ایک ہفتہ پہلے اخبارات میں چھپنے والی ایک خبر اور تصویر نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ بائیس کروڑ عوام کے لئے یہ ایک معمول کی خبر ہو سکتی ہے، لیکن وہ جو جانتے ہیں ان کو خوف کے بادل صاف نظر آ رہے ہیں۔ یہ تصویر حکومتِ پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے میٹنگ روم کی ہے۔
خوبصورت لکڑی کی دیواروں میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھی ایک بڑی سی میز کی صدارتی کرسی پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار بیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ ایک جانب وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو ڈاکٹر عائشہ غوث اور وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ افسران موجود ہیں، جبکہ میز کی دوسری جانب صہیونیت کے سرپرست یہودی خاندان روتھ شیلڈ (Rothschild) کے نمائندے ایرک لالو (Eric Lalo) اور تھیبوڈ فورکیڈ (Thibaud Fourcade) اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ خبر کی تفصیلات اس تصویر سے زیادہ حیران کن ہیں۔
روتھ شیلڈ کمپنی نے میٹنگ میں سب سے پہلے وزیر خزانہ کو اپنی کمپنی کی تاریخ اور دنیا کے دیگر ممالک میں اس خاندان کی معاشی خدمات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ اس کے بعد روتھ شیلڈ خاندان نے پاکستان کی موجودہ حکومت کی ان معاشی پالیسیوں کو سراہا جو اس پاکستان کی معاشی بہتری اور استحکام کے لئے ہیں اور کہا کہ وہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں آنے والی معاشی ترقی پر اعتماد رکھتے ہیں۔ مذاکرات کے دوران پاکستان کی معاشی مشکلات کا بھی جائزہ لیا گیا، اور ایک طویل مدتی منصوبے (Roadmap) پر گفتگو ہوئی، جس کے تحت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکال کر اسے طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں پر گامزن کیا جا سکے۔
روتھ شیلڈ گروپ نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی معیشت کے مثبت پہلوئوں کو دنیا کے سامنے اُجاگر کرنا چاہئے۔ روتھ شیلڈ خاندان کون ہے اور اس خاندان کی تاریخ کیا ہے، اس سے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام مکمل اندھیرے میں ہیں۔ بہت کم ایسے پاکستانی اہلِ علم اور دانشور ہوں گے جو اس یہودی خاندان سے مکمل واقفیت رکھتے ہوں اور عالمی سیاست میں یہودی غلبے اور دنیا کی معیشت کو یہودی کنٹرول میں لانے کے لئے اس خاندان کی شاطرانہ چالوں سے آگاہ ہوں۔
جس ڈیکلریشن نے گذشتہ ایک صدی میں انسانی تاریخ پر خوفناک اثرات مرتب کئے ہیں اور جس کی وجہ سے مسلمان اُمت گذشتہ پچھتر سال سے آگ اور خون میں نہا رہی ہے وہ بالفور (Balfour) ڈیکلریشن ہے۔ یہ ڈیکلریشن 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک خط کی صورت میں روتھ شیلڈ خاندان کے سربراہ لیونل والٹر روتھ شیلڈ (Lionel Walter Rothschild) کو ہی لکھا تھا۔
اس خط میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت اپنی تمام ہمدردیاں یہودی صیہونی کمیونٹی کی خواہشات (Aspirations) کے ساتھ رکھتی ہے اور وہ اپنی تمام قوتیں اس مقصد کے حصول کے لئے لگائے گی کہ کیسے فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کے لئے ایک وطن (Homeland) تخلیق کیا جائے۔ یہ خط یوں تو 1917ء میں لکھا گیا، لیکن اس کے مندرجات پر کام تقریباً 13 سال پہلے یعنی 1904ء میں ہی شروع ہوگیا تھا۔
روتھ شیلڈ خاندان نے صیہونیت کے ترجمان چائم ویز مین (Chaim Weizmann) کو برطانیہ بلایا اور اسے مانچسٹر میں بہت بڑی جائیداد عطا کر دی۔ اس شخص کو برطانوی حکومت کو شیشے میں اُتارنے کے لئے بلایا گیا تھا اور اس نے حکومتِ برطانیہ سے اس معاملے میں بہترین پیش رفت کی جس کے تحت ایک خفیہ معاہدہ طے پایا گیا کہ تمام دنیا کے یہودی سرمایہ دار پہلی جنگِ عظیم میں نہ صرف برطانیہ کو وسیع سرمایہ فراہم کریں گے بلکہ امریکہ میں موجود یہودی لابی امریکی حکومت کو اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے قائل بھی کرے گی۔
