عالمی تجزیہ نگار اور میدانِ سیاست کے دانشور جوآجکل جنوبی ایشیا اور مشرقِ بعید میں لمحہ لمحہ بڑھتی ہوئی کشمکش کا مسلسل جائزہ لے کر ان پر گفتگو کرتے اور تجزیے تحریرکرتے ہیں، ان کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا موضوع یہ ہے کہ برما میں سیاسی تبدیلی کے بعد اگلا کونسا ملک نشانے پر ہوگا، بنگلہ دیش یا پاکستان۔ چین کی دفاعی حکمتِ عملی کیلئے ان دونوں ملکوں میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ پڑوس کا افغانستان بھی اس کی کامیابی کیلئے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی ہے۔ ایران بھی پڑوسی ہونے کی وجہ سے سی پیک منصوبے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔ اسی لیے چین نے ایران کے ساتھ 25 سالہ منصوبہ کیا ہے جس میں چین کی چار سو ارب کی سرمایہ کاری ہوگی اور ایران ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بھی بن جائیگا۔ خطے میں صرف ایک ہی ملک بھارت ایسا ہے جس کے ساتھ چین نے لاتعداد تجارتی اور اقتصادی معاہدے بھی کیے ہیں مگر اس کے باوجود بھارت، چین مخالف مغربی عالمی اتحاد کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ برما کے بعد مشرقی سمت کے ممالک میں سے واحد اہم ملک بنگلہ دیش ہے جس پر چین اسوقت اپنی نگاہیں مرکوز کیے ہوئے ہے۔
بنگلہ دیش اپنے اندر لاتعداد سیاسی کشمکشوں کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے جہاں کسی بھی دن اچانک ایسی افراتفری پھوٹ سکتی ہے۔ اس افراتفری سے بھارت کو مداخلت کا جواز بھی مل سکتا ہے اور بھارت نواز حسینہ واجد بھارتی مدد سے و بزور قوت مزید مسلط رہ کر چین کے مفاد پر ضربِ کاری لگا سکتی ہے۔ مغربی دنیا اور خصوصاً بھارت کے لیے حسینہ واجد اب ایک چلے ہوئے کارتوس کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو عوامی مقبولیت نہیں بلکہ فوجی قوت سے وہاں برسرِ اقتدار ہے اور اب اس کا بوجھ اٹھانا سیاسی طور پر غلط ہے۔ حسینہ واجد کو ایک طاقتور آرمی چیف کی مکمل مدد حاصل ہے، اس لیے ابھی تک طاقت و قوت کا توازن حسینہ واجد کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مذہبی طاقتوں پر کریک ڈاؤن کیا، پاکستان کے حامی "البدر" کے مجاہدین اور سیاسی طور پر مقبول رہنماؤں کو پھانسیاں دیں، مگر فوج اور بھارت نواز سیکولر لبرل لابی کی وجہ سے حالات زیادہ خراب نہ ہوسکے۔ حالات کو مزید خراب کرنے اور مداخلت کے جواز کیلئے ایک بڑے سکینڈل کی ضرورت تھی اور گذشتہ ایک ماہ سے حسینہ واجد اور فوج کے ایک پوشیدہ (Clandestine)کرپشن کے سکینڈل کے بارے میں ہلکی ہلکی خبریں باہر آنا شروع ہوچکی ہیں اور چند دن پہلے الجزیرہ ٹی وی نے کرپشن کے ایک بہت بڑے اور حیران کن سکینڈل کی داستان پر ایک گھنٹے کی ڈاکومنٹری نشر کر دی۔
اس ڈاکومنٹری کے مطابق شیخ مجیب الرحمن کو جب 15اگست 1975ء کو اس کے خاندان سمیت قتل کیا گیا تو اس کی دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ مغربی جرمنی میں مقیم تھیں۔ وہ بنگلہ دیش واپس نہ آئیں بلکہ انہوں نے بھارت میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ اسی دوران حسینہ واجد کو عوامی لیگ کر صدر چن لیا گیا۔ وہ 1981ء میں جلا وطنی ختم کرکے بنگلہ دیش آئی تو محمد پورہ، ڈھاکہ کے ایک خاندان کے پانچ بھائیوں نے اس کے پرائیوٹ سیکورٹی گارڈ ز کے فرائض سر انجام دینا شروع کر دیئے۔ ان میں چار بھائی ڈھاکہ شہر میں قتل و غارت، بھتہ خوری اور منشیات کے دھندے میں ملوث تھے، جبکہ پانچویں بھائی عزیز احمد نے بنگلہ دیشی فوج میں کمیشن حاصل کر لی تھی۔ چار بھائی انیس، ٹیپو، جوزف اور احمد، بدنام احمد گینگ کے نام سے کام کرتے تھے جو ڈھاکہ کی انڈر ورلڈ میں دہشت اور خوف کی علامت تھا۔ اس گینگ کے غنڈے عوامی لیگ کے سیاسی رہنماؤں کو سیکورٹی فراہم کرتے، مخالفین کو قتل اور خوفزدہ کرتے۔ ان میں سے ایک بھائی جوزف کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی، جبکہ باقی دو بھائیوں انیس اور حارث کو عمر قید ہوئی۔ لیکن انیس بھاگ کر ملائشیا چلا گیا اور حارث بھارت میں خفیہ ایجنسیوں کی پناہ میں زندگی گزارنے لگا۔
