Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Hum Sab Ghaddar Hain?

Kya Hum Sab Ghaddar Hain?

تعزیراتِ پاکستان اور ضابطۂ فوجداری اس برصغیر پاک و ہند میں انگریز کے عطا کردہ قوانین ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان جو کبھی تعزیراتِ ہند کہلاتی تھیں، 6 اکتوبر 1860ء کو نافذ کی گئیں۔ انگریز کو لال قلعہ دہلی پر یونین جیک کا پرچم لہرائے صرف تین سال ہوئے تھے۔

اس تین سال کے عرصہ میں انگریز نے ہر اس شخص کو عبرتناک موت کی سزا دی، جس نے اس کے خلاف صرف ہتھیار ہی نہیں اُٹھائے تھے بلکہ جس نے کبھی اپنی تقریر، تحریر یا گفتگو سے بھی تاجِ برطانیہ کے لئے نفرت کا اظہار کیا تھا۔ لکھنے، تقریر کرنے، گفتگو کرنے اور ہتھیار اُٹھانے والے سب کے سب انگریز کی نظر میں برابر کے غدار تھے۔

دلّی شہر کے چوکوں اور چوراہوں پر مسلمان علماء کی لاشیں کئی دنوں تک لٹکائی گئی تھیں تاکہ عام لوگ عبرت حاصل کریں۔ غالبؔ اپنے ایک خط میں تحریر کرتا ہے کہ "درختوں پر مسلمانوں کی لاشیں بیا کے گھونسلوں کی طرح لٹکی ہوئی نظر آتی ہیں"۔ انگریز پورے ہندوستان کو بزورِ شمشیر فتح کر چکا تھا۔

1757ء میں بنگال کی جنگِ پلاسی کی جیت سے لے کر 1857ء کی جنگِ آزادی تک کی پوری ایک صدی انگریز کی مقامی حاکموں سے لڑائی کی صدی ہے۔ میسور کی ریاست سب سے سخت جان تھی جس کو فتح کرنے کے لئے 1767ء سے 1799ء تک انگریز نے چار جنگیں لڑیں اور آخر میں میر صادق جیسے غداروں کی مدد سے ٹیپو سلطان کو شہید کر کے میسور پر قبضہ کیا گیا۔

برطانیہ کے شہر ایڈنبرا کی پہاڑی پر ایک قلعہ ہے جسے میوزیم کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس میں ٹیپو سلطان کی تلوار، زرہ بکتر اور دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں۔ یہ اشیاء ایڈنبرا کے رہنے والے اس سپاہی کو ملی تھیں جس نے ٹیپو سلطان کو شہید کیا تھا۔ ان نوادرات پر ایک عبارت درج ہے، "ٹیپو سلطان کی موت انگریز کے لئے اتنا بڑا واقعہ تھی کہ پورے ملک میں خوشی کی وجہ سے چھٹی کر دی گئی تھی"۔

آخری معرکہ 1849ء میں گجرات کے قصبے چیلانوالہ میں ہوا جس میں فتح کے بعد پنجاب سے سکھوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد دلّی میں بیٹھا بہادر شاہ ظفر اب ایک محصور شخص تھا جو برائے نام فرمانروائے ہندوستان تھا۔ دلّی کے شہر میں جب منادی کرنے والا کوئی سرکاری اعلان سناتا تو کہتا "ملک اللہ کا، حکومت بادشاہ کی اور حکم کمپنی بہادر کا"۔ ان حالات میں جب جذبۂ جہاد سے سرشار چند افراد نے "کمپنی بہادر" کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تو پورا ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کا فتویٰ جاری ہوا اور لوگ جنرل بخت خان اور دیگر مجاہدینِ آزادی کے ساتھ مل کر انگریز سے لڑنے لگے جبکہ دوسری جانب عوام کی خاموش اکثریت تھی۔ لیکن عام آدمیوں میں بھی کچھ غدارانِ وطن شخصیات ایسی تھیں جنہوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لئے اپنے اپنے علاقوں سے جنگجوئوں کے قافلے روانہ کئے۔ دلّی کے سب سے قریبی خطے پنجاب کے زمیندار، چودھری، مشائخِ عظام و گدی نشین پیر اس "کارِ خیر" میں شامل تھے۔

ہندوستان کے ہر خطے کا ایک میر جعفر اور میر صادق تھا جس نے اپنی نگرانی میں قافلے روانہ کئے اور انہوں نے مسلمان بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت اُلٹنے اور انگریز کا اقتدار قائم کرنے میں انگریز فوج کو مدد دی۔ تاریخ ان ناموں سے نہ صرف آشنا ہے بلکہ یہاں تک درج ہے کہ کون کتنی فوج لے کر آیا تھا۔ انگریز نے اپنے اقتدار کے لئے 1843ء میں خیبرپختونخواہ کے علاقے سے نوجوان بھرتی کر کے "فرنیئر فورس" نام کی انفنٹری رجمنٹ بنائی جسے (59 Scinde Rifles) کہا جاتا تھا۔

