Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Panja e Yahood Aur Pakistan (2)

Panja e Yahood Aur Pakistan (2)

عالمی صیہونی ریاست کا خواب یوں تو ہر یہودی کے خمیر میں گندھا ہوا ہے، لیکن اس کی عملی تشکیل کا آغاز صیہونیت کے سب سے اہم ستون روتھ شیلڈ خاندان نے تِل ابیب شہر کے قیام سے کیا۔ 1906ء سے تِل ابیب کی بنیاد رکھنے کی تمام کارروائی انتہائی خفیہ انداز سے ہوتی چلی آ رہی تھی۔ ایک جانب برطانوی حکومت سے گٹھ جوڑ کے لئے خفیہ مذاکرات بھی شروع تھے اور ساتھ ہی فلسطین کے جافہ شہر کے چند ایک یہودیوں نے ایہوذات بایت" کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی جس کا مطلب "روشن مسکن" تھا۔

اس کا مقصد یہودیوں کے لئے جدید شہروں کی طرز پر ایک شہری سہولت میسر کرنا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی تھی۔ اس پابندی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے روتھ شیلڈ خاندان نے ایک ولندیزی (Dutch) شہری جیکبس کان (Jacobus Kann) کو سرمایہ فراہم کیا اور اس نے اپنے نام پر جافہ کے شمال میں واقع ایک ریگستان میں تِل ابیب والی جگہ خریدی، جہاں گیارہ اپریل 1909ء کو ساٹھ پلاٹوں کی تقسیم کی گئی تھی۔ اسی سال انگلینڈ کی کابینہ میں ہربرٹ سیموئیل (Herbert Samuel) نامی شخص نے حلف اُٹھایا۔

یہ برطانوی تاریخ کا پہلا یہودی وزیر تھا۔ وہ برطانوی سوسائٹی جو شیکسپیئر کے ڈراموں میں شائی لاک (Shylock)، جیسے ظالم یہودی سود خوروں کے کرداروں کی وجہ سے یہودیوں سے سخت نفرت کرتی تھی، اس ملک کی کابینہ میں ایک ایسے یہودی وزیر کا حلف اُٹھانا ایک اچھنبے کی بات تھی، جو نہ صرف ایک یہودی تھا بلکہ صیہونیت کا علمبردار بھی تھا، جس کا مشن فلسطین کے علاقے میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا۔ اس شخص نے برطانوی کابینہ میں 1914ء میں ایک یہودی ریاست کا تصور پیش کیا۔

اسرائیل کے ابتدائی شہر اور موجودہ دارالحکومت تِل ابیب کی سب سے قدیم سڑک کا نام روتھ شیلڈ بلیوارڈ ہے۔ اسی سڑک پر موجود ایک ہال میں 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزادی کا ڈیکلریشن پڑھا گیا اور اس پر دستخط ہوئے۔ روتھ شیلڈ کے ہمراہ آنے والے ساٹھ خاندان اسی سڑک اور صیہونیت کے بانی ہرزل (Herzl) کے نام والی سڑک پر واقع ہیں۔ انہی سڑکوں کے ملاپ پر جو چوراہا ہے وہاں لاتعداد بڑی بڑی منقش دیواریں (Murals) ہیں، جن کے نقش و نگار میں ایک یہودی کو بیج بوتے، پھر فصل کاٹتے دکھایا گیا ہے اور یروشلم کے پسِ منظر میں ایک گڈریے کو بھیڑوں کے ساتھ پینٹ کیا گیا ہے، جس کے ساتھ تورات کے باب جرمیاہ کی یہ آیت تحریر ہے "میں اسے دوبارہ تعمیر کروں گا اور یہ یقیناً دوبارہ تعمیر ہوگا"۔ اس آیت میں اشارہ ہیکل سلیمانی کی طرف ہے۔

روتھ شیلڈ خاندان صیہونیت کے فروغ میں اس لئے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے کیونکہ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ خاندان بینکاری کے شعبے سے منسلک چلا آ رہا ہے۔ روم کی بادشاہت کے زمانے سے ہی یہ خاندان اسی سودی کاروبار سے منسلک رہا ہے۔ پورے یورپ میں 1264ء سے لے کر 1567ء تک ان تین صدیوں کے دوران یہ واحد سودی بینکاری کا نجی ادارہ تھا اور اسی خاندان کی ملکیت تھا۔ لیکن جب 1694ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے بینک آف انگلینڈ کا چارٹر منظور کیا تو اس حکم نامے کے ساتھ ہی اس بینک کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کاغذ کے نوٹ جاری کر سکے گا۔ انہیں اس وقت "Promissory Note" کہا جاتا تھا۔

