ہم یقینًا حالتِ عذاب میں داخل ہو چکے ہیں، جس سے نکلنے کے لئے بڑے بڑوں کو راستہ سُجھائی نہیں دے رہا۔ ہم اور ہمارے حکمران دنیا بھر میں تمسخر اور ہنسی ٹھٹھے کی علامت بن چکے ہیں۔ بھرے مجمعے میں تالی بجاتے ہوئے نریندر مودی کہتا ہے"پاکستان کی ساری ہیکڑی (اکڑ فوں) میں نے نکال دی، اسے کٹورا (کشکول) لے کر پوری دنیا میں گھومنے پر مجبور کر دیا۔
بھارت کے کسی حکمران نے ہماری ایسی ہنسی تو آج تک نہیں اُڑائی تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم پر اس وقت بدترین حکمران مسلّط ہیں اور یہ دور پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور ہے۔ اس فقرے کی تصدیق کیلئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان کے ہر کوچہ و بازار میں بسنے والے لوگ اس پر گواہ ہیں۔
یہ ملک ایک ایسی بند گلی میں آ نکلا ہے، جس سے نکلنے کا راستہ کسی کو نہیں معلوم۔ ان کو بھی نہیں سُجھائی دے رہا جو بار بار اس ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کے لئے سرحدوں کی حفاظت کی اہمیت کو کچھ عرصے کے لئے پسِ پشت ڈال کر پاکستان کی معیشت کو بچانے آ نکلتے تھے۔
یہ تو ہمیں ان "تین" ادوار کی معاشی ترقی میں امریکی "امداد" کی برسات سے اندازہ ہوا کہ ایوب، ضیاء اور مشرف کے زمانے میں ہم پر "ڈالروں" کا ہن برستا تھا، جس کی وجہ سے ہم خوشحال دکھائی دیتے تھے۔ مگر اس "امداد" کے "عوضانے" کے طور پر ہم نے امریکہ کے لئے جو "خدمات" سرانجام دیں اس نے اس قوم کو تو برباد کرنا ہی تھا، لیکن ایک قسم کی بدترین خرابی ہمارے فیصلہ سازوں اور طاقت ور قوتوں میں آ گئی۔
اب وہ ملک کو خود سُدھارنے کی بجائے، اس انتظار میں لگ گئے کہ کب امریکہ ہمارے آس پاس کوئی محاذِ جنگ کھولے، اور پھر ہماری ضرورت پڑے، اور یوں ہم پر "ہن" برسنا شروع ہو جائے۔ بلاول بھٹو کی تازہ امریکہ یاترا سے واپسی پر دیا گیا یہ بیان کہ امریکہ پاکستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحد سے دہشت گردی کے خلاف تحفظ میں ہماری مدد کرے گا، ساتھ ہی 19 جنوری کو امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس (Ned Price) کا یہ بیان کہ ہم پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں ملا کر دیکھیں تو پسِ پردہ یہ حقیقت چُھپی نظر آئے گی کہ پاکستان کو اب پھر کسی محاذِ جنگ پر "کام" ملنے والا ہے اور اس خوشی میں ہم جو کئی سال سے بے روزگار تھے، ہماری باچھیں کھلی جا رہی ہیں۔
مگر ہماری اس خوشی کو حقیقت میں بدلنے سے پہلے ہمیں جس شدید معاشی بحران سے گزارا جا رہا ہے، اس کا مقصد صرف ایک ہے کہ ہماری حالت ریت پر تڑپتے ہوئے اس پیاسے جیسی کر دی جائے جو ایک کٹورہ پانی کے لئے ہی اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی ایسی حالت اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، جیسی اس وقت ہے۔ ایٹمی دھماکے کے بعد ہم پر پابندیاں لگیں، ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر رہ گئے، لیکن ان دنوں کبھی ایسی شکایت موصول نہ ہوئی کہ ہماری دوائیاں بنانے کا خام مال، ہمارے مرغی خانوں کے لئے خوراک اور ہماری بے شمار صنعتی اور گھریلو ضروریات کیلئے اشیاء منگوانے کیلئے ہمارے پاس زرِمبادلہ موجود نہیں۔
ہماری اس زبوں حالی پر روز ماتم بپا ہوتا ہے لیکن "اربابِ اختیار" اپنی روش میں"سرمست" ہیں۔ سیاسی انجینئرنگ ویسے ہی جاری ہے، شاہانہ اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے، اور انصاف و قانون اسی طرح اشرافیہ کے گھروں کا طواف کر رہا ہے۔ ہمارے حکمران اور صاحبانِ اقتدار اس قدر بے حس، خود غرض اور عوام کے دُکھوں اور تکلیفوں سے دُور کیوں ہیں۔ کیا اللہ نے انہیں ایک حساس دل عطا ہی نہیں کیا ہے؟ کیا انہیں لوگوں کے آنسو، آہیں، تکلیفیں اور مصیبتیں بالکل نظر نہیں آتیں۔
