جب نواب اکبر بگٹی نے موچی دروازے میں بلوچستان کی علیحدگی کے لندن پلان کا انکشاف کرتے ہوئے اس کے ڈانڈے عراق سے ملائے تو اسلام آباد میں عراق کے سفارتخانے پر چھاپہ مار کر بے شمار اسلحہ برآمد کر لیا گیا۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت توڑنے کے لیئے یہ جواز کافی تھا۔ تیرہ فروری 1973ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے عطاء اللہ مینگل کی بلوچستان حکومت توڑ کر نواب اکبر بگٹی کو گورنر لگا دیا۔ احتجاجاً 15 فروی 1973ء کو سرحد کی حکومت بھی مستعفی ہو گئی۔ بلوچستان میں آپریشن کا آغاز ہوا اور نیشنل عوامی پارٹی کو غدار قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے کالعدم کردیا۔ مشہور زمانہ حیدرآباد غداری کیس شروع ہوا جس میں ولی خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور شاعر حبیب جالب غداری کے جرم میں مقدمہ بھگتتے رہے۔ اسی دوران 17جولائی 1973ء کو افغانستان کے شاہی خاندان کے فرد سردار داؤد نے ظاہر شاہ کو نکال کر تخت پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو اس وقت یورپ میں چھٹیاں منا رہا تھا جب اسے امریکہ نے پیغام دیا کہ افغانستان میں داؤد نے اقتدار سنبھال لیاہے۔ بھٹو کو معلوم تھا کہ داؤد کی پارٹی میں نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل جیسے ہارڈ لائن کیمونسٹ موجود ہیں جو بھارت نواز بھی ہیں، اس لیئے اس نے داؤد کی حکومت تسلیم کرنے سے پہلے 22 اکتوبر 1973ء کو سوویت یونین کا دورہ کیا۔
صدر برزنیف سے ملا اور روس کے ساتھ تیل و گیس کی دریافت کے معاہدے بھی کیئے۔ لیکن خود سردار داؤد نے روسی کلاوے کو گردن سے اتار پھینکنے کے لیئے ایسے ملکوں کے دورے شروع کر دیئے جو سیکولر جمہوریت اور سودی کارپوریٹ معیشت والے تھے، جیسے ترکی، سعودی عرب اور ایران۔ یکم جنوری 1977ء کو اس کے لوئی جرگہ نے ایک ایسا آئین منظور کر لیا جو کیمونسٹ نہیں بلکہ سیکولر تھا۔ اس سے پہلے ہی گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی اکتوبر 1975ء میں روس نواز داؤد کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد پاکستان آچکے تھے اور افغانستان میں جہاد کے لیئے سرگرم عمل بھی ہو چکے تھے۔ بلوچستان میں کیمونسٹ نظریاتی چھتری تلے چلنے والی سیاسی تحریک اور مسلح بغاوت ایسی تھی کہ جس میں پنجاب اور سندھ سے نجم سیٹھی اور راشد رحمان جیسے انقلابی بھی بندوق اٹھائے لڑتے تھے۔ بلوچستان میں بغاوت کچل دی گئی مگر فوراً بعد ہی بھٹو کے خلاف ایک طوفانی تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق کا "وجودِ مسعود" اقتدار پر آبیٹھاجس نے حیدآباد کیس ختم کردیا۔ حالات ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ 30اپریل1978ء کو افسانہ نگار اور صحافی کیمونسٹ رہنما نور محمد ترکئی کی سربراہی میں افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب آگیا۔ اب خطے میں ایک بڑا معرکہ سجنے والا تھا۔
