اس سے پہلے کہ میں پاکستانی صحافت کی گزشتہ چند دہائیوں سے زوال پذیر ہوتی اخلاقی روایات کا ذکر کروں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں۔ یوں تو میرا قلم سے رشتہ پچاس سال پرانا ہے، میری شاعری کی پہلی کتاب "قامت" 1988ء میں آئی، پھر 1990ء سے لے کر 2007ء تک میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے پانچ ڈرامہ سیریل اور لاتعداد انفرادی ڈرامے تحریر کئے، مگر کالم نگاری میں نے یکم جنوری 2002ء سے شروع کی۔
میرے ساتھ ایک المیہ رہا ہے کہ سرکاری نوکری کی وجہ سے شاعر مجھے بیوروکریٹ سمجھتے تھے اور بیوروکریٹ مجھے شاعر۔ یہی عالم صحافتی دنیا کا بھی ہے۔ لکھاری یا قلم کے ایک ادنیٰ سا مزدور ہونے کا "مرتبہ" تو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ سرکاری نوکری میں پلاٹس وغیرہ جیسی ترغیبات تو شروع دن سے ملتی تھیں۔ پہلی دفعہ مجھے اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ کی حیثیت سے کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی چلتن ہائوسنگ سکیم میں ایک پلاٹ کی پیشکش اس لئے کی گئی، کیونکہ میں نے اس سکیم کی زمین واگزار کروا کر دی تھی۔
میں نے وہ پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ مجھے اس کام کے لئے باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے۔ پیشکش کا وہ حکم نامہ میں نے سنبھال کر رکھا ہے تاکہ حوصلہ ملتا رہے۔ اس دن سے لے کر 18 جنوری 2016ء اپنی ریٹائرمنٹ کے دن تک، اللہ نے مجھے ہر قسم کے سرکاری پلاٹ کی لعنت سے محفوظ رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے سرکاری ملازمین کی ہائوسنگ سکیم کے لئے ایک درخواست جمع کروائی، جس کی قرعہ اندازی میں میرا نام تو نکل آیا، لیکن آج سات سال سے اس سکیم کا معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مسلسل گھوم رہا ہے۔ لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس "خصوصی" پلاٹ سے بھی پاک، دنیا سے لے جانا چاہتا ہے۔
کالم نگاری کے سفر کے دوران 2006ء میں میری پوسٹنگ پنجاب کے محکمہ اطلاعات و ثقافت میں ڈائریکٹر جنرل آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے تھی۔ اس سال راولپنڈی اور لاہور میں دو صحافی کالونیاں سرکاری سرپرستی میں بنائی گئیں۔ قانون بن رہا تھا کہ محکمہ کے سرکاری ملازمین کا بھی اس میں کوٹہ رکھا جائے۔ میرے مہربان سیکرٹری نے میرا نام شامل کرنا چاہا، مگر میں نے انکار کر دیا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ میرے شہر کے تھے، انہوں نے کالم نگار کی حیثیت سے مجھے پلاٹ دینا چاہا، میرا جواب وہی تھا۔
ٹھیک دو سال بعد میں اسی محکمۂ اطلاعات کا سیکرٹری لگا تو ساتھ ہی میں ان دونوں صحافی کالونیوں کا منیجنگ ڈائریکٹر بھی مقرر ہوا۔ اسی دور میں ایک اور کالونی ملتان میں بھی بنی، جس کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے پروانوں پر میرے دستخط ہیں۔ آپ کو ان تمام کالونیوں میں اس دور کے تمام سیکرٹری اطلاعات حضرات کے نام سے پلاٹ ملیں گے، لیکن اس "فقیر" کا نام آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح میرے اللہ نے مجھے بحیثیت "کالم نگار" ہر طرح کے بیرونی دوروں اور وی آئی پی طیاروں میں سفر کرنے سے محروم رکھا۔
حالانکہ ان دوروں میں صحافیوں کی فہرست مرتب کرنے والے افسران میرے ساتھی بیوروکریٹ تھے بلکہ بعض تو میرے بیج میٹ اور دوست بھی تھے۔ سرکاری "طائفوں" میں نہ جانے کی وجہ سے میرے کھاتے میں کبھی کوئی قیمتی گھڑی نہ آ سکی۔ میرا موضوعِ سخن چونکہ صحافتی اخلاقیات ہے، اس لئے اپنی حد تک وضاحت میں نے ضروری سمجھی۔ یہ وضاحت کسی زعم پارسائی میں نہیں کی بلکہ اللہ کی خاص توفیق کے شکرانے میں کر رہا ہوں۔
گزشتہ ایک سال سے عمران خان پر توشہ خانے سے گھڑیاں لے کر بیچنے کے الزام کا سلسلہ چلا تو پاکستان کے لاتعداد "عظیم" صحافی اور کالم نگار اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یوں لگتا تھا پاکستان میں غربت، افلاس، بیماری، بھوک اور جہالت اس وجہ سے ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے گھڑی لے کر بیچ دی۔ وہ تو بھلا ہو ہائی کورٹ کے جج جسٹس عاصم حفیظ کا کہ انہوں نے 1947ء سے لے کر اب تک کے توشہ خانہ کے تمام تحائف کا ریکارڈ طلب کر لیا۔
