پاکستان کے بننے کے بعد سودی معیشت، مغربی مالیاتی نظام اور جدید مغربی طرزِ حکومت پر سب سے توانا اور جاندار آواز بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب موجودہ مالیاتی نظام اور سودی بینکاری ابھی عہدِ طفولیت میں تھی۔ امریکہ میں اڑتالیس ممالک کے بریٹن ووڈ (Bretton wood) معاہدے کے بعد ایک نئے عالمی مالیاتی نظام کے وجود میں آئے ہوئے ابھی صرف تین سال ہی ہوئے تھے۔ سودی معیشت کا خوشنما شکنجہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) یوں تو 27 دسمبر 1945ء میں ہی قائم ہو گیاتھا، لیکن اس نے اپنے آکٹوپس والے پنجے یکم مارچ 1947ء میں کھولے اور فرانس دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے 8 مئی کو اس سے اپنی معاشی بہتری کیلئے قرض حاصل کیا۔ جنگِ عظیم دوم کی تباہ حال یورپی معیشتوں کی راکھ پر جس کاغذی مصنوعی کرنسی، ملکی قرضوں کی وبا، کرنسی کی ہر لمحہ بدلتی قدر و قیمت اور اس نظام کے نفاذ کے لیئے دنیا کے ہر ملک میں قائم کئے جانے والے سٹیٹ بینک یا سنٹرل بینک، یہ تھا وہ سب کچھ جو اس عفریت اور اژدھا صفت سودی نظام کا چہرہ تھا۔
اس نظام کے خطرات کا ادراک بڑے بڑے مذہبی صاحبانِ علم کو ہو سکا تھا نہ ہی جدید ماہرینِ معیشت اس کی چالوں سے ابھی بخوبی آگاہ ہوئے تھے۔ سب اسے جدیدیت کا آغازہی سمجھ رہے تھے کہ یکم جولائی 1948ء کو بانی پاکستان کی گرجدار آواز نے آئندہ آنے والے دنوں میں اس عالمی مالیاتی نظام اور مغربی معاشی تہذیب کے خطرات سے پوری دنیا کو خبردار کیا۔ اُمتِ مسلمہ کے گذشتہ تین سو سالہ زوال کے عالم میں سرسید احمد خان جیسی مصالحانہ آوازیں تو بہت تھیں لیکن 1905ء میں لکھی گئی علامہ اقبال کی کتاب "علم الاقتصاد" میں بتائے گئے بینکاری اور سودی نظام کے جس خوفناک چہرے کی علامہ نے نشاندہی کی تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے ایک وارننگ کے طور پر اپنی تقریر میں بتایا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اسلامی معیشت کی بنیاد پر ایک نظام ترتیب دینے کی ہدایت کی۔ قائد اعظم نے فرمایا:
"میں بہت ہی اشتیاق کے ساتھ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن کے کام کی نگرانی کرتا رہوں گا کہ وہ اپنی بینکاری کے اصول و قواعد اور طریق کار کو ان اسلامی تصورات اور اصولوں سے ہم آہنگ بنائے جو اسلام نے معاشرتی اور معاشی زندگی کے لئے ہمیں عطا کئے ہیں "۔
مغربی مالیاتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:
"مغربی مالیاتی نظام نے انسانیت کے لئے ایسے لاینحل مسائل کھڑے کر دیئے ہیں کہ ہم میں سے اکثر کا یہ خیال ہے کہ اس کی وجہ سے اس وقت دنیا کو جس تباہی کا سامنا ہے، اسکو کوئی معجزہ ہی اس سے بچا سکتا ہے۔ یہ مالیاتی نظام انسانوں کے درمیان انصاف کرنے میں بھی ناکام رہا ہے اور عالمی سطح پر بھی آپس کی لڑائیوں کا خاتمہ نہیں کرسکا۔ اس کے بالکل برعکس یہ نظام گذشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو بڑی عالمی جنگوں کا بنیادی ذمہ دار ہے۔ مغربی دنیا اپنی تمام تر فائدہ مند صورت حال، میکانکی اور انڈسٹریل مہارتوں کے باوجود اس وقت ایسے بدترین بکھیڑے (Mess) کا شکار ہے کہ اس سے پہلے کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی"۔
قائد اعظم نے مغربی مالیاتی نظام سے سٹیٹ بینک کو دور رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:
"مغربی معاشی تھیوری کو اپنانے سے ہماری اس منزل مقصود کی جانب کوئی مدد نہیں ہوسکتی جو ہم نے ایک خوشحال اور پرسکون قوم کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی تقدیر اور اپنی منزلِ مقصود کے لئے خود اپنے طریقے سے کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے اسلام کا معاشی نظام پیش کرنا ہوگا جو انسانی برابری اور معاشی انصاف پر مبنی ہے۔ ہم ایسا کرتے ہوئے بحیثیت مسلمان اپنے مشن کی تکمیل بھی کریں گے اور پوری انسانیت کو یہ پیغام بھی دیں گے کہ کیسے انسانیت میں عافیت، فلاح و بہبود اور خوشحالی لائی جاسکتی ہے"۔
