جس شخص کو دس اپریل 2022ء کو چشمِ زدن میں پورے ملک میں پاکستانی عوام کے کھولتے ہوئے لاوے کی طرح باہر نکلنے اور 20 نومبر 2022ء کو وزیرآباد میں شاندار منصوبہ بندی سے کئے گئے، قاتلانہ حملے میں عمران کے معجزانہ طور پر بچ نکلنے میں مشیتِ ایزدی کے اشارے نظر نہیں آتے، اس کی آنکھوں کی پٹی کھلنے میں ابھی شاید چند ماہ لگ جائیں۔ یہ آنکھوں، کانوں اور دلوں پر لگی ہوئی مہریں ہوتی ہیں جو کسی شخص کے انجام سے پہلے نہیں کھلتیں۔
اسلام آباد کے درویشِ نسیم انور بیگ کا آباد آستانہ جس کی ایک ایک اینٹ قدرت اللہ شہاب نے اپنی نگرانی میں لگوائی تھی، وہاں ان کے وجود سے جو فیض جاری ہوتا تھا، اس کی بہاریں لُوٹنے کے لئے مَیں کوئٹہ سے آیا کرتا تھا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد مشرف دور میں بھی ایسے ہی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
وہ جو کبھی ہنستے مسکراتے گلیوں میں گھوما کرتے تھے، جن کے وجود سے مسجدوں کی محرابیں آباد تھیں اور جن کی آخرِ شب کے آنسوئوں میں اس اُمتِ مسلمہ کا درد چھپا ہوتا تھا، اچانک اُٹھائے جا رہے تھے، غائب کئے جا رہے تھے، امریکہ کے حوالے کئے جا رہے تھے۔ جو امریکہ کے خلاف بولتا، وہ پہلے متعصب، پھر شدت پسند اور آخر میں دہشت گرد کہلاتا۔ عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسے تو یہ کہہ کر گمراہ کر دیا گیا تھا کہ ہم اپنی بقاء اور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسی پریشانی میں ایک روز مَیں، بیگ صاحب کی محفل میں جا نکلا۔
مجھے پریشان دیکھ کر انہوں نے مشرف کے بارے میں ایک فقرہ کہا جو آج ہوبہو سچ ثابت ہو رہا ہے۔ مَیں نے اس درویش کی یہ بات جب کالم میں لکھی تو اس کا تمسخر اُڑانے والے بے شمار تھے۔ بیگ صاحب نے فرمایا تھا، "کچھ کشتیوں کے نصیب میں ڈوبنا نہیں ہوتا، وہ مسلسل طوفان کے تھپیڑے کھاتی رہتی ہیں۔ کون ہے جو آج مشرف کے حال سے واقف نہیں کہ مسلسل تھپیڑوں نے اس کا یہ حال کر دیا ہے کہ اپنے دوستوں سے بھی ملنے سے انکار کر دیتا ہے۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نااُمیدی اس کی دیکھا چاہیے
کیسے ہو سکتا ہے کہ جس قوم کو اس پچھتر سال کے عرصے میں، پہلے جہادِ کشمیر اور پھر غزوۃ الہند کی لوریاں دے کر پالا گیا ہو، مدتوں اسے اسلام کا قلعہ ہونے کے خواب دکھائے گئے ہوں، اسے ایک دَم واشنگٹن کے کہنے پر اس راستے سے دُور کر دیا جائے۔ کون تھا جو اس مرنجاں مرنج اسلام کا قائل نہیں ہوگیا تھا۔ پڑوس میں ملا محمد عمرؒ کے پروانے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے مگر ان کے بارے میں پاکستان میں کلمۂ خیر کہنا ناممکن تھا۔
تمام "مذہبی سیاسی جماعتیں"، ایم ایم اے کے ترازو میں اقتدار کی قیمت پر تولی جا چکی تھیں۔ بڑے سے بڑا "سیاسی عالم دین" بھی ٹیلی ویژن پر نظریں جھکائے کہتا تھا کہ "ہمیں طالبان والا اسلام نہیں چاہئے"۔ یہی طالبان والا اسلام 1995ء سے پہلے مجاہدین والا اسلام ہوا کرتا تھا جسے امریکہ سمیت دنیا کا ہر ملک پسند کرتا تھا۔ وہ تمام احادیث جو خراسان سے متعلق ہیں انہیں خوبصورت انداز سے نئے مطالب و معانی سے سجایا گیا تھا۔
لائبریریوں کی گرد سے نعمت شاہ ولی کی پیش گوئیاں نکالی گئیں، انہیں غزوۃ الہند والی اٹھارہ احادیث اور امام مہدی والی احادیث کے ساتھ ملا کر پڑھا جانے لگا۔ درس یہ دیا جاتا تھا کہ ہمارے لئے جہاد صرف دو خطوں میں جائز اور حلال تھا، ایک افغانستان اور دوسرا کشمیر، باقی دنیا کے مسلمان اپنا معاملہ خود جانیں۔ بوسنیاء یا فلسطین کے مسلمانوں سے ہمارا کیا تعلق۔ افغانستان سے آخری روسی فوجی نکلا تو ساری توانائیاں کشمیر کی طرف مبذول ہوگئیں۔ لیکن گیارہ ستمبر کے بعد کشمیر فتح کرنے اور غزوۃ الہند لڑنے اور اسلام کا قلعہ جیسے نعرے بھی امریکہ کے کہنے پر اس قوم سے چھین لئے گئے۔
