پاکستان کی جمہوری سیاست کا خمیر دراصل اس ڈیرہ دار معاشرت سے اٹھا ہے جس میں کسی گاؤں، گوٹھ یا کِلّی کا چوہدری، وڈیرہ، خان یا ملک اپنے زیرِ سایہ افراد پر مکمل تسلط رکھتا ہے۔ لوگوں کی ضروریات اس سے وابستہ ہوتی ہیں اور ان کے مسائل کے حل کاہر راستہ اس کی دہلیز پر جانکلتا ہے۔ چند سو افراد کے چھوٹے سے گاؤں سے لے کر چند ہزار افراد کے گاؤں نما قصبے تک لوگوں کی معاشرت میں ایک شخص مرکز و محور ضرور ہوتا ہے جو ان کے جائز و ناجائز مفادات کا تحفظ کرواتا ہے۔ عمومی طورپر ایسے لوگ اپنے قبیلے، قوم یا برادری کی کثرت کی وجہ سے چودھراہٹ کے منصب پر کئی نسلوں سے فائز چلے آرہے ہوتے ہیں۔ ہر حکمران کو ان کی ضرورت رہتی ہے۔ بادشاہوں کے زمانے میں یہ اپنے قبیلے یا برادری کے افراد کو ان کی فتوحات کے لیئے نفری مہیا کرتے اور "پنچ ہزاری" اور "دس ہزاری"کے منصب پر سرفراز ہوتے تھے۔
انگریز نو آبادیاتی افواج کے لیئے بھی انہوں نے جان دینے والے سپاہی فراہم کیئے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو برصغیر میں مستحکم کیا اور جب انگریز راج یہاں قائم ہوگیا توانگریز نے انہیں پنج ہزاری جیسے قدیم منصب کی جگہ اب نئے نظامِ قانون کاایک اہم کل پرزہ بنا دیا گیا۔ کوئی نمبر دار ہوگیا تو کوئی ریزیڈینٹ مجسٹریٹ۔ خان اور نواب کے مراعات یافتہ منصب بھی ان کے لیئے تخلیق کیئے گئے۔ انہیں سول سروس اور فوج میں انگریزوں کے شانہ بشانہ افسریاں دی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز سے وفاداری کا جو خمیر 1857ء کی جنگِ آزادی میں افرادی قوت کی فراہمی سے بویا گیا تھا اس کا تسلسل پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں فوجی بھرتی کے دوران بھی اسی زور و شور سے پھلتا پھولتا رہا۔ کئی صدیوں تک حکمرانوں کو لڑنے کے لیئے افرادی قوت فراہم کرنے والے یہ وڈیرے، خان، ملک اور چودھری موجودہ جمہوری سیاست کے اہم ترین "گھنٹہ گھر" ہیں جو اپنے زیرِ سایہ اور زیرِ تسلط ووٹروں کی مخصوص تعداد رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ان ووٹروں کا جب اور جس وقت چاہیں سودا کر دیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ان کے آباء و اجداد بھرتی کے لیئے فوجی فراہم کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست کے یہ "مرغ بادِ نما"جس سمت ہوا کا رخ دیکھتے ہیں، ادھر مڑنے لگتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی وہ ہزاروں لوگ بھی مڑ جاتے ہیں جن کے جائز و ناجائز مفادات ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جمہوری سیاست نے اس "کاروبار" میں حیران کن اضافہ کیا ہے۔ ووٹ کی قیمت او ر اہمیت نے ایسے لوگوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے جو اپنے پَلّو میں چندووٹرز لیئے گھومتے ہیں۔ اب ہر گاؤں یا قصبے میں ایک سے زیادہ ایسے "مقامی لیڈر" پیدا ہو چکے ہیں جن کے پاس چند درجن، چند سو یا چند ہزار ووٹ ہوتے ہیں، جن کا وہ الیکشنوں کے نزدیک انتہائی ہوشیاری سے سودا کرتے ہیں۔ جمہوریت نے ہر علاقے میں یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ آپ حسبِ توفیق کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہو جائیں اور اگر وہاں آپ کی دال نہ گلے تو آپ اپنی "بھیڑوں " کو لے کر کسی دوسری سمت چلے جائیں۔ پارٹیوں کی ایک بہت بڑی ورائٹی میسر ہے۔
ہمارے معاشرے کی یہ گروہ بندیاں اور ڈیرے داریاں ایک ایسا مزاج رکھتی ہیں جس میں جائز و ناجائز، سچ جھوٹ اورحق و ناحق کے درمیان کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ اپنے ڈیرے کا چور، قاتل، ڈاکو، بددیانت یا منشیات فروش بہت اہم ہوتاہے اور اسی لیئے اس کے ہر فعل میں اس کا ساتھ دینا اور اس کا دفاع کرنا ضروری ہوتاہے۔ چودھری، وڈیرے، خان اور ملک کی اہمیت ہی اس لیئے ہے کہ وہ قاتل کے مقدمے کی تھانے سے لے کر سپریم کورٹ تک پیروی میں مددگار ہوتا ہے، مفرور کو پناہ دیتا ہے، بددیانت سرکاری اہل کار کی پوسٹنگ کے لیئے سفارش کرتا ہے۔ مجرم، منشیات فروش کا تھانے دار اور دیگر اہلکاروں سے رابطہ کرواتا ہے اور "ماہانہ" طے کرواتا ہے، نالائق اور نااہل نوجوان کو نوکری پر لگواتا ہے اور ایسے بے شمار کام کرواتا ہے جو صرف اور صرف ایسی "دھڑے بندی" والی سیاست میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ دھڑے بندی اور گروہ بندی کا یہی مزاج ہے جو ہمیں سچ بولنے سے روکتا ہے اور حق کا برملا اظہار نہیں ہونے دیتا۔ اپنی قوم، قبیلے، گروہ، برادری اور سیاسی پارٹی کے فرد کے جھوٹ، بددیانتی اور ظلم کا دفاع اور مخالف کے سچ اور دیانت کاانکار اسی دھڑے بندی اور گروہ بندی کی معاشرت کی اصل ہے۔
