اخبار، "دی ٹائمز" کے واشنگٹن میں متعین تحقیقاتی (investigative) صحافی مارک مزیٹی (Mark Mazzetti) نے 2013ء میں انکشافات سے بھری ہوئی ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا نام تھا "The way of the knife"۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان بھی تھا"The CIA، a secret Army، and war at the Ends of Earth" (سی آئی اے: ایک خفیہ فوج اور اس کی زمین کے کناروں تک جنگ)۔
اس کتاب میں اس نے یہ انکشاف کیا کہ "نیک محمد وزیر" کو قتل دراصل پاکستان اور سی آئی اے کے ایک خفیہ معاہدے کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے امریکہ کو اجازت دی تھی کہ وہ پاکستان میں موجود "اپنے" یعنی دراصل امریکہ کے دشمنوں کو مارنے کے لئے سی آئی اے کے ڈرون استعمال کر سکتا ہے۔ اس کی تصدیق پاکستانی جنرل اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد دُرانی نے اپنی کتاب "Pakistan Adrift" کے صفحہ نمبر 95 پر کی ہے۔
یہ کتاب 2018ء میں لندن میں چھپی تھی۔ نیک محمد وزیر 18 جون 2004ء کو امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، مگر اس کی موت کی ذمہ داری اس وقت کی پرویز مشرف انتظامیہ نے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے سر لے لی تھی۔ لیکن نو سال بعد پہلے ایک امریکی صحافی نے اور پھر 14 سال بعد ایک پاکستانی جرنیل نے ہمیں یہ بتایا کہ "نیک محمد وزیر" کو تو دراصل امریکیوں نے "اپنا دشمن" تصور کرتے ہوئے مارا تھا۔
یہ نیک محمد وزیر کون تھا اور کیوں مارا گیا؟ یہ پاکستانی تاریخ کے ایک ایسے باب کا نکتۂ آغاز ہے جس میں اس ملک کے خون اور بارود میں لتھڑے ہوئے کئی سال ہیں، لاتعداد شہادتیں، بے شمار بیوائوں کے آنسو اور ہزاروں یتیموں کی آہیں ہیں جو آج ہمارے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔
کلوشہ، جنوبی وزیرستان میں پیدا ہونے والا یہ 29 سالہ نیک محمد 19 سال کی عمر میں افغانستان میں ملا محمد عمرؒ کی حکومت کے قیام کے فوراً بعد افغانستان چلا گیا اور وہاں تقریباً تین ہزار طالبان کا کمانڈر بن گیا۔ جیسے ہی اکتوبر 2001ء میں امریکی افغانستان میں داخل ہوئے تو وہ واپس وانا، وزیرستان آ گیا۔ ان دنوں، امریکہ پاکستان سمیت اڑتالیس اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے میں مصروف تھا۔
اپریل 2004ء کی وہ رپورٹ جو امریکہ پاکستان تعلقات پر مبنی تھی اور جو امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہوئی، اس کے مطابق پاکستان نے افغانستان کی سرحد پر ایک لاکھ پچھہتر ہزار فوجی تعینات کر دیئے تھے تاکہ افغانستان سے بھاگنے والوں کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا جائے۔ یہی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان نے 442 مشتبہ افراد کو پکڑا جن میں سے 346 کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔
نیک محمد وزیر پر یہ الزام تھا کہ وہ اپنے علاقے میں افغانستان سے بھاگ کر آنے والوں کو پناہ دینے میں مدد کرتا ہے۔ اس نے اپنی ایک تنظیم "جیش القبہ الجہادی السرائے عالمی" کے نام سے بھی بنا لی۔ پاکستان امریکیوں کے ساتھ مل کر اس وقت وزیرستان کے علاقے میں القاعدہ کے چھپے ہوئے افراد کو تلاش کر رہا تھا اور وہاں پر رہنے والے ہر شخص کو سہولت کار سمجھا جاتا تھا۔ ایسے میں افواجِ پاکستان کے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر نے امن قائم کرنے کے لئے ایک اہم قدم اُٹھایا اور نیک محمد کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا۔
اس امن معاہدے سے قبل 16 مارچ 2004ء سے 23 مارچ 2004ء تک ایک سات روزہ مشہور معرکہ بھی برپا ہو چکا تھا، جسے امریکی "وانا کی جنگ " (Battle of Wana) کہتے ہیں۔ امریکی بتاتے تھے کہ یہ جنگ ایمن الظواہری کی قیادت میں افواجِ پاکستان کے ساتھ لڑی جاتی رہی، لیکن کئی ماہ بعد آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دراصل وہاں تو ازبک لیڈر "طاہر یلدوشیف" چھپا ہوا تھا۔
