کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان دراصل انجمنِ ترقی پسند مصنفین کا ایک تسلسل تھی، جسے مشہور ناول نگار و افسانہ نگارسجاد ظہیر نے 1936ء میں کلکتہ میں قائم کیا تھا۔ سجاد ظہیر ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا والد سید وزیر حسن چیف کورٹ لکھنؤ کا چیف جج تھا۔ وہ 1927ء میں اپنی انڈر گریجویٹ تعلیم کیلئے آکسفورڈ چلا گیا، جہاں اس کی ملاقات ایک بھارتی نژدا پارسی شاہ پورجی دراب جی سے ہوئی جو اس برطانوی پارلیمنٹ کا رکن اور برطانوی کیمونسٹ پارٹی کے ان چند ممبران میں سے ایک تھا جنہوں نے لیبر پارٹی کے ذریعے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کر رکھی تھی۔ یہ شخص ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار خاندان "ٹاٹا" کا داماد تھا۔ سجاد ظہیر کو وہاں تپ دق ہوگئی۔ علاج کے لیئے سوئٹزر لینڈ کے سینی ٹوریم میں "علاجِ تنہائی" (Quaritine)میں ڈال دیا گیا۔ افسانہ نگار طبیعت، شاہ پو دراب جی کے کیمونسٹ خیالات کا اثر اور سوئٹزرلینڈ کا خوبصورت موسم۔۔ واپس آیا تو ایک بھرپور انقلابی بن چکا تھا۔
آکسفورڈ سے قانون کی ڈگری اور لنکن اِن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1935ء میں ہندوستان واپس آگیا۔ لیکن اپنی واپسی سے پہلے ہی وہ 1935ء میں ہٹلر کی فاشزم کے خلاف پیرس میں ہونے والی ادیبوں کی ایک عالمی کانفرنس میں شریک ہوچکا تھا جسے ٹامس مان اور آندرو مارلو جیسے کیمونسٹ خیالات والے ادیبوں نے منعقد کیا تھا۔ اس کانفرنس کے سحر میں ڈوبے ہوئے سجاد ظہیرنے اپنے ساتھیوں ملک راج آنند، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر (سلمان تاثیر کے والد) کے ساتھ مل کر انگلستان میں ہی "انجمن ترقی پسند مصنفین" کا پہلا اجلاس منعقد کروالیا۔ کیا تضاد ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین اور اسی کی کوکھ سے جنم لینے والی کیمونسٹ پارٹی جو مزدوروں اور کسانوں کی علمبردار تھیں، دراصل ہندوستان کے امیر ترین گھرانوں کے فرزندوں نے قائم کی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سجاد ظہیر پاکستان آگیااور کیمونسٹ پارٹی کے دفاتر کو بھی یہاں منتقل کر دیا۔ چند ماہ کے اندر اس نے مزدور لیڈروں اور ٹریڈر یونین والوں کو ساتھ ملایا اور طلبہ سیاست کے لئے ایک تنظیم "ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن" بھی قائم کی۔ کیمونسٹ پارٹی کی ممبر شپ تین ہزار تھی لیکن اس کا ڈھانچہ چونکہ خفیہ اور انقلابی ہوتا ہے، اس لئے یہ تین ہزار بھی اقتدار پر قبضہ کرنے کی منصوبہ سازی کے لئے کافی خیال ہوتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ 9مارچ 1951ء تک یہ لوگ پاکستانی فوج کے کچھ افسران میں یہ خیالات راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ فوج میں بیشمار برطانوی جرنیل ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں، لیاقت علی خان کی حکومت نااہل بھی ہے اور بددیانت بھی اور لیاقت علی خان کا 1948ء میں کشمیر کی جنگ پر سیز فائز کرنا دراصل ایک غداری ہے۔ وہ تختہ الٹنے والے ہی تھے کہ ان کی سازش پکڑئی گئی اور میجر جنرل اکبر چیف آف جنرل سٹاف جو انقلابیوں میں جنرل طارق کے نام سے پہچانا جاتا تھا، اپنے پندرہ ساتھیوں سمیت پکڑا گیا جن میں میجر جنرل نذیر احمد، ائرکموڈور ایم کے جنجوعہ، بریگیڈیر صادق خان کے ساتھ کئی جونیئر آفیسر اور مشہور شاعر اور صحافی فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر بھی شامل تھے۔ اس کے چند ماہ بعد ہی لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسۂ عام میں قتل کردیا گیا تھا۔ کیمونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی جاچکی تھی۔ حسین شہید سہروردی جب 1957ء میں وزیراعظم بنا تو اس نے سب کو عامی معافی دے دی۔ یہ برصغیر پاک و ہند میں حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے پہلی بغاوت تھی۔ کیمونسٹ پارٹی کے بکھرے ہوئے اراکین اب دیگر ترقی پسند جمہوری سیاسی پارٹیوں میں گھس گئے اور کام کرنے لگے۔
