گزشتہ دو سالوں سے ایک اذیت اور کرب ہے جس سے میں گزر رہا ہوں، ایک ماتم ہے جو میں بہت زور و شور سے کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اس ماتم میں ہر وہ شخص شریک ہو جسے اسلام یا کسی بھی مذہب سے تھوڑی سی بھی محبت ہو، سید الانبیاء ﷺ کی سنت سے ذرا سا بھی پیار ہو یا اس دنیا پر بسنے والے سات ارب انسانوں کی روایات عزیز ہوں۔ پوری دنیا میں عمومی طور پر ایک رویہ ہر معاشرے اور ثقافت میں موجود ہے کہ وہ اپنے مرنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد نے یا طرز معاشرت نے انہیں مرنے والوں کے لیے جو دعائیں سکھائیں ہوتی ہیں وہ اس کی آئندہ زندگی میں بہتری، آسانی اور اعلیٰ و ارفع مقام کے لیے کرتے ہیں۔
بدترین سیکولر مغربی معاشرے جنہوں نے صرف شادی، بپتسمہ اور جنازہ تک ہی مذہب کو محدود کردیا تھا، انہوں نے بھی شادی کا طوق تو گلے سے اتار کر پھینکنے کی پوری کوشش کی اور مسلسل کر رہے ہیں، لیکن مرنے والے کو آئندہ سفر پر روانہ کرنے کے لیے پورے ادب و احترام اور خلوص نیت کے ساتھ وہ لوگ سب کچھ کرتے ہیں جو انکے خدا، یزداں یا ایشور نے انہیں بتایا ہوتا ہے۔ کوئی ان مذہبی رسوم میں ذرا برابر بھی ترمیم نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ تمام رسوم دنیا کے لئے نہیں ہوتیں، بلکہ مرنے والے کے سفرِ آخرت کو آسان کرنے اور اسے اگلے جہان میں سرخرو کرنے اور نعمتوں سے سرفراز کرنے کے لیے کی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب کوئی بیٹا یا بیٹی اپنے باپ یا ماں کو اس آخری دعا سے محروم نہیں کرنا چاہتا، کوئی باپ اپنے قاتل، چور اور ظالم بیٹے کو بھی دعاؤں سے محروم کرکے اگلے جہان کے سفر پر روانہ نہیں کرنا چاہتا۔
صدیوں سے ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ ہم مرنے والوں کے نیک اعمال کا بار بار ذکر کر کے ان کے لیے اس حوالے سے اللہ سے رحمت، مغفرت اور بخشش مانگتے رہے ہیں۔ لیکن اس ملک میں این جی او کلچر اور سول سوسائٹی نے جس دن سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی بجائے موم بتیاں جلانے اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی روش کو عام کیا اس دن سے کتنے ایسے گھرانے ہیں جو اپنے پیاروں کے لیے ان لاتعداد دعاؤں سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ کون باپ یا ماں نہیں چاہے گی کہ دھماکے میں بے گناہ مرنے والے اس کے بیٹے کے لیے لوگ ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھیں، دعائے مغفرت کریں، قرآن خوانی کریں اور اس کے لیے جنت، پیراڈائز یا سورگ کی تمنا کریں۔ لیکن اس سیکولر لبرل کلچر اور سول سوسائٹی نے ان ماں باپ سے ان کی یہ تمنا اور خواہش بھی چھین لی ہے۔
میرے دکھ اور کرب کا آغاز یوں تو پرویز مشرف کے عطا کردہ اس سیکولر کلچر سے ہی ہو چکا تھا، لیکن اس کی انتہا میں نے 8 جولائی 2016 کو محسوس کی جب عبدالستار ایدھی جیسے عظیم انسان کا انتقال ہوا اور اس ملک میں مرنے والے کے ایمان اور کفر کا فیصلہ کرنے کے لئے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایدھی کی لاش کو سیکولر کرنے اور اسے جنت و دوزخ سے بے نیاز کرنے کا کام اس سول سوسائٹی نے شروع کیا۔ ایک نیا مذہب تراشا گیا اور اس کا نام "انسانیت" رکھا گیا اور خاص طور پر وہ لقب جو اردو ادب کی کئی سو سال کی روایت سے رسول اکرم ﷺ سے منسوب تھا، یعنی محسن انسانیت، وہ ایدھی کے ساتھ لگا کر اسے اس ملک میں متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایدھی صاحب کے ساتھ ایک واقعہ میرے پاس بھی امانت ہے جسے توڑ موڑ کر ان سیکولر حضرات کی مخالفت میں ان لوگوں نے پیش کیا۔
عبدالستار ایدھی 2003 میں میری دعوت پر نیپا کوئٹہ کے زیر تربیت افسران سے خطاب کرنے آئے۔ میں ڈائریکٹر نیپا تھا۔ مغرب کی نماز کا وقت آگیا، میں نے انہیں کہا کہ آئیں، آج آپ نماز پڑھائیں، پہلے وہ خوبصورت سی شرمانے والی ہنسی ہنسے، پھر کہنے لگے میں دراصل کیمونسٹ خیالات کا آدمی ہوں، میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ لوں گا، کیوں کہ یہ ہمارا کلچر ہے۔ پھر انہوں نے سب کے ساتھ میری اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھی۔ میں نے انہیں بعد میں ایک بزرگ کا واقعہ سنایا جو وضو کرنے اور نماز پڑھنے میں بہت اہتمام کرتے تھے اور اس کام میں گھنٹے گزر جاتے تھے۔ وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ نماز کے لئے وضو کرنے گئے، ساتھی نے جلد از جلد وضو کیا، نماز پڑھی اور فارغ ہو کر بیٹھ گیا۔