کیمونسٹ جمہوری سیاست اور کیمونسٹ عسکری قوتوں، دونوں سے جنگ کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ضیاء الحق لاڈلا بن گیا۔ روس کو افغانستان میں کیمونسٹ بادشاہت (Impearlism) ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی تو اس نے 24دسمبر1979ء کو اپنی افواج افغانستان میں اتار دیں۔ اس کے بعد کیمونسٹ عسکری قوتوں کے مقابلے میں دنیا بھر کی اسلامی عسکری قوتوں کووہاں اکٹھا کیا گیا جس سے ایک گھمسان کا رن پڑا۔ جس کے نتیجے میں صرف آٹھ سال بعد ہی 15فروری 1989ء کو پہلے سوویت یونین کی نظریاتی ریڈ آرمی افغانستان سے نکلی اور اسکے دو سال بعد ہی 26دسمبر1991ء کو دنیا کے نقشے سے کیمونسٹ اقتدار بھی ختم ہوگیا اور کیمونسٹ عسکریت کا بھی کوئی والی وارث باقی نہ رہا۔ سوویت یونین جدید مغربی عالمی مالیاتی سودی جمہوری نظام کا حصہ بن گیا۔ یہ سیکولر، لبرل، جمہوری، سودی نظام اب واحد بالادست قوت تھی۔ ویت نام جیسا نظریاتی جنگ لڑنے والا ملک بھی اسی سیکولر سودی مالیاتی جمہوری نظام کا حصہ تھااور چین نے بھی نظریاتی پرچم لپیٹ لیا۔
اس 75 سالہ کشمکش کے دوران نئی قائم شدہ مسلمان قومی ریاستوں میں جمہوری سیاست شروع کی گئی مگر اس کے ساتھ ساتھ ضرورت کے تحت عسکری قوتیں بھی منظم ہونا شروع ہوگئیں۔ اس اسلامی عسکری قوت نے ہی تو کیمونزم کے جن کو افغانستان میں قتل کیا تھا۔ یہ جن قتل ہواتو فوراًہی دنیا بھر میں اس کے کیمونسٹ چیلے فوراً انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی اوز کے ذریعے اپنا ایمان بدل کر سیکولر، لبرل اور جمہوری بن گئے۔ لیکن اسلامی عسکری قوت ابھی تک بھرپور اور طاقتور صورت موجود رہی۔ اس میں ایک حیرت انگیز صلاحیت اور بھی نظر آئی کہ جب افغانستان کومغربی ممالک خانہ جنگی میں چھوڑ کر گئے تھے تو طالبان ایسی قوت سے ابھرے کہ انہوں نے بغیر کسی بیرونی مدد کے وہاں ایک منظم حکومت قائم کر دی جو آئینی تھی نہ پارلیمانی اور نہ ہی جمہوری بلکہ خالصتاً اسلامی شورائی تھی۔
طالبان حکومت نے دنیا بھر کی ان تمام عسکری قوتوں کو بھی اپنے ہاں پناہ دینا شروع کردی، جنہوں نے اسلامی انقلاب کے لیئے پوری مسلم دنیا میں جہاد کا آغاز کر رکھا تھا۔ اس ابھرتے ہوئے مرکز کو دیکھ کر سیکولر، لبرل عالمی طاقتوں نے فیصلہ کیاکہ خواہ جمہوریت زدہ اسلامی پارٹی ہو یا کوئی بھی انقلابی گروہ ان سب کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ دنیا بھر کے ممالک میں سیاسی جمہوریت بھی خالص سیکولر ہوجائے اور عسکریت بھی صرف خالصتاً سیکولر قومی افواج کی صورت زندہ رہے۔ اسی لیئے دنیا میں ہر وہ گروہ جو ریاست کے علاوہ بندوق رکھتا تھا اسے دہشتگرد قرار دے دیا گیا۔ جس طرح کیمونسٹ گوریلوں کو ویت نام، انگولا اور لاطینی امریکہ میں ان کے اپنے ممالک کی سیکولر اور عالمی افواج کے ذریعے مروایا گیا، ویسے ہی اسلامی عسکری گروہوں کے خلاف بھی اس صورت کاروائی کا آغازنائن الیون کے بعد ہوا۔ یہ بھی طے تھا کہ اب کوئی اسلامی نظریاتی پارٹی، پاپولر جمہوری طریقے سے بھی برسرِ اقتدار نہ آئے۔ اس کا آغاز الجزائر سے ہوا، جب وہاں کی جمہوری سیاسی پارٹی اسلامک سالوشین فرنٹ نے عام انتخابات میں پہلا مرحلہ جیت لیا تو جنوری 1992ء کوایک فوجی بغاوت کے ذریعے اس مقبول "اسلامی جمہوریت" کو کچل دیا گیا۔ اس طرح کا آخری معرکہ مصر میں برپا ہوا جہاں "اسلامی جمہوریت" کا علمبردار "مرسی" 65فیصد ووٹ لے کر برسرِ اقتدار آیاتو اسے بھی ایک قومی سیکولر فوج کے ہاتھ ذلت و رسوائی سے فارغ کردیا گیا۔ پاکستان میں افغان جہاد کے بعد بننے والے تمام عسکری یا نیم عسکری گروہ ایک ایک کرکے کالعدم قرار دے دیئے گئے۔
سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، تحریک طالبان پاکستان، یہاں تک کہ بھارت کے خلاف کشمیر کے لیئے کام کرنے والے جیش محمد اور حزب المجاہدین بھی خاموش کردیئے گئے۔ ان کی بنائی گئی محدود سی سیاسی پارٹیوں کا بھی اب خاتمہ ہوگیا۔ پاکستان کی سیاست پر1947ء سے ہمیشہ سیکولر آئینی، جمہوری، پارلیمانی سیاست کا غلبہ رہا ہے۔ یہاں کا آئین دراصل عالمی مالیاتی سودی نظام کی ایسی دال ہے جسے ذائقہ بدلنے کے لیئے اسلام کا چھوٹا سا تڑکہ بھی لگایا گیا ہے۔ اس نظام میں کام کرنے والی مذہبی سیاسی پارٹیوں میں کبھی بھی اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ پاپولر ووٹ کے ذریعے برسرِ اقتدار آسکتیں۔ اسی لیئے انہیں چلنے دیا جاتا رہا۔ لیکن گذشتہ سال انتخابات نے اچانک ان قوتوں کو حیران کر دیا کہ جو عموماً یہ کہتی پھرتی تھیں کہ پاکستان دراصل ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کے عوام اسلامی پارٹیوں کو ووٹ نہیں دیتے۔ یہ تاثر اس وقت ٹوٹا جب 2018ء کے انتخابات میں ایک اسلامی پارٹی پاکستان کی پانچویں بڑی پارٹی اور پنجاب کی تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری اوراس پارٹی کا کوئی عسکری ونگ نہ تھا کہ اسے بدنام کیا جا سکتا۔ وہ کسی جہادی پس منظر سے بھی تعلق نہیں رکھتی تھی۔ البتہ احتجاج اور دھرنے کی سیاست ان کا خاصہ تھی۔ لیکن اس طرح کی سیاست میں تو پاکستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ بے نظیر کی شہادت کے بعد ہوا تھا جب پورے ملک میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی۔ لیکن اسے ایک فطری جذباتی کیفیت کہہ کر ٹال دیا گیا، کیونکہ پارٹی سیکولر تھی۔
عمران خان کی پی ٹی آئی، طاہر القادری، قاضی حسین احمد کے دھرنے اور خود 1977ء کی تحریک بھی خون آشام تھی۔ لیکن ان سب دھرنوں میں کوئی ایک پارٹی بھی ایسی صلاحیت نہیں رکھتی تھی جو مصر کے صدر مرسی کی طرح اسلامی جمہوری سیاست کے ذریعے الیکشن جیت سکتی۔ لیکن 2018ء میں یہ پارٹی 25لاکھ ووٹ لے کر سامنے آگئی۔ اسی دن سے اس کے مقدر میں پابندی لکھ دی گئی تھی تاکہ جمہوریت صرف سیکولر پارٹیوں کے لیئے ہی خالص رہے۔ (ختم شد)