گزشتہ دنوں پاکستان کی قومی اسمبلی میں نون لیگ کے رکن اسمبلی شیخ روحیل اصغر نے میرے خلاف ایک دُھواں دار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حضرت قائد اعظمؒ کی توہین کی ہے اور ان کا موازنہ ایک ایسے شخص (عمران خان) سے کیا ہے جس نے ملک تباہ کر دیا اور مطالبہ کیا کہ یہ ایوان اس بات کی سخت مذمت کرے، جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے "متنازعہ" معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھجوا دیا۔
بات یہاں ٹھیک تھی کہ حقائق کو سیاسی طور پر جس شخص نے توڑ موڑ کر پیش کیا اس کی وجۂ شہرت علمی تحقیقی نہیں تھی، مگر روحیل اصغر کی اس "بے بنیاد" گفتگو کو صحافتی دنیا کے سر خیلوں میں سے ایک کالم نگار جمع اینکر پرسن حامد میر نے اُچک لیا اور بغیر کسی تحقیق کے ایک کالم لکھ ڈالا اور میرا نام لکھنے کی بجائے "ایک دانشور" لکھ کر مؤرخین کی خرافات پر ابنِ خلدون کے حوالے سے ایک لمبی علمیت جھاڑ دی۔
شیخ روحیل اصغر کی اس "عالمانہ تحقیق" پر اپنے کالم کی بنیاد استوار کرکے اس "عظیم صحافی" نے یقینا میرا وہ "وی لاگ" نہیں سنا ہوگا۔ کیونکہ اس کا یہ ٹائٹل اور جدید دور میں"Thumbnail" بہت واضح ہے، "قائد اعظمؒ اور عمران خان کے مخالف علمائے کرام"۔ یہ گفتگو آج بھی میرے یوٹیوب چینل پر موجود ہے۔ اس پوری گفتگو جس کا ذیلی عنوان "مارچ 1940ء سے مارچ 2023ء تک" تھا، اس میں ایک تاریخی موازنہ قائد اعظمؒ اور عمران خان کا نہیں بلکہ ان علمائے کرام کا کیا گیا ہے جو قائد اعظمؒ کے دور سے لے کر آج تک پاکستان کے ہر مقبول رہنماء کے خلاف بے بنیاد الزامات اور ذاتی زندگی کی بنیاد پر گھٹیا بہتان تراشی کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ان علمائے کرام کے گروہ کی قائد اعظمؒ کے بارے میں غلیظ الزامات کی نوعیت ملاحظہ فرمایئے، یہ کہتے تھے کہ یہ شخص اسلامی ریاست (ریاستِ مدینہ) قائم کرنے چلا ہے، لیکن اس کی اپنی بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کی ہے۔ اس کی اپنی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنے سے کئی سال چھوٹی اور پارسی دوست کی بیٹی سے شادی کی ہے اور مجلسِ احرار کے مولانا مظہر علی اظہر نے تو بھرے جلسے میں یہ شعر تک پڑھا:
اِک کافرہ عورت کے لئے دین کو چھوڑا
یہ قائد اعظم ہے کہ ہے کافرِ اعظم
انگریزی لباس پہننے، کتے پالنے، شراب پینے اور سؤر کا گوشت کھانے جیسے بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور کہا گیا کہ جو شخص اپنے چھ فٹ کے قد پر اسلام نافذ نہیں کر سکا وہ ملک میں اسلام کیسے نافذ کرے گا۔ تمام کانگریسی علماء قائد اعظمؒ کو برطانیہ کا ایجنٹ بتاتے تھے، چونکہ اس وقت تک امریکہ اس قدر اہم نہیں تھا اور اسرائیل تو ابھی بنا ہی نہیں، ورنہ یہ علماء عمران کی طرح قائد اعظمؒ کو یہودی اور اسرائیلی ایجنٹ ضرور کہتے۔
ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ کیا ہمارے علماء کرام نے ایسے تمام الزامات پاکستان کے ہر مقبول سیاسی رہنماء پر نہیں لگائے۔ شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں کی شخصیات بھی ایسے ہی بیہودہ الزامات کی زد میں آئیں اور کیا آج عمران خان کے خلاف "نجی زندگی" کے حوالے سے ویسے ہی گھٹیا الزامات نہیں لگائے جا رہے جیسے پچھہتر سال پہلے قائد اعظمؒ پر لگائے جاتے تھے۔
اپنی اس گفتگو کے دوران صرف عددی اکثریت کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ صوبہ سرحد میں قائد اعظمؒ کی مسلم لیگ ہار گئی تھی اور وہاں کانگریس کے ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت تھی۔ اس ایک فقرے کو روحیل اصغر اور پھر حامد میر نے پکڑ کر یہ افسانہ تراشا۔ گفتگو کے آخر میں، میں نے یہ کہا تھا کہ کاش یہ علماء اس وقت قائد اعظم کا ساتھ دیتے تو پاکستان یقیناً ویسی ہی اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا، جیسی قائد اعظمؒ چاہتے تھے۔
