جس ملک میں عوام کے پاس چالیس کروڑبندوقیں ہوں اور ان میں سے بیشتر آٹومیٹک ہوں، اور جنہیں بچپن سے ہی گھروں، سکولوں اور دوستوں کے درمیان "سفید فام"لوگوں کی عظمتوں کی داستانیں سننے کو ملی ہوں، یہ لوگ ایک دفعہ اچانک کیپیٹل ہل کی عمارت پر قبضہ کرکے اسے برقرار رکھنے میں ناکام تو ہوسکتے ہیں لیکن اگر وہ اگلی دفعہ آئیں گے تو زیادہ زور و شور اور منصوبہ بندی سے آئیں گے۔ ایسے میں ان کو روکنا کتنا مشکل ہوگا۔ یہ ہے وہ سوال جو ان امریکی اراکینِ کانگریس کے سامنے خوف بن کر ناچ رہا ہے، جو اس وقت بظاہر "جمہوری" نظام کی بالادستی کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے (Impeachment) کی قراردادیں منظور کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جو شروع دن سے ہی ٹرمپ کی مخالف پارٹی "ڈیموکریٹ" سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مؤقف عوام پر بھی واضح ہے اور ان لوگوں کو بھی بخوبی علم ہے جو ان دنوں کیپیٹل ہل پر حملہ آور ہونے کے لیئے "ملیشیا مارچ" کی منصوبہ سازی کر رہے ہیں۔ لیکن دوسرا گروہ جو ٹرمپ کی پارٹی "ریپبلکن" سے تعلق رکھتا ہے، اس میں سے ایسے بہت سے اراکین ہیں جو ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ اس خوف سے نہیں کر سکے کہ ایسا کرنے کے بعد وہ اگر واپس اپنے شہروں میں گئے تو وہ سفید فام "گوریلے"جنہیں عظمت کے ترانے سنا سنا کر وہ الیکشن جیتے تھے، وہ بپھرے ہوئے لوگ ان کی تکا بوٹی کر دیں گے۔ یہ اراکین اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو خوب جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ غداروں کو نہیں بخشتے۔ جب یہ لوگ کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ آور ہو ئے تھے تو وہ نائب صدر "مائیک پنس" کو ڈھونڈ کر اسے قتل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک وہ غدار تھا جس نے ٹرمپ کے کہنے پر ایک فراڈ اور دھاندلی زدہ الیکشن کو کالعدم قرار نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 25ویں آئینی ترمیم کے تحت مائیک پنس کو کہا گیا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت سے برطرف کر دے تو امریکہ کی سفید فام اکثریت کے خوف سے وہ ایسا نہ کرسکا اور کانگریس کو ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک دو دفعہ منظور کرنا پڑی۔
امریکی انتظامیہ کے نزدیک یہ سب مواخذے کی تحریکیں، ٹرمپ کی برطرفی یا مستقل نااہلی کی سزا اسوقت بے معنی ہو کر رہ جائے گی، جب اگر امریکہ کے سفید فام غلبے کے علمبرداروں میں سے بیس سے تیس ہزار مسلح افرادبھی واشنگٹن میں جمع ہوگئے۔ مسٔلہ یہ نہیں کہ ان سے مقابلہ کیسے کیا جائے گا، اصل مسٔلہ یہ ہے کہ ان سے نمٹنے کے لیئے جو فوج، سیکورٹی گارڈ اور پولیس کے دستے بھیجے جائیں گے، ممکن ہے کہ ان میں سے بھی کئی حملہ آوروں کے ساتھ مل جائیں۔ اس خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چھ جنوری 2021ء کو جو لوگ کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ آور ہوئے تھے، ان میں سے بیشمار ایسے پولیس والے بھی تھے جن کی اسوقت ڈیوٹی نہیں تھی اور وہ اس "سفید فام انقلاب" میں شامل ہوگئے تھے۔ انتظامیہ کو ڈر اس بات کا بھی ہے کہ جب امریکہ کی پچاس ریاستوں میں "گوروں " کے مسلح دستے ان دارالحکومتوں کے دفاتر کو گھیر چکے ہوں گے اور واشنگٹن میں ملین ملیشیا مارچ سے مڈبھیڑ ہوگی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد میں کون "انقلابیوں " کے ساتھ ہوگا اور کون نہیں۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو گیا، نہ ہی ٹرمپ اتنی اہم شخصیت ہے جو یہ سب کر سکے۔ اس سب کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق اس وقت پورے امریکہ میں سو کے قریب ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو سفید فام برتری (White Supremacy) کی نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس کے لیے ایک سخت مؤقف کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا مورث اعلیٰ وہ گروہ ہے جو امریکی تاریخ میں "کو کلس کلین"(Ku klus Klan) کہلاتا ہے۔ اس" کلین " یا گروہ کا اصل ٹارگٹ یا ہدف "سیاہ فام" امریکی تھے جبکہ دوسرے نمبر پریہ گروہ یہودیوں، مسلمانوں، مہاجروں، بائیں بازو والے کیمونسٹوں اور ہم جنس پرستوں کو بھی اپنا دشمن قرار دیتا تھا۔ جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی فہرست میں "کیتھولک عیسائیوں " کو بھی شامل کر لیا ہے۔ امریکی تاریخ میں اس گروہ کے تین ادوار ہیں۔