ابھی صرف بیس سال کا ریکارڈ سامنے آیا ہے تو ایسے ایسے پارسائوں کے لباس تارتار ہوئے ہیں کہ نام لیتے ہوئے حیاء آتی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ گھڑیاں لینے والے ان "عظیم صحافیوں" میں وہی نمایاں تھے جو عمران خان پر چوری کے الزام لگاتے ہوئے لال پیلے ہوئے جاتے تھے۔ ظاہر بات ہے بیرونی دورے چونکہ نواز شریف اور زرداری کے ہمراہ گئے تھے اور گھڑیاں بھی انہیں"طائفوں" کو ملنا تھیں تو پھر "حقِ نمک" کی ادائیگی میں تو ہمارا جواب نہیں۔
پاکستانی صحافت کے اخلاقی زوال کا صحیح اندازہ صرف ایک توشہ خانہ کے ریکارڈ کو منظر عام پر لانے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے آپ کو مراعات "عطا" کرنے والے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ریکارڈ کو منظرِ عام پر لانا ہوگا۔ جب سے ہم نے اسلام آباد دارالحکومت بنایا ہے اور اس کے پلاٹوں کو بیوروکریٹس، ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں میں تقسیم کرنا شروع کیا تو صحافیوں نے بھی اس لوٹ مار میں اپنے اپنے "تعلقات" اور اپنی اپنی "خدمات" کے عوض حصہ وصول کیا ہے۔
رئوف کلاسراء نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے ایسے پلاٹ یافتہ صحافیوں کی فہرست شائع کر دی اور کمال دیانت داری یہ تھی کہ اس میں سے اپنا نام حذف نہیں کیا۔ مطیع اللہ جان نے ایک ٹیلی ویژن چینل سے "اپنا گریباں" کے نام سے پروگرام شروع کیا جس میں نہ صرف پلاٹ یافتہ بلکہ سرکاری رشوت پر حج کرنے والے صحافیوں پر بھی پروگرام کئے۔ ایک پروگرام میں انصار عباسی نے صحافی کالونی میں ملنے والے پلاٹ کو واپس کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن پھر یہ سب کچھ روک دیا گیا اور ان کی زبانیں خاموش ہوئیں یا دوستانہ مروّت سے کر دی گئیں۔
وہ لکھاری اور تجزیہ کار جو سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے 1947ء سے لے کر اب تک کے "اعمال ناموں" کا بار بار ڈھول پیٹتے رہتے تھے، انہوں نے اپنے خلاف اُٹھنے والی ان آوازوں کو نہ صرف خاموش کیا بلکہ دوبارہ تذکرہ تک نہ کیا۔ عین ممکن ہے مطیع اللہ جان اور انصار عباسی کا پروگرام ہی "ڈیلیٹ" کر دیا گیا ہو اور رئوف کلاسرا کا کالم آپ کو ڈھونڈنے پر بھی نہ مل سکے۔
پاکستانی صحافت کی اخلاقیات کا زوال نویّ کی دہائی سے شروع ہوا، جب مراعات عطا کرنے کے بادشاہ اور معمارِ اوّل نواز شریف کو اقتدار ملا۔ جس "فریادی" نے جو خواہش کی، مغلِ اعظم نے پوری کر دی۔ پیپلز پارٹی کو جب سیاست میں اس دوڑ کا سامنا کرنا پڑا تو زرداری صاحب نے بھی اپنی صلاحیتوں کا خوب استعمال کیا۔ ایسے میں ان دونوں پارٹیوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے اور اُتارنے کے ذمہ دار بھی میدان میں آ گئے۔
وزارتِ اطلاعات اور ان اداروں میں"سیکرٹ فنڈ" کا آغاز کیا گیا جو کبھی صرف ڈپٹی کمشنر یا زیادہ سے زیادہ ہوم سیکرٹری تک محدود تھا اور پھر اس فنڈ کا بلا دریغ استعمال کیا گیا۔ توشہ خانہ کا آدھا ریکارڈ تو آ گیا ہے، باقی آدھا بھی آ جائے گا، لیکن اگر اس ملک میں قلم کی حرمت و عصمت کو آلودگی سے پاک ہونا ہے تو پھر بہت کچھ سامنے لانا ہوگا۔
پورے ملک میں سرکاری طور پر الاٹ کئے گئے پلاٹوں کی لسٹیں، بیرون ملک سرکاری دوروں پر جانے والے صحافیوں پر اُٹھنے والے اخراجات کی فہرستیں، خصوصی طور پر سمریوں کے ذریعے بیرون ملک اپنا اور اپنے رشتے داروں کا سرکاری خرچ پر علاج کروانے والوں کے نام اور اخراجات، وہ سرکاری عہدے جو "خدمات" کے عوض عطا کئے گئے، خواہ کسی کارپوریشن میں ہوں، سفارت خانے میں یا سیاسی مشیر و وزیر کے مرتبے پر فائز کرنا وغیرہ۔
اس کے علاوہ بیٹوں یا بیٹیوں کو خصوصی کوٹے پر میڈیکل یا انجینئرنگ کالجوں میں داخل کروانا، انہیں قوانین میں ترامیم کروا کر پولیس اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر بھرتی کروانا بھی شامل ہونا چاہئے۔ غرض یہ سب کچھ سامنے آنا چاہئے۔ کسی احتساب کے لئے نہیں، صرف اس لئے کہ جب کوئی لکھاری اپنے قلم سے اخلاقی معیار کی بات لکھے یا ٹیلی ویژن پروگرام پر بولے تو لوگ اس کے کردار کی بنیاد پر اس کی گفتگو اور تحریر کو پرکھ سکیں۔