برطانیہ کا وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج (David Lloyd George) اور وزیر خارجہ بالفور دونوں عیسائی صیہونیت کے قائل تھے۔ عیسائی صیہونیت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک دن حضرت عیسیٰ نے دوبارہ اس دنیا میں آنا ہے اور یروشلم کو آباد کرنا ہے۔ ان کے نزدیک یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب انجیل کے مطابق تمام بکھرے ہوئے یہودیوں کو ارض موعود (Promised Land) میں واپس آباد کر دیا جائے گا۔ اس لئے وہ اس صیہونی ایجنڈے کو اپنے مذہبی تصور کی تکمیل کے لئے بہتر خیال کرتے تھے۔
روتھ شیلڈ کو لکھا جانے والا بالفور کا خط ایک مبہم اور غیر معین (Vague) قسم کی تحریر کی صورت میں جان بوجھ کر لکھا گیا تھا تاکہ دنیا اسے یہودی ایجنڈے کی تکمیل نہ خیال کرے۔ اس مقصد کے لئے لفظ "قوم کا مسکن" (National Home) کے الفاظ استعمال کئے گئے جو دنیا کی نظروں سے اس صیہونی خواب کو چھپاتے جس کے تحت اسرائیل میں ایک صیہونی حکومت کا قیام ہے، بلکہ یہ الفاظ یہودیوں کو وہاں آباد کر کے عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ ریاست کے قیام کا تصور دیتے ہیں۔
اس خط میں فلسطین میں مقیم عربوں کے قومی حقوق (Nation Rights) کا بالکل ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ اس کی جگہ شہری اور مذہبی (Civil and Religious) حقوق کا تذکرہ ہے یعنی ایک دن مسلمان اقلیت میں ہوں گے تو ان کے شہری اور مذہبی حقوق انہیں ملنے چاہئیں۔ اس خط کی تحریر میں یہودیوں کی چالاکی اور عیاّری نمایاں نظر آتی ہے۔ اگر وہ ایسی مبہم زبان استعمال نہ کرتے تو برطانوی معاشرے بلکہ دو ہزار سال سے عیسائی دنیا میں یہودیوں کے خلاف جو نفرت موجود تھی وہ برطانیہ کو ہر حالت میں ایسے معاہدہ کرنے سے روک دیتی جس میں کھلم کھلا صیہونیت کے خوابوں کو تعبیر دینے والی بات کی گئی ہوتی۔
بالفور ڈیکلریشن کے تحریر ہونے سے پہلے کے دس سال اسرائیل کے قیام اور عالمی سازشوں کے لئے بہت اہم ہیں۔ 1904ء میں دنیا بھر کے صیہونی نمائندوں نے برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یروشلم کے آس پاس کے علاقوں میں جا کر آباد ہونے کی خفیہ کوششیں شروع کر دیں۔ برطانیہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی عالمی قوت تھی جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا جبکہ اس کے مقابل قوتوں میں آسٹروہنگرین (Astro Hungarian) سلطنت تھی اور مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ تھی جو اپنی آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔
روتھ شیلڈ کے شاطرانہ ذہن نے ایک خفیہ ترکیب سوچی اور اس نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے علاقے یروشلم سے 66 کلو میٹر دُور جافہ شہر کے شمال میں ایک وسیع ریگستان تھا جس میں ایک بڑے ریت کے ٹیلے پر 1909ء میں روتھ شیلڈ دنیا بھر سے ساٹھ یہودی سرمایہ داروں کو لے کر پہنچا۔ اس ٹیلے کو عبرانی زبان میں"تِل ابیب" کہتے تھے یعنی ایسا ریتلی ٹیلہ جس کے نیچے پانی موجود ہو۔ اس کے ایک ہاتھ میں ساٹھ سفید رنگ کے گھونگے تھے اور دوسرے ہاتھ میں ساٹھ سیاہی مائل سفید (Gray) گھونگے تھے۔
سفید گھونگوں پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے اور گرے گھونگوں پر پلاٹوں کے نمبر۔ روتھ شیلڈ نے قرعہ اندازی کی اور ہر ایک کو مکان تعمیر کرنے کے لئے پلاٹ الاٹ کر دیئے۔ ان ساٹھ گھروں کے علاوہ ایک بہت بڑا پلاٹ یہودی عبادت گاہ (Synagogue) کے لئے، دوسرا ایسا ہی بڑا پلاٹ میونسپل کمیٹی کے دفتر کے لئے اور تیسرا بڑا پلاٹ قدیم عبرانی (Hebrew) زبان سکھانے والے ادارے کے لئے رکھا گیا۔
شہر کو آباد کرنے کے لئے ایک سال کا وقت دیا گیا اور ٹھیک ایک سال کے اندر روتھ شیلڈ نے اپنے ساتھی یہودیوں کے ساتھل مل کر اُمتِ مسلمہ کی سرزمین پر اسرائیلی ناسور کا مرکز قائم کر دیا۔ (جاری ہے)