بھارت کے تازہ ترین فوجی بجٹ میں اضافے اور اسلحہ کی خریداری کا جس طرح مذاق اس وقت چین کے دفاعی تجزیہ نگار اُڑا رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین ایسے امریکی چار ملکی اتحاد سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہے کیونکہ بھارت اس اتحاد کا فرنٹ لائن لڑاکا ہے۔ چین کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں سے اسلحہ خرید کر کوئی ملک دنیا کے فوجی نقشے پر ایک قوت کے طور پر کبھی نہیں ابھرسکتا۔ چینی اخبار نے کرونا سے مارے ہوئے بھارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنی گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے بھارت نے اپنے تین ہزار چار سو تیس ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کو اس دفعہ صرف تین ہزار چار سو ستر ارب تک بڑھایا ہے جواسکے اس جنگی جنون کے عالم میں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ اس کا موازنہ انہوں نے چین کے عسکری بجٹ سے کیا ہے جس کا حجم بھارت کے دفاعی بجٹ سے چار گنا زیادہ یعنی 178.6ارب ڈالر ہے۔ چین کے دفاعی تجزیہ نگار "سونگ زونگ پنگ" (Song Zong Ping)نے بھارتی معیشت اور اس کے دفاعی اخراجات پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی معیشت اس معمولی اضافے کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ گذشتہ چند برسوں میں بھارتی دفاعی بجٹ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے لیکن چینی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بھی ایک عسکری سراب تھا۔
چینی فوج کے سٹریٹیجک اور ریسرچ ونگ کے ڈائریکٹر "گیان فینگ" (Gian Feng)نے کہا ہے کہ بھارت کی اسلحہ سازی کی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی استعدادبہت ہی کمتر سطح کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت جدید ترین ٹیکنالوجی والے ہتھیار بیرونِ ملک سے خریدتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ کبھی بھی چین پربرتری حاصل نہیں کر سکے گا، بلکہ وہ ان ہتھیاروں کے پرزہ جات کی مسلسل سپلائی، ان کی جدید صلاحیت (Upgradation) اور خاص طور پر ان کی دیکھ بھال میں غرق رہے گا۔ یہ سب ایسے مسائل ہیں جس کے لئے بھارت کوان تمام ملکوں کی جانب بار باررجوع کرنا پڑے گا، جہاں سے اس نے یہ اسلحہ خریدا ہے اور جنگ کے ایاّم میں اسلحہ، پرزہ جات اور دیگر سامانِ حرب کی سپلائی کوقائم رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بھارت نے جو ہتھیار امریکہ سے خریدے ہیں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سونگ زونگ نے کہا ہے کہ اگر یہ سامانِ حرب جنگ کے دوران خراب یا تباہ ہوگئے تو ان کی مرمت یا ان کے متبادل کے حصول کے لئے امریکہ سے رجوع کرنا پڑے گا اور ایسا کرنابھارت کی جنگی صلاحیتوں کو اس وقت سست بنا دے گا۔
مغربی ممالک سے خریدے گئے ہتھیار مہنگے بھی ہوتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال (Maintenance) پر بھی ایک کثیر رقم خرچ ہوگی جس کی بھارت کی معیشت موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ بھارت اپنی فوج میں ستر سال کے بعد بہت بڑی اصلاحات کر رہا ہے۔ ان اصلاحات کی اپنی ایک قیمت ہے۔ چین کے ساتھ اس کے سرحدی علاقے میں سڑکوں کا بھی بہت برا حال ہے، بلکہ وہاں تو سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بھارت وہاں تیزی سے سڑکیں تعمیر کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ نئے کنٹونمنٹ بھی بنا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس کی معیشت پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کے پاس نیا اسلحہ خریدنے یا ان کو جدید اور بہتر بنانے میں جو رقم مطلوب ہوگی وہ بہت کم رہ جائے گی۔
