ملتِ اسلامیہ ہمیشہ سے دو گروہوں میں تقسیم رہی ہے۔ ایک وہ جو اقتدار کی چوکھٹ پر سربسجود ہو جاتے تھے اور بادشاہوں سے اپنے مفادات وابستہ کر لیا کرتے تھے، جبکہ دوسرے وہ تھے جو سیدالانبیاء ﷺ کے اس ارشاد کہ "سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے" (ابو دائود، ترمذی، ابنِ ماجہ، مسند احمد)، کے مصداق سینہ سپر ہو جاتے تھے اور انہیں اس بات کی بالکل پروا نہیں ہوتی تھی کہ حق کے اس راستے میں ان کی جان بھی چلی جائے۔ ایسے شہداء کے لئے رسولِ اکرم ﷺ کی زبان مبارکہ نے بہت بڑی بشارت دی ہے۔
آپؐ نے فرمایا "سیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص بھی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا، اس نے اسے اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا اور اس حکمران نے اسے قتل کر دیا" (السلسلہ الصحیحہ حدیث 3606)۔ ایسے شہداء کا معنوی نسب شہیدِ کربلا سیدنا امام حسینؓ سے ملتا ہے۔ اسی حدیث کی وجہ سے پوری اُمتِ مسلمہ سیدنا امام حسینؓ کو بھی سیدالشہداء کے لقب سے پکارتی ہے۔
اس دفعہ سفرِ حجاز کی سعادت حاصل ہوئی تو مکہ و مدینہ اور بلادِ عرب کے باسیوں کو جس طرح بدلے ہوئے دیکھا اور مغربیت کے غلبے میں جس طرح کاروبارِ زندگی میں خواتین کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کا مشاہدہ کیا، تو ان مقدس مقامات پر کھڑے ہوئے کانپ کر رہ گیا۔ جدّہ کا وہ قدیمی ایئر پورٹ جہاں اب صرف پی آئی اے جیسی تھکی ہاری ایئر لائن کے جہاز ہی آ کر کھڑے ہوتے ہیں اور جو اب صرف حجاج یا عمرہ زائرین کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔
اس ایئر پورٹ میں پاسپورٹ کنٹرول کے ہر کائونٹر پر اب صرف اور صرف خواتین موجود تھیں۔ یہ تمام خواتین اگرچہ حجاب نہیں بلکہ نقاب میں ملبوس تھیں مگر آنکھوں کا وہ حصہ جو نمایاں تھا اسے "غمزۂ و عشوہ و ادا" سے مزین کر رکھا تھا۔ حالتِ احرام میں استغفار پڑھنے اور غضِ ّ بصر کرنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ مدینتہ النبی جس میں سیدالانبیاء ؐ کے وجود کی حرمت انسان کو بلند آواز میں سانس لینے سے بھی روکتی ہے اور جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا تھا:
ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدو بایزید ایں جا
"یہ آسمان کے نیچے ایک ایسا ادب کا مقام ہے کہ جو عرش سے بھی نازک تر ہے، یہاں جنید اور بایزید جیسے بزرگ بھی حاضر ہوتے تو اپنے وجود اور نفس کو بھول کر آتے۔ ایسے مقدس اور محترم شہر کی سڑکوں پر آپ کو کوئی خاتون گاڑی چلاتی نظر آئے تو آدمی حیرت میں گم ہو جاتا ہے، لیکن اگر کوئی خاتون سر پر دوپٹے سے بھی بے نیاز ہو تو ایسے میں آپ سر سے پائوں تک کانپ جاتے ہیں۔
اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنے کے لئے ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کے ستاون ممالک کی بے شمار سرزمین پڑی ہے اور مسلمان روز وہاں نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، مگر وہ شہر جنہیں اللہ نے حرم کا درجہ دیا ہو، وہاں ایسی گستاخی کا تصور کرنا بھی کبھی محال ہوتا تھا۔
دنیا کے ہر مذہب کے مقدس ترین مقامات کے احترام کے لئے مسلّمہ قوانین ہیں۔ ہر ایسی جگہ کا ایک پروٹوکول (Protocol) ہوتا ہے، لاتعداد کرنے کا کام (Do's) اور نہ کرنے کے کاموں (Dont's) کی ایک فہرست میسر ہوتی ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جاتا ہے۔ حقوقِ نسواں اور جدید ملبوساتِ عریانی کا نشہ اپنی جگہ، لیکن مقدس کلیسا نے اپنی خدمت گار خواتین (Nuns) کا جو مکمل حجاب والا ملبوس صدیوں پہلے گرجا گھروں میں رائج کیا تھا، آج بھی عالمی فیشن کے مرکز و محور ملک اٹلی کے بیچوں بیچ موجود ویٹکن سٹی میں وہی ملبوس نظر آتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ افریقہ کی شدید گرمی اور کینیڈا کی شدید ٹھنڈ میں بھی گرجا گھروں کی ان مقدس راہبائوں کا ملبوس نہیں بدلا۔
