پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں سپریم کورٹ کے کسی جج کو پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے اس قدر طویل عرصے کے لئے براہِ راست نہیں دکھایا، جو اعزاز اور پذیرائی پاکستان کے آئندہ ممکنہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو حاصل ہوئی۔ ان کی تقریر اور سوالات و جوابات کی تمام کارروائی پاکستان کے واحد قومی ٹیلی ویژن اور بقیہ تمام چینلوں نے "برضا و رغبت" نشر کی۔
قاضی فائز عیسیٰ صاحب اس سے پہلے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس جسے آئین کی پچاس سالہ تقریبات کا کنونشن قرار دیا گیا، اس میں بھی شرکت فرما چکے ہیں۔ پارلیمنٹ میں منعقدہ یہ کنونشن اپنی تمام تر ہیئت ترکیبی میں ایک مشترکہ اجلاس ہی لگتا تھا، جس کی صدارت کی کرسی پر سپیکر براجمان تھے اور اسی طرح حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف کی نشستیں مخصوص تھیں۔ جن میں سے حزبِ اقتدار کی ایک نشست پر فائز عیسیٰ کو بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
پارلیمان کی کارروائی اور اس میں ہونے والی دُھواں دار تقریروں میں عدلیہ کے خلاف بھی گفتگو ہوئی بلکہ ایک سابق صدر اور موجودہ ممبر قومی اسمبلی آصف علی زرداری نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ میں نے جیل میں بیٹھے ہوئے ایک بنچ بنوایا۔ ان تقاریر کے جواب میں قاضی فائز عیسیٰ کا غصے کے عالم میں جواب مناسب تھا اور انہوں نے خاص طور پر اس کا بھی ذکر کیا کہ انہیں کنونشن کا کہہ کر بلایا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہاں سیاسی تقریریں نہیں ہوں گی۔ لیکن پارلیمان کے ان معزز اراکین نے ایک معزز جج سے وعدہ خلافی کی۔
جس پر باقاعدہ سپریم کورٹ کی طرف سے تحریری وضاحت کی گئی۔ یوں فائز عیسیٰ صاحب کے سامنے سیاست دانوں کی وعدہ خلافی ایک تازہ واقعہ تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ جس وقت اسلام آباد یونیورسٹی میں پاکستان کی تاریخ کے مختلف کرداروں پر گفتگو کر رہے تھے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ اپنے فیصلوں سے ایک تاریخ رقم کر رہی تھی۔ یہ فیصلے پاکستان کے آئندہ مستقبل کی بنیاد رکھیں گے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے سیاست دانوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انتہائی سادگی سے پاکستان کی تمام خرابیوں کی بنیاد جسٹس منیر کے فیصلے کو قرار دیا جس نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا اور پھر انہوں نے بار بار کے مارشل لاء کے ادوار اور عدالتی فیصلوں کو پاکستان کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ تاریخ کو ایسے یکطرفہ زاویے سے دیکھنے کے عمل نے ہی ہمارے تجزیے کی بینائی چھین رکھی ہے۔
ایک گروہ صرف بندوق بردار لوگوں کو قصور وار ٹھہراتا ہے تو دوسرا سیاست دانوں کی خرابیوں اور ملک کو مکمل تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے کو آمرانہ اقدامات کا جواز گردانتا ہے۔ لیکن عدلیہ کی جانب دونوں ہی اپنے تیر چلاتے نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں جج آسمان سے اُتارے گئے تھے جن کے چاروں طرف فرشتے مضبوط پہرے دار کے طور پر مقرر تھے اور وہ بلاخوف فیصلے کرنے میں آزاد تھے۔
جسٹس منیر کے پاس مقدمہ آنے سے پہلے پاکستان کی تین اہم طاقتیں فوج، بیوروکریسی اور سیاست دان اقتدار کی بندر بانٹ میں باہم شیر و شکر ہو چکے تھے، جب کہ چوتھا ستون میڈیا بھی انہی کا ہمنوا تھا۔ نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ "برطانوی آزاد" میڈیا بھی ان کی حمایت میں شامل تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے جب 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کی تو اس نے امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو بلا کر اسی اسمبلی کے ممبران سے وزیر اعظم بنوایا تو کسی رکنِ اسمبلی نے چوں چرا تک نہ کی۔
برطانیہ کے اکانومسٹ کی نو مئی 1953ء کی اشاعت میں گورنر جنرل غلام محمد کے اس "دلیرانہ اقدام" کی بھر پور تعریف کی گئی۔ اس کے بعد ملک پر دو بیوروکریٹس، غلام محمد اور محمد علی بوگرہ کا راج تھا اور تمام ممبرانِ اسمبلی ان کی سربراہی میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ یہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی تھی جس نے اس سے پہلے بھی 6 جنوری 1949ء کو اپنے محبوب وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سربراہی میں پروڈا (Proda) کا قانون منظور کیا تھا۔ جس کے تحت اسمبلی نے ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل کو یہ آمرانہ اختیار دے دیا کہ وہ کسی بھی عوامی نمائندے کو برطرف کر سکتا تھا۔
