Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Supreme Court Bala Tar Kyun?

Supreme Court Bala Tar Kyun?

دنیا بھر میں جرم و سزا کی دنیا اور عدالتی عمارت دو واضح تصورات پر تقسیم ہے، (1) قانون کی حکمرانی اور (2) انصاف کی حکمرانی۔ بظاہر دونوں ایک جیسے ہی لگتے ہیں لیکن دونوں میں عملی سطح پر بہت بڑا فرق ہے اور اس فرق کو جتنا چاہے وسیع کیا جا سکتا ہے۔

جدید دور میں مختلف ممالک میں رائج قوانین کے دو اہم مآخذ ہیں جن کا تعلق اہلِ اقتدار سے ہے۔ جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ یا کانگریس کوئی قانون بنائے یا پھر کوئی بادشاہ یا فوجی آمر کسی بھی قسم کا کوئی قانون نافذ کر دے۔ ایسا قانون عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بالکل برعکس بھی۔ مثلاً نوآبادیاتی دور میں برطانیہ اور فرانس جیسی قابض طاقتوں نے اپنے زیرنگیں علاقوں میں جو قوانین بنائے تھے وہ زیرِ تسلّط مقامی افراد کے بے شمار بنیادی حقوق کے خلاف تھے اور رعایا کو جبرواستبداد کے ذریعے زیرنگیں کرنے والے تھے۔

لیکن ان قوانین کے نفاذ کے بعد تمام ممالک میں موجود تمام انتظامی مشینری ان پر سختی سے عمل درآمد کروا کر قانون کی حکمرانی (Rule of Law) قائم کرتی تھی اور ایسے ممالک کی تمام عدالتیں انہی قوانین کے تحت فیصلے کیا کرتی تھیں۔ یقیناً یہ فیصلے "قانون" کے مطابق ہوتے تھے، مگر "انصاف" کے مطابق نہیں۔ اسی طرح جدید جمہوری دور میں بھی بہت حد تک اس بات کا احتمال موجود ہے کہ کسی ملک کی پارلیمنٹ ایک ایسا قانون منظور کرے، جس سے کسی گروہ یا قبیلے کی حق تلفی ہوتی ہو یا پھر کسی ایک طبقے بلکہ بعض اوقات تو پوری قوم کو ہی کسی ایک انسانی حق سے محروم کیا جاتا ہو۔ مثلاً اظہارِ رائے پر پابندی کے ہر روز بدلتے اور کبھی سخت اور کبھی نرم ہوتے قوانین اسی بات کی علامت ہیں۔

زبان و تحریر سے حکومت مخالف گفتگو یا ریاستی اداروں کی غلطیوں کی نشاندہی کو غدّاری تعبیر کرنا بھی ایسے "جبّریہ" قوانین میں شامل ہے۔ ایسے متعصب اور جانبدار قوانین دنیا کے ہر جمہوری ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مغربی ممالک میں یہودیوں پر جنگِ عظیم دوّم میں ڈھائے جانے والے مظالم جنہیں"ہولوکاسٹ" (Holocaust) کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں گفتگو کرنا، یہاں تک کہ مزاحیہ انداز میں مضمون لکھنا یا کارٹون بنانا بھی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے اور ایسے تمام ممالک میں اس کی سخت سزا بھی مقرر ہے، لیکن انہی ممالک میں دنیا کے تمام مذاہب کے پیغمبروں کا مذاق اُڑانا، ان پر مزاحیہ فلمیں یا کارٹون بنانا آزادیٔ اظہار کے زمرے میں آتا ہے۔

ان ملکوں میں رائج انہی قوانین کے تحت مغرب کے تمام ممالک میں روز عدالتیں فیصلے کرتی ہیں۔ ہولوکاسٹ پر لکھنے والوں کو سزائیں سناتی ہیں اور اس کے برعکس پیغمبرِ اسلام ﷺ کے کارٹون بنانے والوں کو بری کرتی ہیں۔ لیکن ملک میں رائج قوانین کے مطابق وہ درست فیصلے قرار پاتے ہیں اور یوں ان ملکوں میں قانون کی حکمرانی قائم ہے۔ اظہارِ رائے کے نام پر مذہبی شخصیات کی تضحیک کی آزادی اور یہودیوں کے خلاف نفرت (Antisemitism) کے نام پر سزائوں کا نفاذ ایک وسیع مضمون ہے جس پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں رائج تمام عدالتی نظام انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے زیرِ تابع ہیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام اینگلو سکین قوانین کے زیراثر ہے جو دو مخالفین کے درمیان فیصلہ کرنے (Adversarial) کا قانون ہے۔ اس کا ایک وسیع قانون شہادت ہے۔ حکومت کا تفتیشی ایک ملزم کے خلاف جو بھی کچی پکی شہادت صفحۂ مثل پر لائے گا، عدالت اسی کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہے۔ اس شہادت کے مقابلے میں ملزم کی جانب سے بھی جو شواہد پیش کئے جائیں گے اگر وہ قوی ہیں تو پھر اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔

عدالت اپنی جانب سے نہ کوئی گواہ اس میں شامل کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی شہادت صفحۂ مثل پر لا سکتی ہے۔ عدالت کو اگر معلوم بھی ہو جائے کہ تفتیش کرنے والے ادارے اور ملزم دونوں نے ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کرکے کمزور شہادتیں مقدمے میں شامل کیں ہیں اور مضبوط شہادتوں کو مقدمہ کا حصہ نہیں بنایا تو ایسے میں بھی عدالت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ قانون اسے صرف نافذالعمل قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند کرتا ہے، چاہے وہ فیصلہ کتنا ہی غیر منصّفانہ فیصلہ کیوں نہ ہو مگر، وہ قانون کے عین مطابق ہوگا۔

پاکستان میں ایک سول جج یا مجسٹریٹ سے لے کر ہائی کورٹ تک تمام عدالتیں قانون کی حکمرانی کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان عدالتوں سے قانون کے مطابق فیصلے کرتے وقت انصاف کا قتل ہو جائے۔ ایسے میں ان تمام عدالتوں سے بالاتر ایک ایسی عدالت کی ضرورت یقیناً ہوتی ہے جو قانون کے مطابق نہیں بلکہ انصاف کے مطابق فیصلے کرے۔ دنیا بھر کے ممالک میں نافذ دساتیر میں ایسی ہی ایک بڑی عدالت کی گنجائش رکھی جاتی ہے جسے عمومی طور پر "سپریم کورٹ" کہتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 187 بھی اسی اُصول کو مدِنظر رکھ کر سپریم کورٹ کو وسیع اختیارات دیئے گئے، اس کے مطابق:

"عدالتِ عظمیٰ کو اختیار ہوگا کہ وہ ایسی ہدایات، احکام یا ڈگریاں جاری کرے جو کسی ایسے مقدمے یا معاملے میں جو اس کے سامنے زیر سماعت ہو "مکمل انصاف" کرنے کے لئے ضروری ہوں"۔

اس میں لفظ "مکمل انصاف" (Complete Justice) کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ یعنی سپریم کورٹ ملک میں نافذالعمل قوانین کے مطابق اگر انصاف نہ کر پا رہی تو وہ ان سے بالاتر بھی فیصلے کر سکتی ہے۔ چونکہ ایسے تمام قوانین پارلیمنٹ میں بنائے اور منظور کئے جاتے ہیں، اسی لئے سپریم کورٹ کو آئین میں پارلیمنٹ کے تصرف سے بالاتر ادارہ قرار دیا گیا ہے جو اپنے ادارے کے نظم و نسق کے لئے قواعد و ضوابط بنانے کا ازخود اختیار رکھتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 191 کے مطابق: "دستور اور قانون کے تابع، عدالتِ عظمیٰ عدالت کے معمول اور طریقِ کار کو منضبط کرنے کے لئے خود قواعد وضع کر سکے گی"۔

اس آرٹیکل میں لفظ "دستور" اور "قانون" کے تابع دو الفاظ استعمال ہوئے۔ دستور تو ایک اساسی دستاویز کی صورت موجود ہے جسے بہت مشکل سے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف بھی کوئی آئینی ترمیم بھی لائی نہیں جا سکتی۔ لیکن پارلیمنٹ قانون میں تبدیلی بڑی آسانی سے لا سکتی ہے۔ لیکن دستور پاکستان نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے بارے میں کسی بھی قسم کا قانون بنانے سے روک دیا ہے۔

آئین کے جدول چہارم میں قانونی سازی کی دو فہرستیں دی گئی ہیں ایک وفاقی اور دوسری صوبائی۔ ان میں سے وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شق 55 کے تحت یہ واضح لکھا گیا ہے کہ "عدالتِ عظمیٰ کے سوا تمام عدالتوں کا اختیار سماعت و اختیارات"۔ یعنی پارلیمنٹ تمام عدالتوں کے لئے قواعد و ضوابط کے لئے قانون بنا سکتی ہے لیکن عدالتِ عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے اس قانون سازی والے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔

یہ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ پاکستان کی تمام عدالتیں قانون کی عدالتیں ہیں۔ انہیں ملک میں نافذ ہر جائز و ناجائز قانون کے مطابق ہی فیصلے کرنا ہوتے ہیں، جبکہ سپریم کورٹ انصاف اور صرف انصاف کی فراہمی کی عدالت ہے اور اگر اسے بھی دیگر ماتحت عدالتوں کی طرح ہی مکمل طور پر قانون کے تابع بنا دیا گیا تو پھر ملک میں مکمل انصاف (Complete Justice) کی فراہمی ایک خواب ہو کر رہ جائے گی۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.