پہلا دور وہ تھا جب یہ گروہ سیاہ فام لوگوں کے حق اور مخالف میں لڑی جانیوالی سول وار کے زمانے میں "گوروں " کی بالادستی کے لیے اکٹھا ہوا۔ یہ 1865ء سے 1871ء تک بہت منظم رہا، پھر اس کے بعد امریکی مرکزی حکومت کے قوانین کے تحت اسے دبا دیا گیا۔ یہ لوگ اپنی مخصوص پہچان کے لیے رنگارنگ ملبوسات پہنتے تھے، جن کا مقصد لوگوں کو خوفزدہ کرنا اور چہرے پر ماسک پہن کر اپنی شناخت چھپانا تھا۔ مسلسل پینتیس سال کی خاموشی کے بعداچانک اس تحریک میں ایک بار پھراسوقت جان پڑی جب "ڈی ڈبلیو گرفتھ" (D.W.Grifth) نے 1905ء میں لکھے جانے والے ناول نما ڈرامے "The Calansman"پر 1919ء میں ایک خاموش فلم "The Birth of a Nation"بنائی۔ اسے امریکی تاریخ کی سب سے متنازعہ فلم سمجھا جاتا ہے۔ اس میں گورے اداکاروں نے اپنے چہرے سیاہ کر کے سیاہ فاموں کے کردارنبھائے تھے۔ اس فلم میں سیاہ فام لوگوں کو غبی اور کند ذہن دکھایا گیاہے۔ فلم کا پہلا حصہ سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے علمبردار امریکی صدر "ابراہم لنکن" کے قتل پر ختم ہوتا ہے اور دوسرے حصے میں "کو کلس کلین" کے گروہ کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو امریکی اقدار کے تحفظ اورسفید فام برتری والے معاشرتی طرزِ زندگی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ یہ فلم امریکی تاریخ کی چند کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔
یہ پہلی فلم تھی جسے امریکی صدر وڈ ولسن نے وہائٹ ہاوس میں دیکھا تھا۔ یہ فلم سفید فام امریکیوں کے لیئے ایک نئے جذبے کا باعث بنی۔ اس سے متاثر ہو کر جارجیا کے ولیم سائمنز نے "کلین" کے پرانے کاغذات نکالے، ان ممبران سے ملا جوزندہ تھے اور ان سے انٹرویو کے بعد"کلین" کی دوبارہ بنیاد رکھ دی۔ صرف پانچ سالوں کے اندر اندر سفید فاموں کی برتری کے لیے کام کرنے والا یہ گروہ اتنا مقبول ہوا کہ اس کے پچاسی ہزار ارکان بن گئے، جبکہ پچاس لاکھ کے قریب افراد اس کے کھلے حمایتی تھے۔ لیکن ایک واقعے نے تنظیم پر انتہائی منفی اثر ٖڈالا۔ کلسن کے ایک رہنما سٹیفن سن (Stephen Son) نے ایک سفید فام خاتون میگی اوبر ہولٹزر (Madge Oberholtzer)کو اغوا کیا، درندگی کے ساتھ مسلسل اسے کئی دن جنسی طور پر ہراساں کیا اور پھر پارے کی گولیاں دے کر ہلاک کر دیا۔ مقدمہ چلا تو بہت سے سفید فام اس گروہ کو ایک مافیا تصور کرنے لگے۔ سٹیفن سن کو عمر قید ہوگئی اور "کلین" آہستہ آہستہ پھر خاموش ہوتا چلا گیا۔
جنگِ عظیم اوّل، 30کی دہائی کی عالمی کساد بازاری اور جنگ عظیم دوم نے دنیا بھر کو اتنا پریشان کر دیاتھا کہ امریکی گورا بھی اپنی عظمت کی کہانیاں فراموش کر بیٹھا۔ لیکن 1950ء کے بعد پورے امریکہ میں ایک بار پھر یہ "کلین" ابھر کر سامنے آیااور آج تک قائم ہے۔ مگر اس دفعہ یہ گروہ ایک دہشت گرد گروہ نظر آتا ہے۔ گروہ نے 1957ء کی کرسمس والے دن فلوریڈا کے شہر ممز میں غیر گوروں کے حقوق کی تنظیم"NACP" (National Association of Colored People) کے دفتر میں دھماکہ کیا اور تحریک کے دو اہم سرگرم کارکنان کو ہلاک کر دیا۔ 1957ء میں ایک چوبیس سالہ سیاہ فام ڈرائیور کا گرو ہ کے ممبران نے اس شبے پر پیچھا کیا کہ اس کے ایک سفید فام عورت کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اسے دریائے البامہ کے 129فٹ اونچے پل سے زبردستی چھلانگ لگانے کو کہا گیا، تین ماہ بعد اس سیاہ فام کی ناقابلِ شناخت لاش ملی۔ 1963ء میں البامہ کے ایک گرجا گھر میں بم پھینکا جس سے چار سیاہ فام لڑکیاں ماری گئیں، 1964ء میں مسس سپی میں تین سیاہ فام سول رائٹ ورکر قتل کر دیئے گئے۔ یہ اور ایسے لاتعداد دہشت گردی کے واقعات ہیں جنہوں نے گروپ کو آج تک زندہ رکھے ہوا ہے۔ (جاری ہے)