاکستان کی آکاش بیل کی ملکیت ہے اور اسے پاکستانی معیشت پر مکمل حقِ حکمرانی حاصل ہے۔ خبردار کوئی اس آکاش بیل (سٹیٹ بینک) کو کوئی ہاتھ نہ لگائے، اس کی جانب انگلی نہ اٹھائے، یہ خود مختار ہے اور درخت (مملکتِ پاکستان) غلام۔ خود مختاری کی اس دستاویز یعنی 2021ء کے ترمیمی بل پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام ایک چار صفحات پر مشتمل خط تحریر کیا ہے۔ اس خط کی کاپیاں، چیئرمین نیب، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور رجسٹرار سپریم کورٹ کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (نون)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان متحدہ قومی مومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکرٹریٹ کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔ اس چھبیس نکاتی خط کو تحریر کئے ہوئے اس وقت تک بہتر گھنٹے ہو چکے ہیں لیکن شاید ہماری سیاسی قیادت، میڈیا، بیوروکریسی اور عدلیہ اس بدترین معاشی غلامی پر راضی ہو چکے ہیں جس میں "بینک دولتِ پاکستان "کی حیثیت ایک سود خور حکمران جیسی ہوگی اور پاکستان ایک مہاجن کے قرضے میں جکڑا ہوا غریب۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے خط کے چھبیس نکات میں سے چند پیش خدمت ہیں۔
1)۔ بینک دولتِ پاکستان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مالیاتی (Monetry) اور تبادلے (Exchange) کے طریقِ کار کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں افراطِ زر (Inflation) کو بھی کنٹرول کرے اور اس ضمن میں بینک کے لیے افراطِ زر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔
2)۔ بینک کو قیمتوں کے کنٹرول کی ذمہ داری بھی دی جا رہی ہے لیکن اگر وہ قیمتوں کو مستحکم نہ کر سکا تو اس سے کسی قسم کی کوئی باز پرس اور جوابدہی نہیں ہوگی۔
3)۔ پاکستان کا معاشی استحکام اب بینک کی دوسرے درجے کی ترجیح ہو گی۔
4)۔ حکومت اگر آئندہ کسی بھی قسم کے کوئی قرضے لے گی تو بینک ان کا ذمہ دار نہیں ہوگا، خواہ یہ قرضے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا ایشیئن بینک سے ہی کیوں نہ لیے گئے ہوں۔
5)۔ بینک حکومت کے ایسے قرضوں کا بھی ذمہ دار نہیں ہو گا جو حکومت بیرونی بینکوں یا حکومتوں سے براہ راست حاصل کرے گی، خواہ قرضے وہ (Swap line) باہمی کرنسی کے تبادلے کے طریقِ کار سے ہی کیوں نہ لیے گئے ہوں۔
6)۔ سیکشن (3) میں ترمیم کے بعد سٹیٹ بینک کو پاکستان میں کسی بھی جائیدادیا اثاثے وغیرہ کو قبضے میں لینے یا بیچنے کا اختیار ہوگا تاکہ قرضے کی ادائیگی اور دیگر معاہدات کو پورا کیا جا سکے۔ (ان میں تمام اثاثے شامل ہیں یعنی ایٹمی پروگرام بھی)۔
7)۔ سٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرکا چیئرمین اب خود اب گورنر بینک دولت پاکستان ہوگا اور پہلے حکومت پاکستان کے نمائندے کے طور پر سیکرٹری وزارتِ خزانہ بورڈ کا ممبر ہوا کرتا تھا، اب اسے خارج کردیا گیا ہے۔
8)۔ بینک دولتِ پاکستان اب اس ملک کی مالیاتی اور ایکسپورٹ پالیسی بنائے گا اور یہ ملک میں افراطِ زر، بیرون ملک اکاؤنٹس اور معیشت کے استحکام کابھی ذمہ دار ہوگا۔ (یعنی حکومت بالائے حکومت)۔
9)۔ حکومت یا اس کے ماتحت ادارے آئندہ اگر قرضہ لیں گے، ایڈوانس دیں گے یا سرمایہ کاری کریں گے تو سٹیٹ بینک کسی قسم کی کوئی گارنٹی نہیں دے گا۔ (یعنی اب حکومت کی مبلغ حیثیت بازار میں بیٹھے ایک عام دکاندار جیسی ہوگی)۔
10)۔ قانون کے (B)46کے تحت سٹیٹ بینک کے کسی بھی کام یا کارروائی کو کسی حکومت یا نیم سرکاری ادارے کوکسی صورت میں روکنے، ختم کرنے یا ملتوی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ پاکستانی حکومت یا اس کاکوئی ذیلی ادارہ کسی کو یہ خط بھی تحریر نہیں کر سکتے کہ وہ سٹیٹ بینک کی کچھ ہدایات پر عمل نہ کرے۔
11)۔ سٹیٹ بینک کسی بھی حکومتی ادارے سے کسی صورت کوئی ہدایت نہیں لے گا۔
12)۔ قانون کی دفعہ(1)52-A کے تحت بینک کے ممبران کو عدالتوں میں نہیں گھسیٹا جا سکے گا۔
13)۔ (3)52-Aکے تحت نیب اور ایف آئی اے اور دیگر ادارے بینک کے خلاف کسی قسم کی کوئی انکوائری یا تحقیق نہیں کرسکیں گے۔۔
14)۔ اس ملک کی مالیاتی پالیسی بناتے ہوئے بینک سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو بینک کے کسی عہدے دار کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا جائے گا۔ اگر حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی تو بینک اپنے افراد کو مکمل سیکورٹی فراہم کرے گا اور ہر سطح پر انکا دفاع کرے گا۔ اس کا اطلاق سابق گورنروں اور ملازمین پر بھی ہوگا۔ اس خط کے مندرجات نے اس ملک میں ابھی تک کوئی ہلچل پیدا نہیں کی۔ کسی سیاسی پارٹی کو خطرے کا ادراک نہیں ہوا۔ کوئی عدالتی سؤموٹو نہیں لیا گیا۔ میڈیا خاموش ہے۔ دانشور چپ ہیں۔ موت سے پہلے ہی موت کا سناٹا طاری ہے۔