ہم نے یہ بستی بڑی محنت سے برباد کی ہے۔ صدیوں سے انسان نے اسے سنوارنے پر اپنے شب و روز صرف کئے، لیکن ہم نے اسے صرف ایک سو سال کے اندر اجاڑ کر رکھ دیا۔ انسان اور دنیا کا ہر جانور تین جبّلی خواہشات لیکر پیدا ہوتا ہے، کھانا، سونا اور جنس۔ تمام جاندار ان خواہشات کی تکمیل کیلئے کسی ماحول، وقت اور علاقے کا انتخاب نہیں کرتے۔ جس طرح، جس جگہ اور جیسی خوراک میسر آجائے، پیٹ بھرتے ہیں اور جہاں مناسب ٹھکانہ مل جائے، نیند پوری کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے بھی صرف خواہشات کا پیدا ہونا شرط ہے، پھر اس کے بعد کسی رشتے کی تمیزکے بغیر اور کسی علیحدہ ٹھکانے کی تلاش کے باوصف، جنسی لذت کی گھڑیوں سے لطف اندوز ہونے میں دیر نہیں کی جاتی۔ انسانی تہذیب اور اس کے ارتقاء کے ماہرین جنہیں ماہرینِ بشریات (Anthrolpologist)اور ماہرینِ عمرانیات (Socialogist) کہتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انسان نے ان تینوں جبلی خواہشات کو لگام دینے کیلئے ایک لمبا تہذیبی سفر طے کیا ہے۔ خود قرآن پاک بھی اس تہذیبی ارتقاء کی گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے، "کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لے سکیں اور اس غرض سے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں عطا کیں اور پھر اسے ہدایت کا راستہ دکھایا۔ اب وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر (انکار) کرنیوالا" (الدھر:1-3)۔
بشریات و عمرانیات کے ماہرین اس انسانی ارتقاء کو معاشروں کا اندرونی عمل قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تہذیبوں کے ملاپ اور تجربات کی بھٹی میں یہ تمام اخلاقیات اور طرزِ معاشرت ڈھالے گئے ہیں، جبکہ اسلام اور دیگر مذاہب انہیں اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے بتائے ہوئے ہدایت کے راستے سے تعبیر کرتے ہیں، جو وقتاً فوقتاً انسانوں کو زندگی گزارنے کے اصولوں سے آشناکرتے رہے۔ دونوں میں تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اللہ کی ہدایت پر یقین رکھنے والے کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے تمام اصول و قواعد جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے بتائے ہیں وہ اٹل ہیں، ناقابلِ تنسیخ ہیں اور انہی پر عمل کرنے میں انسان کی فلاح ہے۔ جبکہ اللہ پر نا یقین رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام اخلاقیات دراصل انسان نے صدیوں کے تجربے سے خود تخلیق کی ہیں اس لیئے وہ خود ہی اسے تبدیل کرنے اور نئے اخلاقی اصول طے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
ان تینوں جبّلی خواہشات میں سے دو ایسی ہیں کہ انسان نے کبھی بھی وہ راستہ اختیار نہیں کیا کہ جو اسے واپس غیر مہذب زندگی کی طرف لوٹاتاہو۔ مثلاً انسان نے کبھی بھی بھنے ہوئے گوشت کی لذت کو ترک کر کے مرضی کے جانور شکار کرنے کے بعد کچا گوشت کھانے کی خواہش نہیں کی۔ آج دنیا میں کوئی ہے، جو زندہ بکرے کی گردن میں ہتھیار مار کر اس پر اسی عالم میں پل پڑے جب وہ ابھی تڑپ رہا ہو اور گوشت کھانے لگے۔ انسان کی دوسری خواہش نیند ہے، جسے انسان نے آرام سے آرام دہ تر بنانے کیلئے لاکھ جتن کئے۔ گھر، ٹھکانہ، چھت، یوں تو الفاظ ہیں، لیکن انسان نے ان میں ایسا رنگ بھرا ہے کہ زمین کے کونے کونے کو خوبصورت بنا دیا ہے۔ لیکن آج تک بحیثیت مجموعی انسان میں غاروں اور درختوں کی کھوؤں میں واپس لوٹ جانے کی کبھی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔ انسان نے کبھی آرام دہ بیڈ روم اور اٹیچڈ باتھ روموں کو چھوڑ کر جنگل بیابان کی سمت واپسی کا سفر اختیار نہیں کیا۔ لیکن ان دونوں جبّلتوں کے برعکس، جنسی جبّلت پر ایک ایسی افتاد گذشتہ دو صدیوں سے ٹوٹی ہے کہ انسان نے جنسی جذبات کو جن حیاء دارمہذب رشتوں کی خوبصورت بیلوں سے آراستہ کیا تھا، آج اسے یوں بگاڑا ہے کہ بالکل واپسی کا سفر تیزی سے شروع کردیا ہے۔ آج کا جنسی اخلاق دراصل حیوانیت کی تسکین بن چکا ہے۔ ایسا کبھی لاکھوں سال پہلے ہوتا تھا۔ انسان میں جنس کے جبّلی جنّ کو قابو میں رکھنے اور اس کو خاندانی محبت کے خوبصورت بندھن میں باندھنے کیلئے تہذیب کا ایک خوبصورت باغ سجایا گیا تھا۔ لیکن آج اس باغ کو مکمل طور پر اجاڑ دیا گیا ہے۔