پرویز مشرف نے جنوری 2002ء کی تقریر میں ایسے نعروں کو ملک دشمنی قرار دیتے ہوئے پہلے مملکتِ خداداد پاکستان کو شدت پسند اور متعصب قرار دیا اور پھر ایک ہی سانس میں کشمیر کے لئے جہاد کرنے والی تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیش محمد پر پابندی لگا دی، "حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے"۔
لیکن وہ قوم جسے جہاد کی لوریاں دے کر پالا گیا تھا اور رسولِ اکرم ﷺ کی احادیث پڑھا پڑھا کر عالمی جہادی نقشے پر اُبھارا گیا تھا وہ اچانک ایک جرنیل کی باتوں پر کیسے یقین کر لیتی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم بشارتوں کا امین ایک منتخب ملک ہیں اور پاکستان کی فوج ایک منتخب فوج، جس نے اس دنیا کا آخری بڑا معرکہ لڑنا ہے۔ حالانکہ احادیثِ مبارکہ کے مطابق جس لشکر نے غزوۂ ہند کا معرکہ لڑنا ہے، وہ تو بیت المقدس سے روانہ ہوگا۔
عین ممکن ہے کہ اس کا پہلا پڑائو پاکستان کی سرزمین پر ہی ہو اور اللہ یہاں کے عوام کو اس معرکے میں حصہ لینے کی فضیلت عطا فرما دے۔ لیکن احادیثِ کے مطابق یہ بات حتمی نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان کی بنیاد چونکہ کلمۂ طیبہ پر رکھی گئی، اس لئے پاکستان کو اس معرکے کا گریژن قرار دیا جاتا رہا۔
نعمت شاہ ولی کی پیش گوئیوں میں تقسیمِ ہند کی پیش گوئی سے آخری معرکے تک کے سارے اشعار لوگوں کو ذہن نشین کروائے گئے، لیکن چونکہ یہ پیش گوئیاں حدیث کے علم سے ماخوذ تھیں، اس لئے ان میں بھی کابل، عرب اور فارس کے مجاہدین کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن ہمارا حصہ صرف "غازیانِ سرحد لرزد زمیں چو مرقد"، (سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی) یعنی اٹک سے پار والوں کے ذکر تک محدود ہے۔
معرکے کا مقام بھی دریائے اٹک ہی تحریر ہے "روزِ اٹک نہ سہہ بار از خونِ اہلِ کفار" (دریائے اٹک کافروں کے خون سے تین بار بھر کر جاری ہوگا)۔ تھوڑا تذکرہ مغربی علاقے کے مومنین کا بھی ہے کہ ان کے ہاتھ کچھ کارآمد لوگ آ جائیں گے۔ ان تمام پیش گوئیوں، خراسان کی سرزمین کی بشارتوں، امام مہدی کی نصرت کے لئے نکلنے والے قافلوں کی گونج ہمیشہ یہاں سنائی دیتی رہی۔ اقبالؒ کی آواز بھی ایسے ہی بلند ہوئی تھی:
خضر وقت از خلوتِ دشتِ حجاز آبدیروں
کارواں زیں وادیٔ دور از دراز آبدیروں
ترجمہ: "سرزمینِ حجاز سے زمانے کا خضر (مہدی) ظہور کر رہا ہے اور اس دُور دراز وادی (مشرق) سے کوئی قافلہ اس کی سمت روانہ ہو رہا ہے"۔ ان کیفیات میں پاکستان جیسے نظریاتی ملک کا 1947ء میں معرضِ وجود میں آنا اور پھر تمام تر مشکلات کے باوجود اس کا ایٹمی طاقت بننا بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ لیکن اس ملک میں پچھتر سال کے دوران ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا کہ جب اس ملک کے اہلِ اقتدار نے قیامِ پاکستان کے مقصد کو پورا کیا ہو۔ اس تمام سارے عرصے میں اس مملکتِ خداداد کا قبلہ ہمیشہ حجاز کی بجائے واشنگٹن ہی رہا۔
اگر واشنگٹن نے ہمیں حجاز کی طرف رُخ موڑنے کی اجازت دے دی تو ہم نے بھی گردن گھما دی، لیکن اگر واشنگٹن نے کہا اب رُخ واپس پھیر لو تو ہم نے منہ موڑا اور پھر پلٹ کر بھی اس طرف نہیں دیکھا۔ ہم اس وقت حالتِ سزاء میں ہیں، ہم کفرانِ نعمت کے سزاوار ہیں، ہمیں آزادی جیسی دولت ملی لیکن ہم شکر گزار بندے نہ بن سکے۔ ہماری یہ سزاء طویل تو شاید نہ ہو لیکن سخت ضرور ہوگی۔
طویل اس لئے نہیں ہو سکتی کہ آخری معرکوں کا مرحلہ قریب ہے۔ سخت اس لئے ضرور ہوگی کہ ہمارا جرم بہت بڑا ہے۔ لیکن اس مرحلے کی بھٹی سے یہ قوم اب کُندن بن کر ہی نکلنے والی ہے۔ دس اپریل 2022ء کو اس قوم نے باہر نکل کر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ہمیں پچھتر سال سے واشنگٹن کے کہنے پر نچایا گیا، لیکن اب ہم نہیں ناچیں گے۔
عوام کا یہ اعلان میرے اللہ کی بہت بڑی نشانی ہے اور اس نشانی کا تسلسل یہ ہوگا کہ اب اقتدار کا تاج بھی اسی کے سر پر سجے گا جو واشنگٹن سے منہ موڑے گا۔