بالآخر، بیس جنوری 2021ء کو امریکہ کی انچاس فیصد اقلیت پر اکیاون فیصد اکثریت کی آمریت کو نافذ کر دیا گیا۔ اس دن واشنگٹن شہر بالکل ویسا ہی منظر پیش کر رہا تھا جیسا منظر بغداد اور کابل میں امریکی حملوں، خونریز لڑائی اور قتلِ عام کے بعد ہونے والے الیکشنوں میں منتخب حکمرانوں کی تقریبِ حلف برداری کے وقت تھا۔ آج تاریخ کا یہ مغالطہ اور غلط فہمی بھی دور ہو گئی کہ "جمہوری نظام" اپنے اندر اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ اپنے تسلسل کو قائم رکھ سکے۔ جو بائیڈن کا یہ فقرہ کہ "آج جمہوریت کی فتح ہوئی ہے"، جدید انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فریبِ نظر ہے۔ دراصل اس دن جمہوریت کے کریہہ چہرے سے آخری نقاب الٹا ہے اوراس کے پیچھے چھپی ہوئی ریاستی مشینری کی فتح ہوئی ہے۔ جو لوگ گذشتہ ایک سو سال سے دنیا کو یہ درس دے رہے تھے کہ جمہوریت انسانی فطرت سے قریب تر ین نظام ہے، اس میں دراصل عوام کی حکومت قائم کی جاتی ہے۔
آج ان کا تمام علم، فلسفہ اور دلائل ان کے منہ پر الٹ دیئے گئے۔ سوچتا ہوں کہ اگر امریکہ میں کوئی "پی ڈی ایم"بنی ہوتی اور ایسے حالات میں کوئی "مریم نواز" جلسے میں کھڑے ہو کر کہتی کہ اگر ریاستی مشینری کے کرتا دھرتا جو بائیڈن کے پیچھے سے ہٹ جائیں، تو یہ خود بخوداقتدار سے محروم ہو جائے گا اور اگراس امریکی جمہوریت کی "مریم نواز" کے کہنے پر ریاستی مشینری پیچھے ہٹ جاتی تو جوبائیڈن کی حلف برداری کا خواب کبھی پورا نہ ہوتا۔ وہ لوگ جو اچھل اچھل کر سوالات کیا کرتے تھے اور زور و شور سے کالم تحریر کیا کرتے تھے کہ تم مسلمان جس خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، جس "نشاۃِ ثانیہ" کے خواب دیکھتے ہواور جس "خلافت"کے نظام کے نفاذ کی باتیں کرتے ہو، وہ نافذ کیسے ہوگا۔ تو ہمارا ایک ہی جواب ہوتا تھا، جیسے باقی تمام نظام بزورِ قوت اور بزورِطاقت دنیا پر نافذ کیے جاتے ہیں، ویسے ہی ایک دن جب مسلمانوں کا ایک نظریاتی جمِ غفیر اس قابل ہوگیا کہ اس کے سامنے ریاستی مشینری سرنگوں ہو گئی تو "خلافت" کا نظام بہت آسانی سے نافذ بھی ہو جائے گا اور وہ اپنا تسلسل بھی برقرار رکھے گا۔
ریاستی قوتِ نافذہ اس کے خدو خال طے کرے گی، اس میں رائے دینے کے قابل افراد ملک کے طول و عرض میں منظم کرے گی، ان کی رائے ایک الیکٹورل کالج (Electoral College)کی رائے کی طرح ہوگی جس میں ایک خلیفہ چنا جائے گا، جس کے بعد اس کی بیعت عام کا نفاذ ہوگا۔ اس لئے کہ یہ خلیفہ اکیاون فیصد نہیں بلکہ سو فیصدلوگوں کا متفقہ رہنما اور لیڈر ہونا چاہیے۔ ایسا کچھ کس قدرر آسان ہے اگر ریاستی مشینری یا قوتِ نافذہ ایسا کرنا چاہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ریاستی مشینری نے ڈونلڈ ٹرمپ کو 2017ء میں صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا تھا حالانکہ "اکیاون فیصد"ووٹوں کی اکثریت ہیلر ی کلنٹن کے پاس تھی۔ دنیا کے کسی ملک میں آج تک جمہوریت از خود نافذ نہیں ہوئی، اسے بزورِ قوت و طاقت اور ریاستی مشینری کی قوتِ نافذہ کے بل بوتے پر عوام پر ایک نظام کے طور پرمسلط کیا گیا۔