اس دھڑے بندی اور گروہ بندی کومزید مضبوط پاکستان کے "Anglo Saxon Adversarial"قانون نے کیا ہے۔ یہ قانون دو گروہوں یا پارٹیوں کے درمیان تنازعے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی قانونی تعریف یہ ہے کہ "یہ ایک ایسی قانونی کاروائی ہے جس میں مخالف پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیق و تفتیش کے ذریعے ثبوت مہیا کریں "۔ اس طرزِ قانون میں ریاست یا حکومت ایک گروہ یا پارٹی ہوتی ہے اور ملزمان دوسری پارٹی۔ ڈیرے دار، چودھری، وڈیرے، خان یا ملک کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے زیرِ تسلط گروہ کے ملزم کا ہر جائز و ناجائز میں ساتھ دے۔ یہی وہ رویہ ہے جو آج پاکستانی سیاست میں چارسو نظر آتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی سیاست بھی ہماری معاشرت کی ہی آئینہ دار ہے۔ ایک اچھا ڈیرہ چودھری یا وڈیرہ دار مقدمے کے آغاز میں ہی آنے والے دنوں کی پہلے سے پیش بندی کرنے لگتا ہے۔ اس پیش بندی میں بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ جرم کی تفتیش یا تحقیق کے دوران ہی کسی طرح سفارش یا دھونس سے اپنی مرضی کا تفتیشی مقرر کروا لیا جائے تاکہ اگر کل عدالت کے سامنے مقدمہ پیش ہو تو سرکار کا کیس اسقدر کمزور ہو جائے کہ عدالت مجرم کو بری کرنے پر مجبور ہوجائے۔ کیونکہ پاکستان کے عدالتی نظام میں فیصلہ انہی شواہد کی بنیاد پر ہوتا ہے جو "صفحۂ مثل" پر موجود ہوتے ہیں، اس لیئے عدالت مجبور ہوتی ہے۔
عدالت اگر بذاتِ خودجانتی بھی ہو کہ اس شخص نے کہاں اور کب جرم کیا ہے تو وہ اپنے اس ثبوت کو فیصلے میں شامل نہیں کر سکتی۔ اسلام کا قانون اس اینگلو سیکسن قانون سے بالکل مختلف ہے اور یہ موجود ہ دور کے فرانسیسی قانونِ عدل سے کسی حد تک مشابہ ہے جو "Inquisitorial" یعنی تحقیقی، احتسابی اور تفتیشی ہے۔ فرانسیسی قانون میں یہ عدالت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر طریقہ استعمال کر کے سچ تک پہنچے۔ لیکن پاکستان کے دھڑے بندی والے نظامِ انصاف میں جج سے زیادہ تفتیشی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اگر کوئی معاملہ یاکیس تفتیش کے مقام پر ہی خراب کر دیا جائے، ثبوت ضائع کر دیئے جائیں، کیس میں جان ختم کردی جائے تو پھرسپریم کورٹ بھی درست فیصلہ نہیں کرپاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تفتیش کے وقت ہی اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اپنی مرضی کا بے ایمان تفتیشی مقرر کروایا جائے، اسی لیئے ایماندار تفتیشی کی ایمانداری کومشکوک کیا جاتا ہے۔ سرے محل کی تفتیش کا حسن وسیم افضل ہو، پانامہ کا واجد ضیاء ہو یا اب براڈ شیٹ کا جسٹس عظمت سعید، ان سب پر پہلے دن سے اعتراض کیا گیاہے۔ تفتیش کرنیوالے کو مقرر کرنا حکومت کا بحیثیت پارٹی مکمل اختیار ہے کیونکہ حکومت نے عدالت میں واضح ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں۔
تفتیشی کوئی عدالت تو ہوتے نہیں، یہ تو شواہد اکٹھے کرنے والے ہوتے ہیں۔ آپ اگرسچے ہیں تو اپنے ثبوت عدالت لے کر جائیں اور تفتیشی کو جھوٹا ثابت کردیں۔ لیکن مجرم تو آغاز میں ہی سچ کو چھپانا چاہتا ہے اس لیئے تفتیشی پر اعتراض کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرت اور سیاست کا یہی المیہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جرم کی تفتیش کرنیوالا ان کا اپنا ہو تاکہ کل کو عدالت میں عدم ثبوت کی بنا پرفتح یقینی ہو جائے۔