اقتدار کی کشمکش میں بوگرہ نے اپنے ساتھی گورنر جنرل پر وار کیا اور اس بل کو اسمبلی سے ختم کروا دیا اور 21 ستمبر کو رات ساڑھے نو بجے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس پر دستخط کرکے گزٹ میں چھپنے کے لئے بھیج دیا۔ گورنر جنرل راولپنڈی سے کراچی پہنچا تو غصے سے بے قابو تھا، مگر فوراً ہی اس نے حواس بحال کئے اور اپنے اثاثوں کا جائزہ لیا۔ یہ اثاثے تھے فوج کا سربراہ جنرل ایوب خان، بیوروکریسی کا سرکردہ سکندر مرزا اور سیاست دانوں کے بڑے گروہ کا نمائندہ حسین شہید سہروردی۔ اس نے اسمبلی برطرف کی، سیاست دان چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم، کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزیر دفاع اور سکندر مرزا کو وزیر داخلہ لگا دیا۔
صحافت کے سرخیل زیڈ اے سلہری کے ذریعے سوئزرلینڈ کے ہسپتال میں داخل حسین شہید سہروردی کو پیغام بھیجا جس نے وہیں سے غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کی تصدیق کر دی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ عبدالستار پیرزادہ، صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ عبدالرشید، محمود علی قصوری، رسول بخش تالپور اور مخدوم زادہ حسن محمود سمیت تقریباً تمام سیاست دانوں نے غلام محمد کے اقدام کو خوش کن قرار دیا۔
سکندر مرزا نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے "فرمایا"، "عوام تو غنڈوں اور بدمعاشوں کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں، یہ بدمعاش سب کچھ خراب کر دیتے ہیں، جس کی درستی میرا کام ہے"۔ جب اس مملکت کے تمام طبقات اندھی طاقت و قوت کے مراکز کے سامنے سربسجود ہو گئے تھے تو ایسے میں عدالتِ عالیہ سندھ کے چار ججوں جسٹس کانسٹنٹائن، جسٹس ویلانی، جسٹس محمد بچل اور جسٹس محمد بخش کا کردار وہ روشن باب ہے جس سے تاریخ تا ابد روشن رہے گی، جنہوں نے ایک بڑے سیاست دان چوہدری محمد علی کی سربراہی میں بننے والی حکومت، سول و ملٹری بیوروکریسی، یہاں تک کہ میڈیا کی بے پناہ قوتوں کے مقابلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو غلط قرار دیا اور سیاست دانوں کے نمائندہ وزیر اعظم چوہدری محمد علی کو کام کرنے سے روک دیا۔
چودہ اگست 1947ء میں قائم ہونے والی یہ اسمبلی جس نے سات سال اپنا بنیادی کام یعنی دستور تک نہیں بنایا۔ ایک آزاد مملکت کی سپاہ کی قیادت امریکہ کی اشیرباد سے ایک جرنیل کو سونپی، بیوروکریسی کو اپنے سروں پر بٹھایا اور آزاد ملک کو 1935ء کے ایکٹ کے تحت تاجِ برطانیہ کا کئی سال تک قانونی غلام رکھا۔
ایسے ماحول میں آپ سمجھتے ہیں کہ صرف جسٹس منیر کا ایک فیصلہ ہی اس ساری تباہی کا ذمہ دار ہے جو اس نے 1958ء میں ایوب کے مارشل لاء کے حق میں دیا تھا۔ یقیناً یہ ایک بدترین فیصلہ تھا۔ لیکن کیا ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے تمام آمرانہ اقدامات کی توثیق پاکستان کے منتخب نمائندوں نے اسمبلیوں سے آئین میں ترامیم کرکے نہیں کی۔ کیا یہی سیاست دان نہیں تھے، جو ان کا دست و بازو بنتے رہے۔
ایوب خان کے لئے ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق کے لئے نواز شریف اور پرویز مشرف کے لئے چوہدری شجاعت اور ان تینوں کے ہمنوا سیاست دانوں کے جوق در جوق گروہ تھے جنہوں نے مارشل لائوں کی مضبوطی کے لئے اپنے کندھے ایک ستون کی صورت فراہم کئے۔ یہی سیاست دان تھے جنہوں نے ایک دوسرے کی اسمبلیوں کی برطرفی اور مارشل لاء لگانے پر مٹھائیاں بانٹیں۔
مشرف کے مارشل لاء پر بے نظیر کا وہ مضحکہ خیز بیان تاریخ کا حصہ ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ "میں ایک سول آمر پر فوجی آمر کو ترجیح دیتی ہوں"۔ ایسے میں وہ عدلیہ جس کے ججوں کا انتخاب انہی سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں نے اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کیا تھا اور سب نے اپنے اپنے گروہ کے ججوں سے عدالتوں پر قبضہ کرنے کی مسلسل کوشش کی تھی۔
آپ اس ماحول میں اگر صرف عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے تو یہ تاریخ کو بیان کرنے کا وہ یک رُخہ انداز ہے جسے اس ملک میں ہر کسی نے اختیار کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آزادانہ تجزیہ ہوتا ہے اور نہ آزادانہ الیکشن۔