پاکستانی تاریخ کا بدترین مقبولِ عام جملہ "کھاتا ہے لیکن لگاتا بھی تو ہیــ"، اس ملک کی بدقسمتی اور بدنصیبی کا آئینہ دار ہے۔ جس ملک میں عام آدمی اس بات پر راضی ہو جائے کہ اس کی قیادت ایسے چوروں کے ہاتھ میں ہی بھلی ہے جو گھر کا صفایا کرتے وقت ان کے لیے تھوڑا کچھ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ نقصان کا احساس کم ہو اور مکمل طور پر نہ لٹ جانے کے احساس سے کوئی واویلا نہ مچائے، تو پھر ایسے ملک کے نصیب میں بحیثیت مجموعی کبھی خوشحالی آسکتی ہے اور نہ اطمینان۔ ایسا سوچنے والے اگر کسی مذہب کو ماننے والے ہیں تو پھروہ دولتِ ایمان سے یکسر محروم ہو تے ہیں، کیونکہ دنیا کا کوئی مذہب، یہاں تک کہ دنیا کا کوئی سیکولر، لبرل، کیمونسٹ اور ملحد بھی ایک بددیانت، چور، لٹیرے اور خائن کو مجبوراً بھی قیادت کے منصب کا اہل نہیں سمجھتا۔ ایسے لوگوں کو اپنا قائد اور رہنما تسلیم کرنے والے افراد کے لیے سب سے نرم لفظ "دہرے معیار کے حامل" اور سخت لفظ "منافق" استعمال ہوتا ہے۔
جو افراد یہ فقرہ بول کر ان بددیانت حکمرانوں اور قائدین کے لیے جواز پیش کرتے ہیں، ایسے لوگ کیا وہ اپنے گھر میں ایسا خانساماں ملازم رکھیں گے جو انہیں کھانا پکا کر دے لیکن ساتھ ہی راشن کا ایک حصہ چوری کرتا رہے، ایسا ڈرائیور جو گاڑی اچھی چلائے لیکن پیٹرول چوری کرے اور آہستہ آہستہ نئے پرزے بیچ کران کی جگہ ناکارہ لگاتا رہے، کیا یہ لوگ اپنی دکان، کارخانے، مِل، کھیت کھلیان یا فیکٹری پر ایسے ہنر مند ملازم رکھیں گے جوکام میں توطاق ہوں لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ان کا مال چوری کریں۔ یہ معاملہ صرف مالی بددیانتی کا تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق ہماری زندگی بھر کی تمام تر اخلاقیات کے ساتھ ہے۔ کیا کوئی خاوند ایسی بیوی کو یا بیوی ایسے خاوند کو برداشت کر سکتی ہے جو اس کے بھی حقوق ادا کرے، لیکن اس نے لاتعداد دوستیاں اور یارانے پال رکھے ہوں، کیا کوئی ایسے لڑکے یا لڑکی کو اپنی اولاد کا رشتہ دے سکتا ہے جس کی عرفِ عام میں شہرت بری ہو اور وہ لاکھ کہتا پھرے کہ آج تک میرا کسی عدالت سے جرم ثابت نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان کی بدنصیبی اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہرروز ایک نیا سکینڈل سامنے آتا ہے، ایک نیا ثبوت منظرِ عام پر آتا ہے مگراس ملک کی سیاست کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے، کہ لوگ جانتے بوجھتے، سوچتے سمجھتے ہوئے جلسوں، جلوسوں اور ٹیلی ویژن مباحثوں میں ان کا دفاع کرتے ہیں۔ کچھ ان کے حق میں اپنے قلم کی سیاہی بھی استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو قائل کرتے پھرتے ہیں کہ "کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے"۔
جدید دنیا نے جہاں تاریخ میں اور کئی دروازے کھولے ہیں، وہیں ایک اہم ترین جرم کا ایسا دروازہ بھی کھولا ہے جسے "سفید کالر کا جرم" (White Collar Crime) کہتے ہیں۔ یہ ایسے چوروں کا طریقۂ واردات ہے جنہیں ریاستی اداروں میں ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں اور وہ عوام کے سرمائے میں سے خیانت اور بددیانتی کے ایسے راستے نکالتے ہیں، ایسے قوانین ترتیب دیتے ہیں، اس طرح کاغذات کے پردوں میں اپنے جرم کو چھپاتے ہیں کہ کوئی انہیں ڈھونڈ نہیں پاتا۔ یہ لوگ اس لیئے "سفید کالر مجرم" کہلاتے ہیں، کیونکہ یہ براہ راست چوری کے دھندے میں ملوث نہیں ہوتے بلکہ چوروں، اُچکوں، خائنوں اور ڈاکوؤں کو ایسا سب کچھ کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور خود اختیار کی بلندی پر بیٹھے یہ سب کچھ ہونے دیتے ہیں اور پھر اپنا ایک بڑا حصہ (Lion's Share) وصول کرتے ہیں۔ ان کو یہ حصہ فراہم کرنے والے وہ تمام لوگ ہوتے ہیں جو کسی ریاستی ادارے میں براہ راست چوری کرتے ہیں، مال سپلائی کرنے میں بددیانتی کرتے ہیں، عمارتیں، پل، سڑکیں تعمیر کرنے میں خرابی کرتے ہیں، ناقص دوائیں اور خوراک کی اشیاء مہیا کرتے ہیں، سرکار کے ٹیکس میں چوری کرتے ہیں، لوگوں کو منشیات بیچتے ہیں، جوائ، شراب، زنا کے اڈے چلاتے ہیں۔