سرزمینِ حجاز میں گزارے ہوئے ان چند دنوں میں مجھے اقبالؒ بہت یاد آئے۔ اقبالؒ نے اپنے سامنے مسلم اُمّہ کا وہ لمحہ دیکھا تھا جب یہ اُمت عالمی استعماری نوآبادیاتی قوتوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ اس جنگ کے دوران بھی مسلمان ویسے ہی دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ ایک وہ جو برطانیہ، فرانس اور دیگر کے کاسہ لیس اور ساتھی بن گئے اور دوسرے وہ جو ان دونوں قوتوں کے خلاف جہاد کرتے رہے۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے میں ان غلامانہ ذہنیت رکھنے والے غدّارانِ ملت کا بہت بڑا کردار تھا۔ تکلیف دہ بات یہ تھی انگریز کو مسلمانوں کی خلافت کے خاتمے کے لئے جو اوّلین کردار میسر آئے وہ حجاز اور نجد کے اہم خاندانوں کے سربراہ تھے۔ نجد سے آلِ سعود جو بدّو قبائل سے تھے اور حجاز سے آلِ بنو ہاشم، جن کا سلسلۂ نسب پیارے آقا ﷺ سے جا ملتا تھا۔ شریفِ مکہ حسین بن علی نے مشہور برطانوی جاسوس لارنس آف عریبیہ کے ساتھ مل کر 1915ء میں خلافتِ عثمانیہ سے جنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں پورے مشرقِ وسطیٰ پر برطانیہ اور فرانس کے ناپاک قدم قابض ہو گئے۔
حسین بن علی نے مدینہ کے عثمانی گورنر عمر فخرالدین پاشا کے خلاف دو سال تک رسول اکرم ﷺ کے شہر مدینہ کا محاصرہ کئے رکھا۔ آخر فخر پاشا نے ایک دن کہا، مدینہ تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا اور ہم ہیں پردیسی، ہم رُخصت ہوتے ہیں، تم یہاں رہو لیکن ہمیں اپنے محبوب آقا کے تبرکات ساتھ لے جانے دو۔ یہ وہی تبرکات ہیں جو آج آپ کو استنبول کے توپ کاپی میں نظر آتے ہیں۔
شریفِ مکہ کے دو بیٹوں، عراق میں فیصل اور اُردن میں عبداللہ کو انعام کے طور پر حکمران بنا دیا گیا۔ لیکن انگریز نے چند سال بعد ہی اپنے دوسرے اتحادی آلِ سعود سے حجاز پر 1924ء میں حملہ کروایا اور ملتِ اسلامیہ کا یہ غدّار جلاوطنی میں قبرص چلا گیا اور پھر 1931ء میں اپنے بیٹے کے پاس اُردن میں انتقال کر گیا۔ اسی حجاز میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے خلاف لیبیا کے جنوبی صحراء سے آنے والے ایک شخص محمد بن علی سنوسی نے 1837ء میں سنوسی تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ لوگ کتاب و سنت کے مطابق ایک عالمی اسلامی خلافت کے قیام کا پرچم لے کر نکلے تھے۔
اس تحریک کا کام اس قدر پھیلا کہ سنوسی مبلغین کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے صحراء میں چوری، قتل و غارت اور دیگر جرائم ختم ہو کر رہ گئے اور امن کے اس ماحول کو دیکھ کر سیاہ فام لوگ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ فرانس نے جب مغربی افریقہ پر قبضہ کرنے کے لئے فوجیں اُتاریں تو سنوسی تحریک نے اپنے سربراہ سید احمد شریف کی قیادت میں 1902ء سے 1912ء تک دس سال تک ان کا مقابلہ کیا۔
اسی طرح جب اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کیا تو حجاز کے غدّاروں کے برعکس یہاں سنوسی تحریک نے چھ سال تک اٹلی کی فوجوں کا مقابلہ کیا۔ اس دوران جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی اور اٹلی اتحادیوں کے ساتھ مل گیا اور یوں برطانیہ نے اٹلی کے ساتھ مل کر سنوسی تحریک کے حریت پسندوں کو شکست دے دی۔ طرابلس کی یہی وہ جنگ ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے اپنی مشہور نظم "حضور رسالت مآب ﷺ" میں آپ کے سامنے حاضری دیتے ہوئے جو تحفہ پیش کیا تھا وہ انہی شہیدوں کا لہو تھا:
ترستی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
جس وقت سنوسی ان عالمی استعماری قوتوں سے جہاد میں مصروف تھے تو اس وقت شریفِ مکہ کا خاندان انہی انگریزوں سے وفاداری کے سلسلے میں حجاز، اُردن اور عراق پر حکمرانی حاصل کر رہا تھا۔ اسی دُکھ اور کرب کے عالم میں شیخ احمد سنوسی نے عراق کے امیر کو ایک پیغام بھیجا تھا جسے اقبالؒ نے یوں نظم کیا ہے:
کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
حجاز کی سرزمین پر اُمتِ مسلمہ کی اس بربادی پر آنکھوں میں اشک اور دل میں درد کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ جتنے دن وہاں رہا، اسی درد میں مبتلا رہا اور رُخصت ہوتے ہوئے ایک ہی دُعا دل سے نکلی، اے اللہ! کیا اب کوئی سنوسی اس اُمتِ مسلمہ میں پیدا نہیں ہوگا جو نام و نسب کے حجازیوں کو یہ پیغامِ عبرت دے سکے۔ میرے اللہ تُو ہمیں کوئی سنوسی عطا فرما (آمین)۔