آج سے چند ماہ پہلے جب لداخ کے علاقے میں بھارت اور چین کی آپس میں جھڑپیں ہوئی تھیں تو" ہاورڈ کینیڈی سکول" نے محاذِ جنگ کی ایک تصویراتی گائیڈ جاری کی تھی جس میں سرحد کی دونوں جانب افواج اور فوجی قوت کے توازن کو دکھایا گیا تھا۔ یہ چین اور بھارت کی جنگ کے اس تھیٹر کی مکمل تصویر ہے جس میں بھارت اور چین دونوں کے میزائل اور ایٹمی پروگراموں کی بھی تفصیل درج ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر صرف بھارت اور چین مقابل پر آئیں تو دونوں کے درمیان طاقت کا توازن اسقدر کمزورہوگا کہ بھارت کا ایک روایتی جنگ کو جیتنا ناممکن لگتاہے۔ یہ وجوہات جو چینی دفاعی تجزیہ نگار بتاتے ہیں وہ عالمی ماہرین کے مطابق بھی بالکل درست ہیں اور بھارت کے سنجیدہ دفاعی ماہرین بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ صرف اور صرف اکیلے چین سے بھارت کا محاذ کھولنا ایک بدترین شکست کا سودا ہے۔ ایسی صورتحال میں خواہ بھارتی حکومت ہو یا امریکہ کا اتحاد، کوئی بھی بھارت کو تنہا اس جنگ میں کودنے کا مشورہ نہیں دے گا۔ ایسی صورت بھارت کے لئے خودکشی ہوگی اور امریکہ کے تمام اتحادیوں کیلئے بدنامی کا باعث۔
اس خطے میں امریکہ نے 2018ء سے آہستہ آہستہ اپنی موجودگی بڑھانا شروع کی تھی۔ امریکہ کے محکمہ دفاع نے اسی سال جو نیشنل ڈیفنس کی حکمت عملی پیش کی تھی اسے "Prioritising Great Power Compition"یعنی "بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کو ترجیح دینا"کہتے ہیں۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ "ہند چینی" (Indo-Pacific)خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلے میں اپنی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ جب نومبر 2019ء میں خطے میں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی فوجی قوت کا اندازہ لگایا گیا تو ساتھ اس بات کا بھی تخمینہ لگایا گیا کہ ہمیں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مزید کتنے ہتھیار اور ساز و سامان چاہیں۔ اس وقت یعنی 2019ء میں حملہ آور آبدوزوں کی تعداد 80کے قریب تھی جسے بڑھا کر 100کرنا مقصود تھا، سمندری لڑاکا بحری جہاز 150تھے جنہیں 228کرنا، F-35فائٹر طیارے صرف 238تھے جنہیں 2500کرنا اور آبدوز تباہ کرنے والے طیارے 100تھے جنہیں 250کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں موجود سمندر میں واقع جزیروں پر آسٹریلوی، امریکی اور جاپانی اڈوں کو جدید ترین لڑنے کے نظاموں سے آراستہ کرنا بھی اہداف میں شامل تھا۔
ان تمام جنگی تیاریوں کے علاوہ سیاسی سطح پر علاقے میں موجود تیس سے زیادہ ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتوں کا قیام اور وہاں کی عوام اور افواج کو اپنا ہمنوا اور ساتھی بنانا بھی ضروری تھا۔ اس ضمن میں فلپائن سے لے کر بھارت تک ہر ملک میں ایک رسہ کشی کا آغاز ہوا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد کو بیجنگ میں تقریر کرنے بھیجا گیا اور وہاں اس نے چین کو آنے والے دنوں کا "سامراج" بنا کر پیش کیا۔ ایک ایسا چین جو سرمایہ کاری کے ذریعے ملکوں کو یرغمال بنا رہا ہے۔ سری لنکا کی بندرگاہ کا معاملہ اٹھایا گیا، تھائی لینڈ میں اپنی مرضی کی فوجی حکومت کو مسلط کروایا گیا۔ امریکہ کی اس ساری کارروائی کے مقابلے میں چین نے کمال مہارت اور منصوبہ بندی سے پاکستان، نیپال اور برما میں خود کو مضبوط کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے یورپ اور افریقہ کے علاوہ جنوبی امریکہ کے ممالک کو بھی اپنے "ون بیلٹ ون روڈ" کے منصوبے میں شامل کر لیا۔ اس قدر وسیع منصوبہ بندی کے باوجود سارے منصوبے کی شاہ رگ تین ممالک سے جڑی ہوئی ہے، "برما، پاکستان اور بنگلہ دیش"۔ ان میں سب سے اہم پاکستان اور پھر برما ہے جبکہ بنگلہ دیش کی اہمیت نسبتاً کم ہے۔ (جاری ہے)