اس دوران ان کا بھائی عزیز احمد ترقی کرتا ہوا جرنیل کے عہدے پر پہنچا اور اسے 2010ء میں بنگلہ دیش بارڈر سیکورٹی گارڈز کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس نے اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان پر غداری کا الزام لگا کرشدید کریک ڈاؤن کیا کہ ان میں سے اکثریت کو جان بچانے کیلئے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں حسینہ واجد 2014ء کا الیکشن ایسے حالات میں جیتی کہ بنگلہ دیش کی گلیاں فسادات سے خونریز ہو رہی تھیں۔ حسینہ واجد نے جنرل عزیز کو 2018ء میں بنگلہ دیش کا آرمی چیف مقرر کر دیااور آرمی چیف بنانے کی تقریب کی صدارت بھی خوداس نے کی۔ اسی سال حسینہ واجد نے جنرل عزیز کے بھائی جوزف کی پھانسی کی سزا معاف کر دی اور نتیجے میں جنرل عزیز نے پورے ملک کے پولنگ اسٹیشنوں کو گھیرے میں لے کر الیکشن میں ایسی دھاندلی کروائی کہ حسینہ واجد بھاری اکثریت سے جیتی۔ اس وقت یہ چاروں بھائی ملائشیا اور ہنگری میں حسینہ واجد اور آرمی چیف جنرل عزیز کی کرپشن کے سرمایہ کے محافظ بھی ہیں، کاروبار کے انچارج بھی اور مزید کرپشن کے فرنٹ مین بھی۔ الجزیرہ نے خفیہ کیمروں سے ان تمام بھائیوں کی کارروائیوں، کاروبار اور ان کے حسینہ اور آرمی چیف سے تعلق کی تفصیلات بھی ریکارڈ کر کے دکھائی ہیں۔ ان میں جنرل عزیز کی ایک گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ حسینہ واجد اس کے بھائیوں کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔
جنرل عزیز کے اس دور کی تفصیل بھی ہے جس میں 9دسمبر 2014ء کو خود ہنگری گیا اور وہاں موجود لوگوں سے مل کر اپنے جرائم پیشہ بھائیوں کیلئے ٹھکانے کا بندوبست کیا۔ پھربنگلہ دیش واپس جا کر اپنے دونوں بھائیوں کے جعلی ناموں سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کر انہیں ہنگری اور ملائشیا بھجوادیا گیا۔ فوج اور سیاستدانوں کا یہ مجرمانہ گٹھ جوڑ جسے بے نقاب کیا جا رہاہے، یہ صرف چھوٹا سا سکینڈل نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑے سکینڈل کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج اسرائیل کی حکومت کے ساتھ خفیہ روابط میں ہے اور ہنگری کے راستے اسرائیلی اسلحہ اور جاسوسی کے آلات خریدتی ہے اور ڈیل کی کمیشن حسینہ واجد اورجنرل عزیز مشترکہ طور پروصول کرتے ہیں۔ اس پیسے کی جنرل عزیز کے بھائی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش جسے اب تک ایک کامیاب مثالی جمہوریت کہا جارہا تھا، مگر اس سکینڈل کے آنے کے بعد وہاں ناراض سیاسی گروہوں کو اکٹھا کر کے ایک انارکی پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس وقت سیاست دان اور فوج ہی بدنام ہوچکے ہیں اور اب خطے میں "امن کے قیام" کیلئے صرف بھارت کی فوج بچ جاتی ہے جو پہلے بھی 1971ء میں اسی بہانے سے مشرقی پاکستان میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ ایک خطرناک مرحلہ ہے، اعصاب کی ایک جنگ ہے جس میں بھارت اور چین دونوں داخل ہوچکے ہیں اور ان دنوں نے بنگلہ دیش کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ خطے میں اسوقت ایک ایسا ماحول ہے جہاں انگلیاں بندوقوں کے ٹریگر پر، دماغ جنگی منصوبوں میں الجھے ہوئے، افواج مکمل تیار اور ملکوں کے حالات افراتفری میں ہیں۔
ایسے میں بھارت کے پاس اب صرف اور صرف ایک ہی راستہ بچا ہے، جس سے وہ اپنے آپ کو اندرونی طور پر مضبوط کرے، چین کو بالاواسطہ چیلنج کرے اور خطے میں مطلوبہ جنگ کا آغاز بھی کردے۔ یہ پاکستان پر حملہ ہے۔ اس کیلئے فضا 75 سال سے سازگار ہے۔ یہ جنگ کا وہ چھوٹا سا آغاز ہوگا جس سے خطے میں چاروں طرف زہریلے بادل چھا جائیں گے۔ (ختم شد)