بینک آف انگلینڈ کے قیام کے دوران خاندان کا سربراہ مائر امشیل روتھ شیلڈ (Mayer Amschel Rothschild) تھا، اس نے انگلینڈ کا چارٹر ملتے ہی اپنے بچوں کو یورپ کے تمام بڑے بڑے شہروں میں بینک قائم کرنے کے لئے روانہ کیا اور ان بچوں میں سے ناتھن مائر (Nathan Mayer) کو انگلینڈ کے مرکزی بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 23 فروری 1774ء سے لے کر اب تک یہ خاندان بینکاری، انوسٹمنٹ اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ان کی بینکاری نے یورپ کی سیاسی تاریخ کو تراشا ہے۔ وہ سیاسی تاریخ جس میں دو عالمی جنگیں اور کروڑوں انسانوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔ قائد اعظمؒ نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں ان دو عالمی جنگوں کا انہی بینکاروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

قائد اعظمؒ نے کہا تھا: "مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو پیش آمدہ تباہی سے بچا سکے۔ یہ نظام انسان اور انسان کے درمیان عدل قائم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر انتشار ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں دو بڑی عالمی جنگوں کا بنیادی ذمہ دار ہے"۔

اقبالؒ نے اپنی مشہور نظم "فلسطینی عرب" میں انہی بینکاروں کو یورپ کے اصل حکمران قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں سے کہا تھا:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں، پنجۂ یہود میں ہے

اقبالؒ نے اس حقیقت کو مزید آشکار کرتے ہوئے اس یہودی سودی بینکاری نظام کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے۔

ایں بنوک ایں فکر چالاکِ یہود

نورِ حق از سینۂ آدم ربود

تا تہ و بالا نہ کردد ایں نظام

دانش و تہذیب و دیں سودائے خام

ترجمہ "یہ بینک جو یہودیوں کی مکار و عیاّر سوچ کی پیداوار ہیں، انہوں نے انسانیت کے سینے سے حق کا نور نکال دیا ہے۔ جب تک اس نظام کو تہہ و بالا (برباد) نہیں کیا جاتا، عقل و دانش، تہذیب و تمدن اور دین کی باتیں بے سود ہیں"۔ سودی بینکاری کا یہ پنجۂ یہود ہی تھا، جس نے تاریخی طور پر پہلے پورے یورپ کو اپنے معاشی شکنجے میں جکڑا اور پھر امریکہ کی سیاست و حکومت کو کنٹرول کرنے لگے۔ ان بینکاروں کو جنگ بہت فائدہ دیتی ہے کیونکہ انہی کے سرمائے سے اسلحے کی فیکٹریاں چلتی ہیں۔ مشہور مؤرخ ایلن برگر (Alan Burger) جس نے یہودیوں پر مظالم یعنی ہولوکوسٹ پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا، اس جیسا یہودیوں کا ہمدرد مؤرخ بھی لکھتا ہے کہ:

"For every soldier who died in Battle the international Bankers made a profit of Ten thousand dollar"

(ہر سپاہی جو میدانِ جنگ میں مارا جاتا ہے، عالمی بینکار اس سے دس ہزار ڈالر منافع کماتے ہیں)۔ پاکستان کو ایک خاص منصوبے کے تحت گزشتہ چالیس سالوں میں بددیانت حکمرانوں کے ذریعے قرضے کی دلدل میں اُتار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس سے نکلنے کا اب کوئی راستہ کسی کو بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک سال سے آئی ایم ایف پاکستان کو ٹرخاتا چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب، دبئی اور چین کی مدد نہیں آئی کیونکہ یہ بھی آئی ایم ایف سے مشروط ہے۔ قرضوں کی قسط سر پر ہے۔ جبکہ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر ایک اور جنگ میں افغانستان سے لڑانا چاہتا ہے۔

بلاول بھٹو ایسا کرنے پر امریکی سرپرستی اور امداد کی خوشخبریاں سنا رہا ہے، ایسے میں یہودی صیہونی لابی کے سب سے شاطر و عیاّر اور صاحبِ حیثیت روتھ شیلڈ خاندان کی پاکستان آمد لاتعداد شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ کیا ہم گروی رکھے جا رہے ہیں؟ کیا ہم جنگ کا ایندھن بننے والے؟ کیا ہمیں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ لاتعداد سوالات ہیں، جن کا فی الحال سوائے پریشان ہونے کے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ (ختم شد)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.