یہ سب کے سب جرم کا دکھائی دینے والا چہرہ ہوتے ہیں، جو بدنام بھی ہے اوربہت ہی میلا بھی۔ لیکن ان سب مجرموں کی سرپرستی کرنے والا، ان جرائم کو ملک میں پھلنے پھولنے کا موقع دینے والا وہ "سفید کالر" گروہ ہوتا ہے جو اقتدار کی راہداریوں میں بیوروکریسی اور سیاسی قیادت کے طور پر براجمان ہوتا ہے۔ ان سب کا چہرہ مہرہ اور مفاد مشترک ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی محکمے یا ادارے میں ہوں، جرم میں اپنا ہاتھ کالا کرتے ہیں اور نہ ہی کپڑے میلے، مگر جرم کا پیسہ ان تک برابر پہنچتا رہتا ہے۔ کوئی ایس ایچ او شراب بیچتا، جواء کھلاتایا لڑکیوں کا کاروبار کرتا نظر نہیں آئے گا، لیکن اس کے ملبوس کی جیبیں ان بدنامِ زمانہ لوگوں کے پیسوں سے بھری ہوں گی۔ کوئی کسٹم کلکٹر، سمگلنگ کا مال لے کر جہازوں کے پھیرے نہیں لگاتا، کوئی سرکاری انجنیئر پل یا عمارت تعمیر نہیں کرتا، کوئی سیکرٹری پٹرول کے ٹینکر روانہ نہیں کرتا اور نہ ہی مشینری درآمد کرتا ہے، کسی ٹیکس کے اعلیٰ آفیسر کی ملیں یا کارخانے نہیں ہوتے اور کسی ڈپٹی کمشنر نے زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے بدمعاش نہیں پالے ہوتے، لیکن ان تمام دھندوں میں اپنا ہاتھ اور منہ کالا کروانے والے ٹھیکیدار، تاجر، صنعتکاریا سمگلراپنے ان "سفید کالر" سرپرستوں کو انکا مستقل حصہ پہنچاتے ہیں۔ اس کے بدلے میں یہ "سفید کالر" مجرم تین کام کرتا ہے۔
پہلا یہ کہ جن لوگوں نے اسے کرپشن کی رقم دینے کے لیئے جرم کیا ہوتا ہے، وہ انہیں جرم کی چارج شیٹ سے اس طرح پاک صاف کرتا ہے کہ وہ اپنے بددیانت سرمائے سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتے ہیں، دوسرا کام یہ ہے وہ سرکاری قوانین ایسے بناتا ہے کہ جن کی بھول بھلیوں میں الجھ کر کوئی مجرم تک نہیں پہنچ سکتا اور تیسرا کام یہ کہ کاغذات ایسے مرتب کرتا ہے کہ جرم کا سراغ لگانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سارے عمل میں اس کا شریکِ کار ہر وہ شخص ہوتاہے جو اس کرپشن اور چوری کے پیسے سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ ان میں سرکاری اہل کاروں سے لے کر سیاسی لیڈروں تک اور خفیہ والوں سے لے کر عدالتی اہل کاروں تک اور قانونی ماہرین سے لے کر صحافیوں اور قلم کاروں تک سب اپنی استطاعت کے مطابق ان سفید کالر مجرموں کی مدد کرتے ہیں۔
اس طرح کے "سفید کالر" مجرم کو پکڑنا اور ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔ ان کے خاتمے کے صرف دو ہی راستے ہیں۔ پہلا مہذب راستہ یہ ہے کہ اس ملک کے ایک خاص حد سے زیادہ مالیت والے اثاثوں یعنی گھر، دفتر، دکان، فیکٹری، بینک اکاؤنٹ اور سرمائے کو ایک ہفتے کے لیے منجمد کر دیا جائے اور جو کوئی خود کو ان اثاثوں کا مالک کہے، اس سے صرف ایک سوال کا جواب طلب کیا جائے کہ یہ سب تم نے کہاں سے اور کیسے بنایا۔ ثابت نہ کر سکے تو، سب کچھ ضبط کر لیا جائے اور ثابت کر سکے تو اس کی عزت و تکریم۔ لیکن اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور ملک اسی طرح چلتا رہاتو پھردوسرا راستہ بہت خوفناک اور خونی ہے جو تنگ آئی ہوئی عوام خود اختیار کرتی ہے۔ یہ "انقلابِ فرانس" میں اختیار کیا گیاتھا جب بھوکے، ننگے اور مفلس لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے، لوگوں کو روکتے، ان کے کالر دیکھتے، اگر ان پر محنت کی میل نظر نہ آتی تو انہیں وہاں لے جاتے جہاں سیمنٹ کی سل کے اوپر بہت بڑا چھرالٹک رہا ہوتا۔ اس سفید کالر والے شخص کو سل پر لٹاتے اورچھرے سے اس کی گردن اڑا دیتے۔