Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kargas Ka Jahan Aur Hai Shaheen Ka Jahan Aur (1)

Kargas Ka Jahan Aur Hai Shaheen Ka Jahan Aur (1)

سیدنا عمرِ فاروقؓ کے زمانے میں لڑی جانے والی "جنگِ قادسیہ"ہی تھی، جس نے 637عیسوی میں دریائے آمو اور دریائے سندھ کے درمیان آباد "خراسان" کے قدیمی علاقے کے افغان باشندوں کو صدیوں کی غلامی سے آزاد کیا اور صرف ایک اللہ کی غلامی کے جذبے سے سرشار افغان قوم وجود میں آئی۔ مسلمان ہونے کے بعد چودہ سو سال اس قوم نے آزادی و حّریت کی ایک ایسی تاریخ رقم کی جو آج تک روشن چلی آرہی ہے۔ لیکن تاریخ کے اوراق مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے اسی افغانستان کو بیرونی حکمرانوں اور حملہ آوروں کے لیے ایک تر نوالہ بتاتے ہیں۔ ایران کے حکمران "دارا" نے 500قبل مسیح میں اس سرزمین کو آسانی کے ساتھ فتح کیا، ہندوکش پہاڑکے دامن میں اپنی افواج کی چھاؤنیاں بنائیں اور موجودہ بلخ کا شہر جو اس زمانے میں "باکتریا"کہلاتا تھا، اسے اپنا مرکزِ حکومت بنایا۔ یہ وہی شہر ہے جو پارسی یا زرتشت مذہب کی جنم بھومی ہے۔

باکتریا کا یہی علاقہ دارا کی فوج کا اہم مرکز بنارہااور یہاں کے لوگوں نے اپنے ایک غیر ملکی ایرانی حکمران"دارا"کی سلطنت کے دفاع میں 330 قبل مسیح"گوگا میلہ"کے مقام پر ایک دوسرے غیر ملکی فاتح، یونان کے"سکندر"سے لڑائی کی، لیکن بدترین شکست کے بعد اسی"سکندر"کی بادشاہت کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ سکندرنے اپنے قیام کے تین برسوں میں نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے اردگردکی ریاستوں جو بعد میں روس کا حصہ بنیں، ان پر بھی فتح حاصل کر لی۔ یوں سکندر نے 327قبل مسیح تک پورا علاقہ اپنے زیرنگین کر لیا۔ دریائے آموکے کنارے"باکتریا"ریاست کے مرکز"وخش ارد" کے افغان حکمران کی بیٹی"رخسانہ"سے سکندر نے شادی کی اورپھر برصغیر پاک و ہند کے علاقے کی جانب بڑھ گیا اور اپنے پیچھے"سیلوکس"کو حکمران بنا گیا۔ لیکن سکندر کے مرنے کے تین سال بعد ہی حالات ابتر ہوئے تو ہندوستان کے"موریہ خاندان"نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

اسی دور میں "اشوک"نے"بدھ مت"مذہب اختیار کیا تھااور اس کی وجہ سے بامیان کے علاقوں میں "گوتم بدھ"کے قدیم مجسمے نظر آتے ہیں۔ طویل عرصہ تک یونانی اور باکتریائی حکومتیں اس خطے پر قائم رہیں۔ اس کے بعد "ساسانی"آئے، "پارتھنز"آئے اور سنٹرل ایشیا سے "سفیدہن"اس افغان علاقے پر قابض رہے۔ اسی خطے پر "کشان"خاندان نے بھی اپنی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ غرض یہ پورا خطہ مغربی ترکوں، سنٹرل ایشیا کے قبائل، ساسانی حکمرانوں اور ہندوستان کے موریہ اور دیگر حکمرانوں کی گذرگاہ اور آماجگاہ بنا رہا، یہاں تک کہ 637عیسوی میں سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے میں "جنگ قادسیہ"ہوئی اور پھر700عیسوی تک"بنو اُمیہ"کے دور میں قندھارتک کا علاقہ آزاد، حریت پسند اور غیور مسلمان افغانوں کا ایسا خطہ بن گیا، جس پر اس کے بعد کوئی غیر مسلم بیرونی عالمی طاقت حکومت نہ کر سکی۔ میرے اللہ کی مسلمان افغانوں کے لئے نصرت اور مدد شامل رہی۔

جس طرح"افغان طالبان"اور"تحریکِ طالبان پاکستان"کی غرض و غایت اور مقاصد میں فرق ہے اور دونوں کی اپنی اپنی تاریخ ہے، اسی طرح افغانستان کے غیور پشتونوں اور برصغیر پاک و ہند کے برطانوی استعمار کے زیرِ نگین رہنے والے پشتونوں کی تاریخ بھی بہت مختلف ہے۔ ڈیورنڈ لائن کی ایک جانب گلستان کی عنائت اللہ کاریز، دوبندی، چمن، جلگہ، توبہ اور غبرگ وغیرہ میں رہنے والے پشتون مختلف ماضی رکھتے ہیں، جبکہ دوسری جانب سپن بولاک، تختہ پل، قندھار اور غزنی کے میں آباد پشتون الگ ہی روایات اور تاریخ رکھتے ہیں۔ دونوں خطوں کے درمیان صرف چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے مگر ایک جانب افغانستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ہیرو، جس نے اڑتالیس ممالک اور عالمی طاقتوں امریکہ اور برطانیہ کو شکست دی"ملا محمد عمر"جنم لیتا ہے، جبکہ دوسری جانب"محمود خان اچکزئی"پیدا ہوتا ہے، جس نے 1927ء میں غیور مسلمان افغان سرزمین پر روس کی"ملحد" افواج کو خوش آمدید کہاتھا۔ جب روس کو شکست ہو گئی اور طالبان کی حکومت پر 2001ء میں امریکہ اور اس کے اڑتالیس اتحادی ممالک کی فوجیں حملہ آور ہوئیں تو محمود خان نے ان افواج کو اٖفغان قوم کا"نجات دہندہ" قرار دیا۔ لیکن قدیم خراسان کے مسلمان افغانوں نے اپنی سرزمین پر ناپاک غیر ملکی قدم نہیں جمنے دیئے، انکی شجاعت نے محمود خان اچکزئی جیسے لاکھوں کے خواب بھی چکنا چور کر دیئے، جن میں صرف پشتون نہیں بلکہ پنجابی، سندھی، بلوچ سمیت دنیا کی ہر قوم کے افرادشامل ہیں۔