دیدۂ بینائے قوم ایسی ہی شخصیت کو کہتے ہیں جو خطرے کو اس وقت بھانپ لے جب وہ ابھی سر اٹھا رہا ہو۔ آج قائد اعظم کی رحلت کے بہتر سال بعد یہ سودی بینکاری نظام کا آکٹوپس اور عالمی مالیاتی نظام کا اژدھا پوری دنیا کی معیشتوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ چکا ہے۔ اس شکنجے میں ان معیشتوں کا خون سب سے زیادہ نچوڑا جاتا ہے جو دنیا میں بظاہر غریب نظر آتی ہیں لیکن وہ اپنے وسائل کے اعتبار سے انتہائی مالا مال ہوتی ہیں۔ اس کی مثال براعظم افریقہ ہے جس کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ معدنی اور قدرتی وسائل ہیں۔ دنیا کا 89 فیصد سونا افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس میں سے 56فیصد جنوبی افریقہ، 13فیصد گھانا، 10 فیصد تنزانیہ اور 8 فیصد مالی میں پایا جاتا ہے۔ کیا کسی نے دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں ان ملکوں کا نام بھی سنا ہے۔ اس لئے کہ سونا تو براعظم افریقہ میں ہے، لیکن مصنوعی گولڈ سٹینڈرڈ (Gold Standerd) عالمی سود خود معاشی قوتوں نے وضع کر رکھا ہے۔ یہ ہے خون چوسنے والے مالیاتی سودی نظام کا وہ روپ جس کی خوفناک تصویر قائد اعظم نے اپنی سٹیٹ بنیک کی تقریر میں دکھائی تھی۔
یہ قائد اعظم کی زندگی کی آخری تقریر اور عوام کے سامنے ان کی آخری جھلک تھی۔ اس کے بعد وہ زیارت چلے گئے اور پھر 2ماہ گیارہ دن بعد اپنی علالت کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی رخصت کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان نے قائد اعظم کی ہدایت کے بالکل الٹا سفر شروع کیا اور آہستہ آہستہ پاکستان کی معیشت کو عالمی سودی نظام کے شکنجے میں دینے کے لئے مستقل بھرپور تگ و دو جاری رکھی۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی دونوں حکومتوں نے پاکستان کو اس بدترین سودی آکٹوپس کے شکنجے میں دینے میں اپنا پوراحصہ ڈالا۔ آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں سب سے مستحکم سیاسی عہدہ "وزارتِ خزانہ" اور بیوروکریسی کا عہدہ "گورنر سٹیٹ بینک"ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں، وزیر اعظم اور صدر آتے جاتے رہے، لیکن عالمی مالیاتی نظام کے منظور شدہ افراد ان عہدوں پر مسلسل براجمان رہے۔ ان کا مشن پاکستان کو مکمل طورپر ایک سودی مالیاتی نظام کے شکنجے میں دینا ہوتا ہے۔
قائد اعظم کے اسلامی معاشی نظام کے تصور کے برعکس پہلے دو وزرائے خزانہ ملک غلام محمد اور چوہدری محمد علی نے ہی عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ دونوں انگریز کی سول سروس میں عمریں گذار کر آئے تھے اور بقول انگریز "ناریل" تھے، یعنی اندرسے سفید اور باہر سے براؤن۔ لیکن مملکت خداداد پاکستان کو مغربی سودی معیشت میں مکمل طور پر ڈھالنے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سے اسلامی روح کے تصور کو بھی حذف کرنے کا کام فیلڈ مارشل ایوب کے برسرِ اقتدار آنے سے ذرا پہلے اس وقت شروع ہوا، جب امریکہ میں پاکستان کے سفیر، سید امجد علی کو 12 ستمبر 1956ء میں پاکستان بلا کر وزیر خزانہ لگایا گیا۔ اس کے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے تین وزرائے اعظم، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون بدلے لیکن امجد علی اپنی نشست پر قائم رہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھ ہی جس شخص کو وزیر خزانہ لگایا گیا وہ امریکہ سے درآمد کیا گیا محمد شعیب تھا۔ (جاری)