پاکستان کے جمہوری نظام کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ترتیب، تدوین اور انتظامِ کار میں جو لوگ مسلسل شامل رہے ہیں، ان کی اکثریت ذاتی مفادات، گروہی تعصبات، لسانی عصبیت اور علاقائی نفرت سے بلند اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ ہر کسی نے آئین کی ترتیب اور پھر اس میں بار بار ترامیم کرتے ہوئے اپنے انہی مفادات کا زہرآئینی دستاویز میں ضرورشامل کیا اور آج یہ ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس سے ہر کوئی اپنی مرضی کی تعبیر نکال سکتا ہے۔ سیاست دانوں کی آئینی قلابازیوں کے ساتھ ساتھ مروجہ 1973ء کے آئین میں ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے فوجی اقتدار کے تحت کی گئی ترامیم بھی شامل ہوتی گئیں۔ ان ترامیم کے تحت ان تمام اقدامات کو تحفظ حاصل ہوا جو آئین کی پامالی کے عرصے میں اٹھائے گئے تھے۔ دکھ اور المیے کی بات یہ ہے کہ دونوں دفعہ ان ترامیم کو آئینی تحفظ، عوامی ووٹوں سے منتخب سیاستدانوں کی اسمبلی اور سینٹ نے دیا۔ ضیاء الحق کی ترامیم کو پارلیمنٹ نے آٹھویں ترمیم کے نام پر 14نومبر1985ء کو منظور کیا۔ اس اسمبلی اور سینٹ میں موجودتمام سیاست دان بعد میں آنے والے ادوار میں کئی برسوں تک پاکستانی سیاست کے افق پر چھائے رہے۔
یہ لوگ پارٹیاں بدل بدل کر ایوانوں میں آتے رہے، لیکن آج تک کسی نے اپنے اس جرم کا برملا اقرار نہیں کیا، کہ اس میں اتنی جرأت و حمیت ہی نہیں تھی کہ وہ اپنی اسمبلی کی نشست چھوڑ دیتا اور ضیاء الحق کے غیر آئینی اقدامات پر آٹھویں ترمیم کے ذریعے مہرِ تصدیق ثبت نہ کرتا۔ پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کے تحفظ کے لئے بھی 29دسمبر 2003ء کو پارلیمنٹ میں سترہویں ترمیم کے نام پر بل پیش کیا گیا۔ اسمبلی کے 342میں 248ارکان نے اسے دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر مشتمل اراکینِ اسمبلی میں سے کوئی ایک بھی اتنی جرأت نہ کر سکا کہ وہ سترہویں ترمیم کے خلاف پارلیمنٹ میں آکر ووٹ ڈالتا۔ مولانا فضل الرحمٰن اور قاضی حسین احمد کی قیادت میں ایم ایم اے تو پرویز مشرف کے ساتھ تھی اور ــ"اے آر ڈی" کے نام پر بنے ہوئے اتحاد نے بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کی۔ یوں مشرف کے اقدامات کے تحفظ کے لئے پیش کی گئی ترامیم کے خلاف ایک بھی آواز "ووٹ" کی صورت میں نہ ڈھل سکی۔
آمروں اور ڈکٹیٹروں کے اقدامات کو جمہوری اور آئینی چھتری فراہم کرنے کا یہ المیہ ہماری جمہوری تاریخ کا بد ترین باب ہے۔ وہ سیاستدان جو بحیثیت مجموعی ہر مارشل لاء کے اقدام کو آئینی تحفظ دیتے رہے تھے، وہی آج کسقدر ڈھٹائی کے ساتھ عوامی جلسوں اور جلوسوں میں انہی آمروں کے خلاف تقریریں کرتے اور نعرے بلند کرتے ہیں اور عوام سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عوامی قوت و طاقت سے قوم کو آمروں اور ڈکٹیٹروں سے نجاتے دلائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ آئینی تاریخ کے ان دونوں مداخلت کاروں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے خلاف کوئی ایک بھی تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ کامیابی تو دور کی بات ہے ان دونوں کے خلاف چلنے والی تحریکیں اپنے عہدِ طفولیت ہی میں دم توڑ گئیں یا پھرچند مخصوص طبقات تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ جہاں ان تحریکوں کی ناکامی کی اور بہت سی وجوہات ہیں، وہاں ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام جانتے تھے کہ جن سیاست دانوں کو انہوں نے کئی لاکھ ووٹ دے کر اسمبلی کا رکن بنایا ہے اور جو خود کو عوام کے سامنے آمریت کا دشمن اور جمہوریت کا علمبردار کہتے تھے، مگر ان میں بھی اتنی جرأتِ کردار نہیں تھی کہ وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر آمریت کے خلاف ووٹ ڈال سکتے۔ اپنے اس کردار کے برعکس وہ عوام سے اسی آمریت کے خلاف ووٹ مانگ کر اسمبلی میں پہنچے تھے۔ ایسی منافقت اور کردار کے دوغلے پن کے ہوتے ہوئے کبھی عوامی تحریکیں جنم نہیں لیا کرتیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں جیسا چاہا، ویسے ہی وہ سیاستدانوں سے کھیلتے رہے۔ جس کو چاہا سینے سے لگالیا اور جسے چاہا ڈانٹ کر الگ کر دیا۔ جسے چاہا اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کے لئے اعتماد کی لانڈری سے دھو دھلا دیا اور جسے چاہا رات کی تاریکی میں خاندان اور دوستوں سمیت آرام کی زندگی گذارنے کیلئے ملک سے باہر روانہ کر دیا۔ جب اور جس وقت چاہا اور جس کسی کو چاہا اسے سیاست کے میدان میں کودنے کیلئے پاکستان واپس بلا لیا۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی یہ کہانی گذشتہ پچاس سال سے ترتیب پا رہی ہے۔ پاکستان کے پہلے پچیس سال کم از کم اس قدر بدترین اور بد نصیب نہ تھے بقول عدیم ہاشمی
یوں دکانوں پر ضمیروں کی فراوانی نہ تھی
لوگ بکتے تھے مگر اتنی بھی ارزانی نہ تھی
مرحوم مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد جو ذالفقار علی بھٹو کا "نیا پاکستان" وجود میں آیا۔ اس "نئے پاکستان" کی سب سے اساسی اور بنیادی دستاویز 1973ء کا آئین ہے، جس کے گرد پاکستان کا پورا جمہوری نظام گھومتا ہے۔ اس آئین کی ترتیب و تدوین اور اس کے بعد کی جانے والی خالصتاً سیاسی ترامیم کا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی سیاسی مشقت اور تجربات کے باوجود بھی ہمارا آئین، گروہی تعصبات، لسانی عصبیت، ذاتی مفادات اور علاقائی نفرت سے بالا تر نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا سیاست دان بحیثیت مجموعی اس قسم کی ان سب رکاوٹوں اور بندشوں سے بالا تر کیوں نہیں سوچ سکتا۔ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جو گذشتہ پچاس سال سے پاکستانی جمہوریت کا منہ چڑا رہا ہے اور ہم بحیثیت مجموعی اس بنیادی مسٔلے کو حل کرنے کی بجائے اس بات پر اپنی توانائیاں خرچ کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کرپشن، بددیانتی، اقربا پروری، علاقائی تعصب اور سیاسی عدم استحکام کیوں ہے۔ یہ تمام برائیاں تو ایک بڑی خرابی کی علامات ہیں۔ جب تک وہ بڑی خرابیاں دور نہیں ہوتیں اس جمہوری نظام کے درخت پر جو پھل بھی اُگے گا وہ کرپشن، اقربا پروری اور تعصب کے زہر سے آلودہ ہی ہوگا۔ ہمارے آئینی، جمہوری اور سیاسی نظام میں خرابی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس خرابی کی بنیاد دراصل انگریز نے بڑی محنت کے ساتھ رکھی تھی اور ہم نے بھی انگریز کے عطا کردہ اس نو آبادیاتی تحفے کو خوب پال پوس کراب جوان کرلیا ہے۔
انگریز کے دیئے گئے سیاسی نظام کی دو بنیادی چیزیں دراصل وہ دو بہت بڑی دیواریں یا رکاوٹیں ہیں جو پاکستانی سیاست کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔ یہی وہ دونوں چیزیں ہیں جن پر ہماری آئینی سیاست کی عمارت کھڑی ہے۔ پہلی "حلقۂ انتخاب کی سیاست" (Constituency Politics) اور دوسری "صوبائی انتظامی تقسیم "اور انکی "مستقل وفاقی اکائیوں کی حیثیت" (Permanent Federating Units)۔ قدیم راجواڑں، ریاستوں اور نو تخلیق کردہ انتظامی یونٹوں کوانگریز نے صوبوں کا درجہ دے کرزمین پر پہلے ناقابلِ تنسیخ لکیریں کھینچ دیں اورپھر ان علاقوں پر چند لوگوں کا حقِ حکمرانی مسلم کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر کاسہ لیس، وفادار اور پروردہ نواب، وڈیرے، خان اور چودھری کے جمہوری مستقبل کے لئے یک حلقۂ انتخاب تخلیق کر دیا۔ ایک حلقۂ انتخاب جہاں سے اس کے علاوہ کوئی اور نہ جیت سکے۔ (جاری ہے)