اس دور میں دنیا کی کارپوریٹ سیکولر جمہوریت اپنے وقت کے سب سے بڑے نظریاتی زمینی مذہب "کیمونزم" سے دنیا بھر میں نبردآزما تھی۔ لاطینی امریکہ، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے تمام ممالک میں اٹھنے والی ایسی تمام پاپولر تحریکوں کو کچلا جا ریا تھا، جو کیمونسٹ آئیڈیالوجی رکھتی تھیں۔ اسی دور میں مصر کا ناصر، لیبیا کا قذافی، چلی کا آلندے، یوگوسلاویہ کا ٹیٹو اور عراق کے صدام جیسے لیڈرابھرے جو کہیں بذریعہ جمہوریت اور کہیں بذریعہ فوج، اقتدار پر قابض ہوئے اور سیکولر جمہوریت کے لئے ایک چیلنج بنتے چلے گئے۔ پاکستان میں کیمونسٹ پارٹی کے بکھرے ہوئے لوگوں کو چھپ چھپ کر کام کرنے کے لئے جس پارٹی میں سایۂ عافیت ملا، وہ نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ یہ پارٹی 1957ء میں قائم ہوئی تھی، جس میں ایسی تمام پارٹیاں شامل ہو ئیں جن میں کیمونسٹ پارٹی کے لوگ پہلے سے اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ ان میں میاں افتخار الدین اور محمود علی قصوری کی آزاد پاکستان پارٹی، جی ایم سید کا سندھ محاذ، عبد الصمد اچکزئی کی ورون پشتون، غوث بخش بزنجو کی اتمان گل، مشرقی پاکستان کے حاجی محمد دانش کی گنا ننتیری دل اور خان عبد الولی خان کی خدائی مددگار شامل تھیں۔ انہوں نے اپنا صدر مولانا عبد الحمید بھاشانی کو منتخب کیا جو شیخ مجیب الرحمن والی عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے یہاں آگیاتھا۔
یہ پارٹی کیمونسٹ نظریات کی جمہوری پناہ گاہ تھی جو اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے جمہوری طور پر جدو جہد کرنے کی بھی علمبردار تھی، لیکن غیر جمہوری طریقوں کے لئے بھی ہمہ وقت کوشاں رہتی تھی۔ اس پر پہلی پابندی 1958ء کے مارشل لاء میں لگی جب ایوب خان نے تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگائی۔ 1961ء میں پابندی اٹھی تو پارٹی دوبارہ زندہ ہوئی مگر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشنوں میں جب مولانا بھاشانی نے ایوب خان کی حمایت کی تو پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی اور مغربی پاکستان والے حصے کی سربراہی خان عبد الولی خان کے حصے میں آئی۔ کیمونسٹ پارٹی والے 1967ء میں بننے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں بھی اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ 1970ء کے الیکشنوں میں یہی دو پارٹیاں تھیں جو مغربی پاکستان میں جیت کر سامنے آئیں۔ بلوچستان اور سرحد، عوامی نیشنل پارٹی کو ملا جبکہ سندھ اور پنجاب پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا۔ بھٹو نے "باغی" میجر جنرل اکبر کو پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ لیکن بہت جلد بھٹو کے اندر چھپا مغربی سیکولر جمہوریت پرست جاگ اٹھا اور اس نے اپنے اندر موجود کیمونسٹ نظریات والے تمام افراد کے دماغ سیدھے کر دیئے اور پارٹی سیکولر، لبرل جمہوریت کی علامت بن گئی۔
کیمونسٹ نظریاتی سیاست پر آخری ضرب بھٹو نے لگائی جب اس نے آئین میں تیسری ترمیم کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے بے پناہ اختیار حاصل کر لیئے۔ 31جنوری 1974ء کو نواب اکبر بگٹی نے موچی دروازہ لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ولی خان اور عطا اللہ مینگل نے لندن میں مجھے بلوچستان کی آزادی کے منصوبے کے بارے میں بتایاتھا اور اس کی تمام منصوبہ سازی عراق کے شہر بغداد میں ہورہی ہے۔ (جاری ہے)