کوئی سنگ دل سے سنگ دل شخص بھی پاکستان کے ان حالات میں ایسا روّیہ نہیں رکھ سکتا جیسا روّیہ گزشتہ دس ماہ کے دوران ان حکمرانوں کا دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم پر اُفتاد پہلے نہیں ٹوٹی۔ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن ایسا کچھ اس ڈھٹائی سے کوئی نہیں کرتا تھا اور اس قدر بے خوفی سے کوئی اپنی بے حسی کا دفاع نہیں کرتا تھا۔
ایسی طرزِ حکمرانی اور ایسے حکمران میرے اللہ کے نزدیک عوام کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ حدیث قدسی ہے، ارشاد فرمایا، "میں اللہ ہوں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ جب میرے بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں اور وہ ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں" (مشکوۃ المصابیح)۔
یہ تو ہے وہ اُصول جو ہمارے حکمرانوں سے متعلق بیان کیا گیا ہے، لیکن ہم جیسی قوم کے بارے میں اللہ نے قرآنِ پاک میں ایک اہم فیصلہ صادر فرما دیا ہے اور آج ہم جس معاشی بحران کا شکار ہیں اس کا اشارہ قرآنِ پاک میں یوں ہے "جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے" (طہٰ:124)۔
ذکر سے مراد قرآنِ پاک ہے، یعنی جب ہم اس کے درسِ نصیحت سے منہ موڑیں گے تو ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ نے یہاں لفظ "معیشتِ ضنکا" استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے "کسی کی گزران مشکل کر دینا" یعنی تمہارے کھیت لہلہا رہے ہوں گے، تمہاری جیبوں میں سرمایہ موجود ہوگا، لیکن تمہیں چین کی زندگی نصیب نہ ہو۔ کبھی بنیادی خوراک سے محرومی اور کبھی گیس و بجلی کا بحران، رات دن کی بے سکونی۔
مولانا مودودیؒ اس کی تفسیر میں تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں"دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہیں ہوگا۔ کروڑ پتی بھی ہوگا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرماں روا بھی ہوگا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیاوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی، جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک، ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی، جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی"۔
گریبانوں میں جھانکئے اور خود سے سوال کیجئے کہ کیا آج ہم سب کے شب و روز ایسی حالت میں نہیں گزر رہے۔ وہ چند لوگ مستثنیٰ ہیں جنہیں اللہ نے اطمینان نصیب کر رکھا ہے اور وہ اپنی غربت میں بھی توکل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ کون ہے جو آج چین کی نیند سو رہا ہے، کون ہے جو آنے والے کل کے لئے مضطرب اور بے چین نہیں۔ حکمرانوں کے اپنے جھمیلے ہیں، سپاہ کے اپنے مسائل ہیں، تاجروں کی الگ بپتا ہے، مزدور کی تلخیاں اور ہیں جبکہ کسان کی مایوسیاں انہیں جینے نہیں دے رہیں۔
یہ تو اس دنیا میں ہماری حالت ہے، لیکن کبھی سوچا ہے کہ اللہ آخرت میں ہمارے انجام کے بارے کیا فرماتا ہے "میں روزِ حشر ایسے لوگوں کو اندھا اُٹھائوں گا" اور فرمایا، "وہ کہے گا پروردگار! دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا، اللہ فرمائے گا، ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو جب وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بُھلا دیا، آج ویسے ہی ہم نے تجھے بُھلا دیا" (طہٰ: 125-126)۔