وہ بزرگ وضو سے فارغ ہوکر آئے تو پوچھا تم نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں، پھر پوچھا تم نے نماز پڑھی، اس شخص نے ایسا جواب دیا کہ بزرگ شرمندگی سے رونے لگ گئے۔ کہا کہ، "میں تو مصلے پر اس لیے کھڑا ہوا تھا کہ اللہ کو یہ بتا سکوں کہ میں تمہارا باغی نہیں ہوں "، ایدھی صاحب کو میں نے کہا کہ آج آپ نے یہاں کھڑے ہو کر یہ اعلان کتنے لوگوں کے سامنے کر دیا کہ آپ اللہ کے باغی نہیں اور اس کے بندوں سے آپ کے پیار پر تو یہ پورا ملک گواہ ہے۔ وہ تو میرا اللہ ہے جو بخشش کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ لیکن میرے ملک کا یہ سیکولر طبقہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ اللہ نہیں ہے اور ہم ہیں جو ایدھی صاحب کو دنیا میں ہی اجر دے رہے ہیں۔ میرا یہ دکھ اور کرب کل اس وقت بہت شدید ہو گیا جب میں اپنے گزشتہ چالیس سال کے دوست منو بھائی کے لیے تعزیتی اجلاس کے لیے گیا۔
منو بھائی پر کی جانے والی تقاریر میں ایک صاحب نے کہا کہ منو بھائی! جنت اور ثواب سے بے غرض ہو کر انسانیت کی خدمت کرتے تھے۔ اس جملے پر پہلے منصور آفاق اور اس کے بعد میں نے یہ التجا کی ہے کہ آخرت کے سفر پر روانہ ہوئے منو بھائی کو اللہ کی اس نعمت سے محروم مت گردانو، جسے جنت اور ثواب کہتے ہیں۔ منو بھائی ایک کلمہ گو مسلمان تھا اور اس کی موت ایک مسلمان کی موت تھی۔ میرے دوست ضیاء الحق نقشبندی نے اسے صوفیانہ روایت کے خوبصورت معنی پہنانے کی کوشش کی کہ صوفیاء جنت و دوزخ اور عذاب و ثواب سے بے نیاز ہو کر عبادت کرتے تھے۔ یہ وہ بہتان ہے جو ہمارے صوفیائے کرام پر لگایا جاتا ہے۔ وہ تو اتباع رسولؐ اور عشق رسولؐ کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ جس رسولؐ نے بار بار دوزخ کے عذاب سے بچنے کی دعائیں سکھائیں، جنت الفردوس اور اللہ کی رحمت کی دعائیں کیں، کیا یہ صوفیائے کرام اللہ کے رسول ﷺ سے بھی زیادہ بزرگ تھے جو ان دعاؤں سے بے نیاز ہو چکے تھے۔
کیا داتا گنج بخشؒ، معین الدین چشتی، بابا فرید گنج شکررحمتہ اللہ علیہ سے لے کر میاں میر رحمتہ اللہ علیہ تک بلکہ آج تک کے یہ سب بزرگ اللہ کی عطا کردہ نعمت بلکہ سب سے بڑی نعمت اجروثواب کا نعوذباللہ انکار کرنے والے ہیں؟ کیا یہ سب جو اللہ کو اپنا محبوب و مدعا کہتے تھے اور اس کی محبت کے حصول کے لیے خلق خدا کی خدمت کرتے تھے، کیا وہ اس کے اجر و ثواب کے منکر ہو سکتے ہیں؟ یہ سب جھوٹی روایات ان عظیم صوفیاء سے منسوب کی گئی ہیں۔ یہ صرف شاعرانہ تعلی تک محدود تھیں اور آج تک اللہ کے انکار کا راستہ دکھاتی ہیں جیسے غالب کا یہ شعر جو فارسی شاعری کی روایت سے مستعار ہے۔ طاعت میں تار ہے نہ مئے وانگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو ایسے اشعار سے متاثر لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہہ سے لے کر رابعہ بصریؒ تک، بہت سی جھوٹی روایات منسوب کر دیں کہ وہ اللہ کے اجر و ثواب اور عذاب سے بے نیاز ہو کر عبادت کرنے کا درس دیتے تھے۔ لا حول ولا قوۃ۔
میرا دکھ، میرا کرب اور المیہ یہ ہے کہ جس اللہ کے رسول ﷺ نے منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کا جنازہ بھی اسی احترام سے پڑھایا ہو جیسے اپنے باقی صحابہؓ کا جنازہ، اس کے ماننے والے عاصمہ جہانگیر کے جنازے کو ایک سیکولر اور لبرل جلسہ بنانے کے لیے، اللہ کے احکامات کے برعکس اسے مخلوط کردیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی مرنے والے بظاہر گناہگار شخص کی کوئی ایک نیکی ایسی ہو جو اس کی بخشش کا سامان بن سکتی ہو۔ یہ تماشا صرف اسلام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کوئی سیکولر، ہندو، عیسائی، بدھ اور یہودی مرنے والوں کی اولادیں، دوست اور وارث اس کے جنازے کو تماشا نہیں بنانے دیتے۔ یہ بدقسمتی بھی ہمارا ہی مقدر بنی۔
مرنے کے بعد دعائیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ عین ممکن ہے کہ دعا کرنے والوں میں سے کوئی ایک ہاتھ ایسا اٹھ جائے جس کی دعا کو اللہ قبولیت کا شرف بخش دے۔ غور کرو!اگر اگلا جہان نہ ہوا، جنت دوزخ نہ ہوئی، تو پھر ہم اور سیکولر برابر ہیں۔ لیکن اگر کل جنت و دوزخ ہوگئی تو پھر آپ نے اپنے سب سے پیارے شخص کو تو دعا سے محروم کردیا۔ کچھ رحم کرو اپنے پیاروں پر۔