قائد اعظم کے اس دنیا سے چلے جانے کے ساتھ ہی پاکستان سٹیٹ بینک نے اپنی بنیادیں ان کی ہدایات کے برعکس، اسلامی اصولِ معیشت کی بجائے سودی مالیاتی نظام پر رکھ دی تھیں۔ چونکہ اس نوزائیدہ ملک میں صنعتی پیداوار میں ترقی اور کاروباری دنیا کی وسعت زیادہ نہیں تھی، اس لیے پاکستان کا انحصار نہ تو غیر ملکی قرضوں پر تھا اور نہ ہی درآمدات برآمدات کیلئے فارن ایکسچینج کے اتنے بکھیڑے تھے، یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بینک کا کردار بہت محدود رہا۔ پاکستان کے پہلے دس سال حیران کن معاشی ترقی کے سال ہیں۔ اس دور کی صنعتی، زرعی، کاروباری اور پیشہ وارانہ ترقی نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ جب ہم دنیا کے معاشی نقشے پر ابھرے تو کیسے ہو سکتا تھا کہ جن قوتوں نے دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے عالمی مالیاتی سودی نظام قائم کیا تھا، وہ پاکستانی ترقی کی رفتار کا گلا گھونٹ کر اسے غیر ملکی قرضوں کی معیشت کے شکنجے میں نہ جکڑتیں۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھ ہی امریکہ سے تحفے میں ملنے والے وزیر خزانہ محمد شعیب کے ہاتھ میں سٹیٹ بینک کی تقدیر تھما دی گئی۔ اور اس کی ہمرکابی کے لیے ایک اور مہرہ، مشہور قادیانی ایم ایم احمد بحیثیت سیکرٹری خزانہ اس کا دست راست بنا دیا گیا۔
محمد شعیب سے لے کر حفیظ شیخ تک تمام وزرائے خزانہ کی تعیناتی کی وجوہات اور مراحل کا جائزہ لیں، آپ کو پاکستان کے مالیاتی نظام پر آئی ایم ایف کے شکنجے کا راز معلوم ہو جائے گا۔ سیاسی چہرے بھی وزراتِ خزانہ پر بٹھائے گئے لیکن مسلسل وقفوں کے ساتھ آئی ایم ایف کے تیار کردہ افراد بطور وزیر خزانہ تعینات کئے جاتے رہے۔ محمد شعیب ہو یا ایم ایم احمد، حفیظ شیخ ہو یا کوئی اور ایسے لوگوں کا پاکستان سے جانے کے بعد ٹھکانہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف ہی ہوتا ہے اور مرنے کے بعد آخری آرام گاہ بھی امریکہ میں ہی بنتی ہے۔ ایسے امریکی نامزد کردہ وزرائے خزانہ کی موجودگی میں پاکستان کا سٹیٹ بینک ہمیشہ ایک کٹھ پتلی کی حیثیت سے ان کے ہاتھ میں ناچتا رہا۔ وہ جیسا چاہتے اسے چلاتے اور جس طرح کی مالیاتی پالیسی چاہتے اس ملک پر نافذ کر واتے۔ لیکن سٹیٹ بینک کو ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے آزاد اور خود مختار کبھی نہیں کیا گیا۔ سٹیٹ بینک کی آزادی اور خود مختاری ہی سودی معیشت کی معراج ہے۔ اس کی بہترین مثال، امریکی خزانہ (Treasury) اور فیڈرل ریزرو (Federal Reserve) دونوں کا ایک مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جو امریکی سیاست اور انتظامیہ کو بارہ فیڈرل ریزرو بینکوں کا غلام اور دستِ نگر بناتا ہے۔ امریکی خزانہ میں حکومتی آمدن جمع ہوتی ہے اور پھر بجٹ کے مطابق خرچ ہوتی ہے، لیکن فیڈرل ریزرو دراصل امریکی سود خور بینکاروں کا ایک کنوریشم ہے جو سرمایہ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ ادارہ امریکی صدر کوبھی جوابدہ نہیں ہے، اس کا کلّی اختیار بارہ بڑے بینکوں سے لیے گئے بورڈآف گورنر کے پاس ہے۔ اس کا بنیادی کام اور اختیار یہ ہے کہ یہ امریکہ میں سرمایہ (Money) کی ترسیل کو کنٹرول کرتا ہے، افراطِ کی شرح کا تعین کرتا ہے اور اسے بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک میں روزگار کے مواقع کو مستحکم رکھتا ہے۔
امریکہ میں یہ ادارہ 1913ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے قیام کے پیچھے یہ دلیل دی گئی تھی کہ لاتعداد کاروباری افراد چھوٹے چھوٹے سے بینک بنا کر ملکی سرمائے کو اپنے قبضے میں لیتے ہیں اور یوں وہ امریکہ کے معاشی نظام کو اپنی مرضی سے کسی بھی وقت تباہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے صرف بارہ بڑے بینکوں کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار ہونا چاہے کہ وہ فیڈرل ریزرو کے ذریعے شرح سود متعین کریں، افراطِ زر (Inflation)کو اپنی مرضی سے کسی سطح تک بحال رکھیں اور ملک میں اشیائے صرف کی قیمتوں کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی معیشت سودی بینکا ری نظام کے شکنجے میں اس بری طرح پھنسی چکی ہے کہ لاکھ کوشش کرنے کے باوجود بھی نہیں نکل پائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بینکاروں نے امریکہ کو 21ہزار ارب ڈالر کا مقروض کر رکھا ہے۔ کسقدر خوفناک صورتِ حال ہے کہ امریکہ کی سالانہ جی ڈی پی بھی یعنی تمام امریکیوں کی کل محنت، کمائی اور پیداوار مل کر سالانہ 21ہزار ارب ڈالر ہے۔ معیشت دان یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اگر سودی شکنجہ ایسے ہی جاری رہا تو 2050ء میں امریکہ پر اس کی جی ڈی پی سے دوگنا زیادہ قرضہ ہوگایعنی 42 ہزار ارب ڈالر۔ اس عالمی طاقت اور وسائل سے مالا مال ملک امریکہ کے ہر شہری پر 70917 ڈالر فی کس قرض ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا ہر شہری ان بارہ بینکوں کی بدترین سودی غلامی میں مکمل طور پر جکڑا ہوا ہے۔
پاکستان کا سٹیٹ بینک ابھی تک امریکی ریزرو جیسی آزادی و خود مختاری سے بہت دور تھا۔ اس کی لاتعداد وجوہات میں ایک یہ بھی تھی کہ پاکستان کے حکمران کسی نہ کسی حد تک اپنے اختیارات پر کسی کی قدغن کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بینک برطانوی میراث پر استوار کیا گیا تھا، اس لیے گورے نے اس بینک کو بھی آزاد نہیں بلکہ تاجِ برطانیہ کا محکوم بنا کر رکھا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلے دس سالوں میں دو بیوروکریٹ ملک غلام محمد اور چوہدری محمد علی وزرائے خزانہ رہے تو سٹیٹ بینک بھی حکومتی اشاروں پر ناچتا رہا۔ لیکن اس کی نیم خود مختاری کی بنیاد و ایوب خان دور میں محمد شعیب نے رکھی اور اب عمران خان صاحب کی "ریاستِ مدینہ" کی کابینہ نے جو سٹیٹ بینک لاء 1956ء میں ترمیمی بل 2021ء منظور کیا ہے اس کے بعد پاکستان کی سودی معیشت، عالمی سودی مالیاتی نظام اور عالمی شکنجے میں جکڑنے کا مشن مکمل ہو جائے گا اور پاکستان کی حکومت، اسٹبلشمنٹ، اشرافیہ یہاں تک پاکستان کی اسمبلی بھی براہ راست سٹیٹ بینک اور بالواسطہ طور پر بینکوں کے رحم و کرم پر ہو جائے گی۔ اس قانون کے تحت پاکستان کا سٹیٹ بینک ایک ایسا ادارہ بن جائے گا جو ریاستِ پاکستان کو بھی جواب دہ نہیں ہوگا۔ اس کے ذمے وہی کام ہوں گے جو امریکی فیڈرل ریزرو کے ذمے ہوتے ہیں یعنی قیمتوں کو کنٹرول کرنا، افراطِ زر کی سطح مقرر کرنا۔ اس بینک کے حوالے سے حکومت کو کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہو گا کہ وہ کسی اجتماعی آفت، مصیبت، پریشانی، بیماری اور قحط جیسی صورتحال میں سٹیٹ بینک سے قرض لے کر اس صورتِ حال سے نمٹ سکے۔
پاکستانی سٹیٹ بینک، امریکی فیڈرل ریزرو کی طرح اپنے ہی بورڈ آف گورنرز کو جواب دہ ہوگا۔ یہی لوگ بینک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی پالیسیاں مرتب کریں گے، سٹریٹیجک سرمایہ کاری اور کاروباری نقصانات و نفع کے پیمانے بنائیں گے۔ سٹیٹ بینک خود ہی اپنا بجٹ بنائے گا اور منظور کرے گا، اپنا اندرونی اور بیرونی آڈٹ، سالانہ رپورٹیں، یہاں تک ماتحت بینکوں اور حکومت کے آڈٹ کی پالیسیاں بھی یہ بینک خود بنائے گا۔ بینک حکومت یا کسی حکومتی ماتحت ادارے کو نہ قرضہ دے گا اور نہ ہی ان میں کوئی سرمایہ کاری کرے گا۔ جبکہ اس وقت جو قرض پاکستان کے ذمے واجب الادا ہے اسے سٹیٹ بینک خود اپنی مرضی کی قانون سازی کے ذریعے بینکوں کو واپس کرے گا۔ سٹیٹ بینک حکومتِ پاکستان کی جانب جاری کردہ کسی بھی قسم کی سیکورٹیز یعنی بانڈز وغیرہ کو براہ راست نہیں خریدے گا یہاں تک کہ حکومت کے زیر انتظام کسی بھی ادارے کے بانڈز بھی نہیں خریدے گا۔ جبکہ وہ حکومت کی ان سیکورٹیز یا بانڈز وغیرہ کو بالواسطہ (Secondery Market) سے خرید سکے گا۔ سب سے خطرناک یہ اختیار ہے کہ سٹیٹ بینک پاکستان کے کسی فرد یا ادارے کی کسی بھی قسم کی فنانشل انفارمیشن کو دنیا میں کسی بھی ملک یا ادارے جو دے سکے گا۔ بینک کے کسی معمولی سے آفیسر کو بھی نہ صدر پاکستان پوچھ سکتا ہے اور نہ ہی وزیراعظم۔ ان کے خلاف عدالتوں میں نہیں جایا جاسکے گا۔ پہلی دفعہ کسی قانون میں نام لے کر یہ کہا گیا ہے کہ "نیب "اور "ایف آئی اے" بھی سٹیٹ بینک کی جانب میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔ سودی معیشت کا یہ اژدھا اپنے تمام تر شکنجے کے ساتھ پاکستان کو نگلنے کے لیئے تیار ہوچکا ہے۔ قائد اعظم کے خوابوں کی اس قدر زہرناک تعبیر نہیں ہو سکتی تھی۔ (ختم شد)