طاہر کے بارے میں بعد میں عالمی میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ اسے امریکی خود نکال کر لے گئے تھے کیونکہ وہ اسے اپنا اثاثہ (Asset) سمجھتے تھے۔ اپریل 2004ء میں معاہدہ ہوا اور نیک محمد کی تصاویر دنیا بھر کے اخبارات میں ایسے شائع ہوئیں جیسے "چی گویرا" کی بغاوت تسلیم کر لی گئی ہو۔ لیکن 6 جون 2004ء کو پاکستانی سرزمین پر پہلا ڈرون حملہ ہوا اور نیک محمد مارا گیا۔ علاقہ آگ و خون کی طویل جنگ میں غلطاں ہوگیا۔
جنرل محمد صفدر نے مئی 2005ء میں ایک بار پھر سراروغا قلعہ میں نیک محمد کے بعد بیت اللہ محسود سے امن معاہدہ کیا جس کے تحت یہ طے پایا کہ القاعدہ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جائے گا اور اگر کوئی ان کا کارکن مل گیا تو اسے پاک فوج کے حوالے کیا جائے گا۔ جنرل محمد صفدر نے بیت اللہ محسود کو خصوصی ہار پہنایا اور مجمع سے نعرۂ تکبیر کے ساتھ بیت اللہ محسود کو امن کا سپاہی بھی کہا گیا۔ اس کے بعد بیت اللہ محسود بھی 5 اگست 2009ء کو سی آئی اے کے ڈرون حملے میں مارا گیا۔
رحمن ملک وزیر داخلہ سے لے کر وائٹ ہائوس کے ترجمان رابرٹ گبز (Robert Gibbs) تک سب نے اس کا اعلان نہ کیا مگر حکیم اللہ محسود نے خود بی بی سی کو فون کر کے اس کی موت کی اطلاع دی۔ ان دونوں امریکی ڈرون حملوں کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی سرزمین پر مکمل امن قائم نہ ہو سکا۔ امریکہ اگر قبائلی علاقوں میں مداخلت سے علیحدہ ہوا تو اس نے اپنی سرپرستی میں افغانستان میں بھارتی قونصل خانے کھلوائے اور وہاں سے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو نہ صرف سپورٹ کیا گیا بلکہ انہیں مالی اور عسکری معاونت بھی کی۔
پندرہ اگست 2021ء وہ دن تھا جب افغانستان سے امریکہ اور عالمی اتحادی افواج شکست کھا کر واپس روانہ ہوئیں اور راوی پاکستان کی مغربی سرحد پر چین لکھنے لگا۔ بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آ گئی۔ ایسے میں امارتِ اسلامی افغانستان نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی کے افراد کو واپس پاکستانی معاشرے میں ضم کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ دونوں جانب سے طویل مذاکرات شروع ہو گئے۔
پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل کی میٹنگوں میں یہ طے پایا کہ ٹی ٹی پی کے پچاس ہزار کے قریب افراد کو کیسے اور کس طرح واپس آباد کیا جائے گا۔ جیلوں میں قید لوگوں کو رہا کیا جانے لگا اور مقدمات واپس ہونا شروع ہو گئے۔ صرف ایک معاملہ ایسا تھا جس پر مذاکرات خاصے اُلجھ گئے تھے۔ ٹی ٹی پی کے افراد اپنے ساتھ اسلحہ لانا چاہتے تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ان کو لاتعداد قبائلی زعماء سے خطرہ ہے، لیکن حکومتِ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ اس طرح حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
یہ معاملہ گفت و شنید کے مرحلے میں تھا۔ ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ عمران خان حکومت اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بھی یہ مذاکراتمسلسل جاری رہے۔ پاکستان کا وفد مذاکرات کے سلسلے میں اس وقت کابل میں تھا کہ جب 31 جولائی 2022ء کو کابل شہر پر میزائل سے حملہ ہوا اور ایک اطلاع کے مطابق ایمن الظواہری مارا گیا۔ طالبان حکومت نے فوراً پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات سے انکار کرے کہ امریکہ نے اس کی فضائی حدود استعمال نہیں کی ہے۔ جواب گومگو میں دیا گیا اور کوئی واضح بات نہ کی گئی۔
اس کے بعد پاکستانی وفد اگست 2022ء میں ناکام واپس آ گیا اور امن کی تمام راہیں بالکل ویسے ہی ایک امریکی میزائل نے مسدود کر دیں جیسے 2004ء اور 2009ء میں امریکی ڈرونز نے پاکستان کو آگ اور خون کے سمندر میں پھینک دیا تھا۔ کیا اب بھی ایسا ہونے جا رہا ہے، پشاور کا دھماکہ کس نے کرایا ہے، طالبان نے تو ذمہ داری قبول نہیں کی، تو پھر کون ہے جو کبھی ڈرونز، کبھی میزائل اور کبھی اپنے پالتو دہشت گردوں کے ذریعے ہمارا سکون برباد کرتا ہے۔