اس رجمنٹ کو پنجاب سے بنائی جانے والی غیر منظم فورس (Punjab Irregular Force) میں 1856ء میں ضم کر دیا گیا اور یہ مشہور فرنیئر فورس رجمنٹ کہلائی۔ اس رجمنٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے جوان شامل تھے۔ جنگِ آزادی میں اس رجمنٹ کو یہ "اعزاز" حاصل ہوا کہ جب لال قلعہ پر حملہ کیا گیا تو اس وقت قلعے میں موجود مسلمان سپاہیوں نے اس کا بڑا گیٹ بند کرنا چاہا تو اس رجمنٹ کے ایک نوجوان نے "کمال بہادری" سے اُسے روکا جس کی وجہ سے اس کی گردن دروازے کے بیچ آ گئی اور اتنی دیر میں انگریز فوج پہنچ گئی اور قلعے کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔

اس "غدارِ وطن" کی یاد میں مدتوں فرنیئر فورس رجمنٹ کے افسران اپنے تقریباتی ملبوس کے کالر پر نیلی پٹی پہنتے رہے۔ کیونکہ اس "غدار" کی گردن قلعے کے دروازے میں آنے کی وجہ سے نیلی ہوگئی تھی۔ 1857ء کے بعد کے تین سال انگریز نے اپنی اسی فوج کے ذریعے ہندوستان میں جبراً امن قائم کیا اور عوام پر اپنی حکومتی رٹ مسلّط کی۔ پھر سب سے پہلے مجموعہ تعزیراتِ ہند نافذ ہوا اور ٹھیک چھ ماہ بعد 1861ء میں پولیس ایکٹ آ گیا اور یوں تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہندوستان ایک پولیس سٹیٹ میں بدل دیا گیا۔

پولیس ایکٹ میں ایک عہدہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یعنی ڈپٹی کمشنر کا تھا جو ہر ضلع میں ایک منی وائسرائے ہوتا تھا۔ بیس سال اس برصغیر کو اسی طرح چلایا گیا اور ہر طرف سے اُٹھنے والی مقامی بغاوتوں کو شدت سے کچلا گیا، کالے پانی کی سزائیں اور پھانسی گھاٹ سجائے گئے اور جب سب کچھ کچل دینے کا اطمینان ہوگیا تو 1882ء میں ضابطۂ فوجداری نافذ کیا گیا جس کی دفعات دو "شخصیات" کے گرد گھومتی ہیں، ایک ایس ایچ او، دوسرا ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ۔ اب انگریز کی فوج، سول سروس اور پولیس میں تمام مقامی افراد بھرتی ہو چکے تھے اور یہ "کالے" ہندوستانی، "گورے" انگریز کی حکومت کو قائم رکھنے کیلئے اپنے بھائیوں کا سر کچلنے کے لئے ہر دَم مستعد اور تیار تھے۔

انگریز کو اب صرف زبان و بیان اور تقریر و تحریر سے خطرہ تھا۔ ضروری ہوگیا تھا کہ اب ہر اُس شخص کو "غدار" ثابت کیا جائے جو انگریز کے خلاف لکھتا یا بولتا ہے۔ اس کے لئے ایک لفظ قانون میں رکھا گیا، اُکسانا (incitement) اور پھر اس "اُکسانے" کے لفظ کا استعمال ہر ایسے شخص پر کیا جانے لگا جو زبان و بیان اور تقریر و تحریر سے انگریز کے خلاف بولتا اور لکھتا تھا۔

تعزیراتِ ہند کی دفعہ 505 اسی لئے تخلیق کی گئی جو یوں تھی "جو کوئی بھی ایسا بیان، افواہ یا رپورٹ لکھے، شائع کرے یا پھیلائے جس کا مقصد اشتعال دلانا اور جو ممکنہ طور پر اشتعال دلانے کی وجہ بنے"۔ انگریز کی اس دفعہ میں ہم نے یہ اضافہ کر دیا، "پاکستان آرمی، نیوی، یا ایئر فورس کے کسی بھی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئر مین کو بغاوت، ارتکابِ جرم یا کسی بھی طرح سے اپنی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنے کی کوشش کرے"۔ یعنی اگر کوئی بھی فرد اپنے گھر میں بیٹھے چند دوستوں کے درمیان بھی کوئی ایسا جملہ بولتا ہے، یا آج کے دور میں اپنے گروپ کے افراد کے ساتھ واٹس ایپ پر شیئر کرتا ہے، اپنے فالورز کو ٹوئٹر یا فیس بُک پر بتاتا ہے تو وہ دراصل غداری کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ اس کی یہ بات کسی ایک بھی سکیورٹی ادارے کے فرد نے سنی ہی نہ ہو، مگر اس کے باوجود بھی اس پر بغاوت کا جرم اور اُکسانے کا فعل ثابت ہو جاتا ہے اور اس کے لئے مزید کسی گواہی کی ضرورت نہیں۔ یہ قانون انگریز کی ضرورت تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ باہر سے آیا ہے اور کروڑوں لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، اسے بدیشی سمجھتے ہیں، اس لئے کروڑوں ہندوستانی انگریز کی نظروں میں"غدار" تھے۔

لیکن کیا بائیس کروڑ عوام بھی پاکستان کی حکومت اور اس کے اداروں سے ویسی ہی نفرت کرتے ہیں جیسی اس دور کے عوام انگریز کی فوج سے کرتے تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر تو قانون صحیح ہے اور ہم سب غدار ہیں۔ لیکن غداری کی سند اور بغاوت کا ایسا الزام ہمیشہ عوامی غصے میں اضافہ کرتا ہے اور ایسا مسلسل الزام ایسے قوانین نافذ کرنے والوں کی بساط اُلٹ دیتا ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.