محمود خان اچکزئی صاحب برطانوی تسلط میں رہنے والے خطے کے گاؤں"عنایت اللہ کاریز"سے تعلق رکھتے ہیں، یہ علاقہ پہلی"افغان برطانیہ جنگ"میں 7 اپریل 1839ء کو برطانوی افواج نے فتح کر لیا تھا۔ 23 مارچ 1839ء کو برطانوی افواج کی بنگال رجمنٹ کوئٹہ کے نواح سریاب پہنچی، جو اس وقت خیموں کی ایک بستی تھی۔ 26مارچ کو انہوں نے چند میل بعد کوئٹہ میں پڑاؤ ڈالا۔ انکے پاس راشن بہت کم رہ گیا تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے فوج کے سر براہ سر جان کین نے ممبئی سے ایک اور دستہ روانہ کیا۔ لیکن برطانوی افواج نے کوئٹہ اور اردگرد کے علاقوں میں آباد "کاکڑ"قبیلے کے افراد کوبھی فوج میں بھرتی کر لیا۔ اب یہ فوج جو بنگالی، مہاراشٹراور پشتون کاکڑوں پر مشتمل تھی، اس نے 7اپریل 1839ء کو"کچلاک"فتح کیا اور 12 اپریل کو محمود خان اچکزئی کے علاقے"قلعہ عبداللہ"اور"گلستان"پر قابض ہو گئی(ان تمام افواج میں کوئی پنجابی شامل نہ تھا)۔ قبضے کے فوراً بعد "کیپٹن بوسن کوئٹ" نے پہلا کام یہ کیا کہ انگریز فوج کے لیئے "اچکزئی" قبیلے سے بھی لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کیا اور چند ہی دنوں میں ایک پوری بٹالین اچکزئی پشتونوں پر مشمل برطانوی فوج کا حصہ بن گئی۔

پشین اور قلعہ عبداللہ کے علاقے میں اس وقت افغانستان تک کا راستہ ہموار کرنے کے لیئے برطانوی انجینئرز "خوجک پہاڑ"کاٹ رہے تھے اور اس"کارِ خیر"میں تمام مقامی پشتون افراد ان کے ساتھ برابر شریک تھے۔ 14اپریل 1839ء کو راستہ مکمل ہوا تو بنگالی، مہاراشٹری اور مقامی پشتون کاکڑ اور اچکزئی افراد پر مشتمل فوج نے افغانوں پر حملے کے لیئے، خوجک پہاڑ کو عبور کیا اور"پراناچمن"کے علاقے میں پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پانی کم تھا، اس لیے فوراً افواج کو موجودہ ڈیورنڈ لائن کے ساتھ"کدنی"دریا کے پاس منتقل کر دیا گیا۔ مزید فوجی بھرتی کرنے کے بعد انگریز یہاں نے باقاعدہ مقامی افراد پر مشتمل ایک بڑی فوج مرتب کی جسے"31مقامی انفنٹری"کا نام دیا گیا۔ یہ فوج کوئٹہ، پشین اور اچکزئی قبیلے کے صدر مقام"قلعہ عبد اللہ"کے مرکز میں رکھی گئی تھی۔ یہی وہ مقامی فوج تھی جو"کاہان"کے علاقے میں اس وقت بھیجی گئی، جب"بلوچ مریوں "نے کیپٹن براؤن کی افواج کا محاصرہ کیا تھا۔

جب افغانستان میں انگریزوں کو شکست ہونے لگی تو یہاں کے علاقوں کے پشتون اور بروہی بھی انگریز کے لئیے خطرہ بننے لگے۔ انگریز نے اسی دوران ایک اہم پشتون پانیرئی کاکڑ قبیلے کے سربراہ کو"بولان رینجرز" کیلئے بھرتی کا انچارج بنایا۔ اس نے اس علاقے کے تمام جرائم پیشہ افراد کو فوج میں بھرتی کیا تاکہ وہ انگریز کے کام آسکیں۔ کابل میں افغانوں کے ہاتھوں برطانوی افواج کی شکست کی خبریں، جب کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ کی چھاؤنیوں میں پہنچیں تو کاکڑوں نے رینجرز کو چھوڑنا شروع کر دیا، لیکن نومبر 1839ء کو پانیزئی کاکٹروں کا سردار غفور خان انگریز افواج کی مدد کو آن پہنچا اور اپنے قبیلے کو راضی کر کے انگریزوں کواس علاقے میں قدم جمانے کاموقع فراہم کیا۔ (جاری ہے)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.