خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد جب مشرقِ وسطیٰ کے ٹکڑے کئے گئے تو لاتعداد عرب ممالک وجود میں آئے۔ ان تمام عرب ممالک کو دو فاتح قوتوں برطانیہ اور فرانس نے آپس میں بانٹ لیا اور جب یہاں اپنے قدم خوب جما لئے اور مختلف حربوں سے گروہوں میں اپنے اتحادی بھی بنا لئے تو پھر ان ریاستوں کو آہستہ آہستہ خود مختار کرنا شروع کر دیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد تو دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ پرانی نوآبادیاتی سلطنتیں خصوصاً برطانیہ اور فرانس دونوں کو امریکہ نے حکم دیا کہ وہ اپنے زیر تسلط علاقوں سے بوریا بستر باندھیں اور اقتدار مقامی افراد کے حوالے کر دیں۔ ویسے بھی انہیں اپنے تباہ شدہ ملکوں کی تعمیر کرنا تھی، جس کے لئے امریکہ نے مارشل پلان کے تحت انہیں خطیر رقم دے رکھی تھی۔ اب امریکہ کا دنیا پر معاشی کنٹرول کے ذریعے حکومت کرنے کا آغاز ہوا۔
دنیا کے ممالک نوآبادیاتی قوتوں سے آزاد ہوئے تو عالمی سطح پر دو متحارب قوتوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان دونوں طاقتوں کا بنیادی میدان معاشی تھا جس کی نصرت و کامیابی کے لئے وہ اپنی عسکری قوت بھی مسلسل بڑھا رہے تھے۔ ایک امریکہ، جو سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار تھا اور مارکیٹ اکانومی (Economy) کا حامی تھا اور جبکہ دوسرا سوویت یونین تھا جو اشتراکی معیشت کا علمبردار تھا اور دنیا بھر میں مزدور کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا تھا۔
عالمی جنگ کی خاکستر سے جو چنگاری پھوٹی اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس آگ کو سرد جنگ کا نام دیا گیا۔ یہ جنگ 1945ء سے 1992ء تک 47 سال دنیا کے اعصاب پر چھائی رہی۔ دونوں طاقتوں کے درمیان آپس میں تو کوئی بڑی عالمی جنگ برپا نہ ہوئی مگر ویت نام سے لے کر انگولا، چلّی و برازیل سے لے کر عراق و افغانستان تک تمام غریب و مفلوک الحال ممالک میدانِ جنگ بنے رہے اور آگ اور خون میں نہاتے رہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ نے اپنا ٹھکانہ بنایا اور خوب بنایا۔ تمام عرب شیوخ جن کی زمین تلے تیل کے خزینے چھپے ہوئے تھے، انہیں جنگِ عظیم اوّل کے بعد سے ہی چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جس کے پاس جتنا بڑا تیل کا خزانہ تھا، اتنا ہی چھوٹا اور کمزور ملک بنایا گیا۔ قطر، کویت، بحرین، مسقط، دبئی، ابوظہبی اور ملحقہ پانچ ریاستیں۔ ان کے علاوہ خطے میں تین بڑے ممالک بھی تھے جو بیش بہا تیل کی دولت سے مالا مال تھے، سعودی عرب، عراق اور ایران۔
سعودی عرب میں تو امریکی کمپنی آرامکو (Aramco) جنگِ عظیم دوّم سے بہت پہلے یعنی 29 مئی 1933ء سے ہی اپنے قدم جما چکی تھی۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی برسرِ اقتدار تھا جو 1941ء سے امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے براستہ یورپ وہاں اقتدار پر قابض تھا۔ اسرائیل کے 1948ء میں قیام کے بعد تو جیسے خطے میں امریکی مفادات کا ایک مضبوط مرکز قائم ہوگیا۔ لبنان کے شہر بیروت میں امریکی پرانے تھے، یہاں تو امریکی یونیورسٹی بیروت 1865ء میں ہی قائم ہوگئی تھی۔ سوویت یونین نے بھی مصر، لیبیا اور شام میں اپنے لوگوں کو برسرِاقتدار لا کر مشرقِ وسطیٰ میں گھسنے کی کوشش کی۔
عراق میں پہلے احمد حسن البکر اور پھرصدام کو اپنے گروپ میں شامل کر لیا اور یوں مشرقِ وسطیٰ میں اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی آپس کی کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ سوویت یونین کے زیرِ اثر ممالک میں زیادہ تر فوجی ڈکٹیٹر تھے، جنہوں نے قدیم بادشاہتوں کا تختہ اُلٹ کر حکومت حاصل کی تھی، جبکہ امریکہ کے زیرِاثر ممالک میں بادشاہتیں تھیں، جیسے سعودی عرب اور اس سے ملحقہ عرب ریاستیں اور ایران۔
ان بادشاہتوں کو سوویت یونین کے نظریاتی انقلاب سے مسلسل خطرہ تھا۔ ایسے انقلاب کے لئے صرف ایک فوجی بغاوت ہی کافی تھی اور اردگرد کے ممالک میں اس کا تجربہ بھی ہو چکا تھا۔ بادشاہتیں بہت نازک ہوا کرتی ہیں اس لئے کہ یہ عوامی رائے سے نہیں بلکہ جبرو اکراہ سے قائم ہوتی ہیں۔ ان کے سروں پر مسلسل یہ خوف سوار رہتا ہے کہ کہیں لوگ ان کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔
اس خوف کو امریکیوں نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا اور اسے اپنے مفادات کے ساتھ منسلک کر کے مزید گہرا کر دیا۔ کسی ایک چھوٹے سے عرب ملک کے بادشاہ کے خلاف ایک فوجی بغاوت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کے لئے راستہ ہموار کر سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران میں 21 جولائی 1952ء کو محمد مصدق وزیر اعظم بنا اور اس نے امریکی تیل کی کمپنیوں کو قومیانے کے لئے اقدامات شروع کئے تو سی آئی اے میدان میں کودی اور اس نے اپنے پہلے "رجیم چینج" تجربے کے تحت مصدق کی حکومت کو صرف ایک سال بعد ہی 19 اگست 1953ء کو فارغ کر دیا اور امریکی تھانیدار محمد رضا شاہ پہلوی دوبارہ برسرِاقتدار آ گیا۔
مشرقِ وسطیٰ میں یوں تو سوویت یونین کی وجہ سے عوامی سطح پر ہر ملک میں تھوڑی بہت ہل چل رہتی، لیکن اصل اقتدار، قبضہ اور غلبہ تو امریکہ کے ہاتھ میں ہی رہا۔ اسرائیل کی 1967ء میں فتح کے بعد امریکہ خطے میں اور مضبوط ہوگیا۔
امریکی قوت و اقتدار پر پہلی ضرب آیت اللہ خمینی کے 1979ء کے انقلابِ ایران سے پڑی۔ لیکن یہ انقلاب بھی اپنی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے لئے ہی فائدہ مند ثابت ہوا۔ ایران نے اپنے انقلاب کا دائرہ دیگر اسلامی ممالک کی طرف بڑھانے کا آغاز کیا تو وہ تمام عرب ریاستیں جو امریکی آشیرباد سے بمشکل اپنا اقتدار قائم کئے ہوئے تھیں بدک کر رہ گئیں۔ انہوں نے ایران کے خطرے کی وجہ سے مکمل طور پر امریکہ کے پروں تلے عافیت تلاش کی۔
یہ 1979ء کا سال نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے لئے بہت اہم تھا بلکہ اس سال کے واقعات پوری دنیا میں چلنے والی سرد جنگ کے لئے بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے والے تھے۔ اِدھر اپریل میں ایران میں آیت اللہ خمینی کا انقلاب آیا اور اُدھر دسمبر میں سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی افواج داخل کر دیں۔ افغانستان میدانِ جنگ بنا اور سوویت یونین کے مقابلے میں آٹھ سال مجاہدین جنگ لڑتے رہے اور ٹھیک اسی عرصے میں صدام حسین کے عراق اور آیت اللہ خمینی کے ایران میں مسلسل جنگ چلتی رہی۔
جیسے ہی 1992ء میں سوویت یونین کا سورج غروب ہوا تو امریکہ باقی دنیا کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بھی بے خوف دندنانے لگا۔ سوویت یونین کا خوف تو ختم ہو چکا تھا مگر امریکہ کو یہاں رہنے کے لئے ایک اور خوف چاہئے تھا اور یوں امریکہ نے عرب شیوخ کے دلوں میں ایران کا خوف بٹھانا شروع کر دیا۔ عراق پر دوسرا حملہ 2003ء میں ہوا اور اس میں اسی مقصد کے تحت صدام کی طاقت کو مکمل طور پر کچل کر وہاں ایران کو اثر و نفوذ جمانے کا پورا موقع دیا گیا۔
ایران عراق میں آیا تو اس نے جوش میں آ کر اپنے صدیوں پرانے خواب کی تکمیل کے لئے عراق، شام، بحرین، لبنان، یمن اور خصوصاً سعودی عرب میں اپنے تیار کردہ افراد کے دستوں کے ذریعے انقلابی جنگوں کا آغاز کیا۔ یہ بظاہر جنگ نہ تھی کیونکہ یہ براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ تھی یعنی پراکسی (Proxy) جنگ۔ امریکہ ان پراکسی جنگوں سے اس لئے خوش تھا کہ عرب ممالک مزید اس کے دستِ نگر ہو رہے تھے اور ایران کی معیشت بھی ان جنگوں میں اُلجھ کر کمزور ہو رہی تھی۔
مشرقِ وسطیٰ میں یہ مسلسل جنگ جس میں امریکہ عربوں کو سکیورٹی دینے کی حد تک اُلجھا ہوا تھا مگر افغانستان میں مسلسل جنگ اور اس میں بدترین شکست نے امریکہ کے ہوش اُڑا دیئے۔ وہ اٹھارہ سال اسی نشے میں تھا کہ وہ واحد سپر پاور ہے اور جہاں چاہے گا اور جیسے چاہے گا اقتدار قائم کرے گا۔ اس اٹھارہ سال کے عرصے میں چین مکمل خاموشی اختیار کئے رہا مگر ساتھ ہی وہ اپنی معاشی اور عسکری قوت میں بھی دن بدن اضافہ کرتا چلا گیا۔
امریکہ افغانستان سے رُسوا ہو کر نکلا تو اسے اندازہ ہوا کہ اگر نہ روکا گیا تو چین سب کچھ ہڑپ کر جائے گا۔ یوں 2019ء کے نومبر میں چین کو روکنے کے لئے پینٹاگون کا پلان آیا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ (جاری ہے)