آج یہ علماء ایک بار پھر غلطی کو دہرا رہے ہیں۔ پاکستان کی پچھہتر سالہ تاریخ میں اتنی بڑی عوامی سطح پر "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" کا نعرہ کبھی نہیں گونجا اور عوام کی اکثریت جس سے کبھی "ایاک نعبدو ایاک نستعین" کے ساتھ ریاستِ مدینہ کی گونج سنائی نہیں دی ہے۔ لیڈر کا کام لوگوں کی زبان پر نعروں کی صورت اصطلاحات کو زندہ کرنا ہوتا ہے، باقی کام ان علماء کا ہے جو اس بہت بڑے ہجوم کے ساتھ چل کر ان کو تربیت سے دین کی طرف موڑتے ہیں۔ مگر آج بھی علماء کا روّیہ نفرت والا ہی ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، "اولادِ آدم کے تمام قلوب، قلبِ واحد کی طرح رحمن کی دو انگلیوں میں ہیں، وہ جسے چاہتا ہے اسے بدلتا رہتا ہے"۔ پھر آپؐ نے دُعا کی، "اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دینا" (صحیح مسلم، مشکواۃ المصابیح)۔ کسی کی مقبولیت اللہ کی عطاء اور واضح نشانی ہوتی ہے۔ اس طاقت سے فائدہ اُٹھانا ہمارے علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں ہی تمام علماء نے اس کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا تھا یہاں تک کہ 1953ء میں بے شمار شہداء نے قربانی دی، لیکن یہ کڑوا سچ ہے کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کو اللہ کی طرف سے عطاء کی گئی مقبولیت ہی تھی جس نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوا دیا اور بھٹو سے محبت کرنے والی عوامی اکثریت نے اس فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ مقبولیت اللہ کی عطاء ہے اور یہ وہ تحفہ ہے جسے اسلام میں"اہل نصرہ" کہا جاتا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ کے دور میں قبائلی سردار اور بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ اوس و خزرج قبائل کے سرداروں نے آپؐ سے کہا تھا کہ اگر ہم مسلمان ہو گئے تو پھر ہمارے قبیلے والے بھی مسلمان ہو جائیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا جس سے اولین ریاستِ مدینہ قائم ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں کوئی ایک بھی تبلیغی وفد روانہ نہیں کیا بلکہ اپنے اردگرد موجود سلطنتوں کے "کافر" بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بادشاہ جو دین یا روش اختیار کرتا ہے، لوگ بھی اس میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس سے بڑی تاریخی سچائی اور کیا ہوگی کہ اپنے زمانے کی عالمی طاقت روم کے بادشاہ کانسٹنٹین (Constantine) نے جب 28 اکتوبر 312ء میں مشہور جنگ میلون پُل (Milvian Bridge) کی فتح کے بعد عیسائیت اختیار کی تو اس کے زیرِ نگین تمام علاقوں کا مذہب بھی عیسائیت ہوگیا۔ اقتدار، قوت، طاقت اور مقبولیت سب اللہ کے مظاہر ہیں۔
اللہ فرماتا ہے، "آپ کہہ دیجئے اے اللہ، اے تمام جہانوں کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلّت دے" (آل عمران: 26)۔ طاقت و قوت کا جدید دور میں ایک مظہر مقبولیت بھی ہے کیونکہ آج مروّجہ جمہوری دور میں اسی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا جاتا ہے۔
مغربی جمہوری نظام اپنی اساس میں سیکولر اور مشرکانہ ہے، ہمارے علماء بے شک اس میں خود شرکت نہ کریں، لیکن رسولِ اکرم ﷺ نے جس طرح کافر بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے ویسے ہی آج کے جدید جمہوری مقبول رہنمائوں تک ہدایت پہنچانا علماء کی ذمہ داری اور سنتِ نبوی ہے۔ کیا رسولِ اکرم ﷺ نے ان علماء کی طرح ان بادشاہوں کی نجی زندگی اُچھالی، بہتان تراشی کی، گھٹیا الزامات لگائے؟ ہم کس کی روش پر چل رہے۔
آج اگر قائد اعظمؒ کے زمانے پر غور کریں تو سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اس دور میں جن علماء کرام نے قائد اعظمؒ کا ساتھ دیا تھا وہ کس قدر مشکل میں تھے۔ انہوں نے اپنے دور کے علماء کی کس قدر نفرت سمیٹی ہوگی۔ مثلاً مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان اور خاص طور پر پیر جماعت علی شاہ کی سربراہی میں مشائخ عظام۔ یہ سب بصیرت کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ اللہ نے مقبولیت کا تاج قائد اعظمؒ کے سر پر رکھ دیا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ رہ کر دین کو نافذ کروانا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ہی طبقۂ علماء کی نفرت مول لی، لیکن قائد اعظمؒ کا ساتھ دیا۔
قائد اعظمؒ کا ساتھ نہ دے کر اس دور کے بے شمار علماء نے نفاذِ اسلام کا موقع گنوا دیا۔ ایک بار پھر اللہ نے اپنے دست قدرت سے ایک اور شخص کو مقبولیت عطاء کی ہے، اب کی بار موقع کھویا تو پھر شاید میری زندگی میں تو دوبارہ ایسا وقت نہیں آئے گا۔