انسان اس معاملے میں لاکھوں سال پہلے کے غیر تہذیب یافتہ زمانے سے بھی زیادہ بدترین اخلاقیات کے غلیظ گڑھے میں چھلانگ لگا چکا ہے۔ لاکھوں سال پہلے بھی انسان اور وہ تمام جانور جو اس دھرتی پر آباد تھے، انہیں علم تھا اور وہ اس پر یقین بھی رکھتے تھے کہ جنسی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے فطری طریق ِ کار ہی درست ہے۔ اس دور میں کبھی ہم جنس پرستی جیسے غیر فطری جنسی ملاپ کے شواہد نہیں ملتے۔ انسان کے سوا تمام جاندار جو اس دنیا میں رہتے ہیں ان میں آج بھی ہم جنسیت نظر نہیں آتی۔ البتہ وہ جانور جنہیں انسان فطری ماحول سے اغوا کر کے چڑیا گھروں جیسی جگہوں میں قید کرتا ہے، وہاں وہ اس طرح کے غیر فطری فعل کا ارتکاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان نے شروع دن والی جنسی حیوانیت کی طرف لوٹنے کے سفر کا آغاز کیا تو ایسے بے راہ روّیوں کو بھی اپنا لیا جو کبھی اس کی سرشت میں بھی نہیں تھے۔ انسان کی گذشتہ پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ میں جو چیز ہمیشہ قابلِ نفرت اور غیر فطری سمجھی جاتی رہی ہو، جس پر صرف چند گروہ یا علاقے عمل کرتے ہوں اور وہ بھی ہمیشہ معاشرتی طور پر معتوب رہے ہوں۔ آج جدید دنیا اس فعل کو "انسانی حقوق" کے ناطے عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مینا سوٹا یونیورسٹی کے لائبریرین جیمز مائیکل اور ایک طالبعلم رچرڈ بکلر نے 1970ء میں ضلعی عدالت میں شادی کی درخواست دی جو اس بنیاد پر نامنظور کر دی گئی کہ دونوں مرد تھے۔ یہ جدید دور کا پہلا واقعہ تھا، جب ہم جنس پرستی کی شادی کو قانونی حیثیت دلوانے کا آغاز ہوا تھا اور اس وقت دنیا کے انتیس ممالک میں یہ شادی جائز قرار دی جا چکی ہے جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ترقی کے مینارہ ملک بھی شامل ہیں۔
یہ اس تہذیبی اخلاقی زوال کی ایک علامت ہے جس کا آغاز گذشتہ دو سو سال پہلے آہستہ آہستہ شروع ہوا۔ یہ آغاز بالکل اس وارننگ کے عین مطابق ہوا ہے جو سید الابنیاء اور مخبرِ صادقؐ نے تمام انسانوں کو بحیثیتِ مجموعی دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: "جب تجھ میں حیاء نہ رہے تو پھر تو جو چاہے کر" (بخاری)۔ یعنی انسانی تہذیب کے زوال اور برائیوں کا آغاز کسی بھی معاشرے سے حیاء کے اٹھ جانے سے شروع ہوتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے اس طرح کی ایک اور وارننگ بھی ہے جو بہت خوفناک ہے، فرمایا: "بے شک حیاء اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے" (مستدرک الحاکم)۔ حیاء وہ جزو تھا جس پر انسانی تہذیب و تمدن کی عمارت صدیوں کی محنت سے استوار کی گئی تھی۔ یہ حیاء سب سے پہلے خاندانی رشتوں میں پروان چڑھتی ہے اور پھر دوستوں اور محلے داروں کے گروہ اسے قائم رکھتے اور اسی حیاء کی بنیاد پر شہر علاقے، ملک یا سلطنت کی مجموعی زندگی باحیاء نظر آتی۔ پوری تہذیب ایک کپڑے کی بُنت کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہے جسے حیاء کی گرہوں سے جوڑا جاتا ہے۔ جدید تاریخ میں سب سے پہلے حیاء کی یہ مضبوط گرہیں ادب و شاعری نے کھولنا شروع کیں اوردنیا میں ایسا ادب تخلیق ہونا شروع ہوا جس کا محور و مرکز انسانی جبّلت میں چھپی حیوانیت کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ اس حیوانیت کو خوشنما الفاظ میں اس طرح پیش کرتے کہ تہذیب کے پرسکون سمندر میں ابال اٹھنے لگتے۔ (جاری)