پاک و ہند میں برطانوی غلبے اور قوت و اقتدار کے بعد لوکل باڈیز کے الیکشنوں سے لے کر لجسلیٹو کونسل کے انتخابات تک اگر نو آبادیاتی ریاستی مشینری "جمہوری ادارے"نہ بناتی تو کیا آج اس خطے میں جمہوریت نام کی چڑیا موجود ہوتی۔ اس خطے کی آخری بڑی مسلح عوامی لڑائی 1857ء کی جنگ آزادی تھی جو جمہوریت نہیں بلکہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی سلطنت کے تحفظ کے لئے لڑی گئی تھی۔ اسی برصغیر پاک و ہند کے پڑوس میں اتنے ہی بڑے ملک چین میں ماؤزے تنگ "کیمونسٹ انقلاب"کے لئے مسلح جدوجہد کر رہا تھا۔ چین والے اپنی ہی قوم کے بادشاہوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہندوستانی غیر ملکی آقاؤں کے خلاف۔ 1947ء میں برطانیہ نے دو جمہوری ریاستیں چھوڑیں اور 1949ء میں ماؤزے تنگ کا کیمونسٹ چین وجود میں آیا۔ برطانیہ نے ملک چھوڑنے سے پہلے اس خطے کو تین چیزیں تحفے میں دیں۔ ایک فوج، دوسری بیوروکریسی اور تیسری جمہوری اشرافیہ۔ جہاں جہاں اس نے جمہوریت نافذ کرنا چاہی، وہاں وہاں یہ فافذ رہی۔
یہی وجہ ہے کہ دو ملک پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے لیکن ان کے ساتھ ساڑھے پانچ سو سے زیادہ شہزادگی ریاستیں (Princely States) بھی آزاد ہوئیں۔ ان ریاستوں میں جمہوریت اور جمہوری نظام نام کو بھی نہ تھا، لیکن آزادی کے بعد دونوں ملکوں کی قوتِ نافذہ یعنی ریاستی مشینری نے ان ساڑھے پانچ سو ریاستوں کو بھی جمہوری نظام کی لپیٹ میں لے لیا۔ اگر 1947ء میں دونوں ملکوں کی قوتِ نافذہ یعنی ریاستی مشینری یہ فیصلہ کرتی کہ ان ساڑھے پانچ سو ریاستوں کو جمہوری نظام کا حصہ نہیں بناناتو آج خان آف قلات کا بیٹا وہاں کا غیر جمہوری حکمران ہوتااور بہاولپور کا نواب صلاح الدین عباسی بغیر کسی الیکشن کے وہاں کا امیر اور میان گل اورنگ زیب کا بیٹانسلاً والئی سوات ہوتا۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ کے قیام، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عالمی مالیاتی نظام کے بعد بڑی عالمی طاقتوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ دنیا کا ہر ملک تین بنیادی تقاضے ضرور پورے کرے گا، 1) کاغذی کرنسی اور سٹیٹ بینک۔ 2) آئین اور آئین کی جمہوری حکمرانی اور 3)ریاستی حدود کا تقدس۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک میں جمہوریت نافذ نہ ہوتی، یہ عالمی طاقتیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح اس پر کود پڑتیں، اسے فتح کرتیں اور وہاں جمہوریت نافذ کر کے دم لیتیں۔
عراق کا صدام حسین اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ پاکستان کی موجودہ جمہوریت اور جمہوری تسلسل بھی اسی قوتِ نافذہ کی خواہش کا نتیجہ ہے۔ اگر صدر اور چیف مارشل لا، ایڈمنسٹریٹرجنرل یحییٰ خان ون یونٹ توڑ کر پانچ صوبے نہ بناتا اور ملک میں 1970ء کے الیکشن نہ کراتا تو اس ملک میں کون سا لیڈراتنا زور ِ بازو رکھتا تھا کہ اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت نافذ کر دیتا۔ اب ذرا اس کیفیت کو ایک لمحے کے لئے بدل کر دیکھیں۔ اگر یحییٰ خان ایک نظریاتی کیمونسٹ ہوتا اور پھر یہ تووہ زمانہ تھا جب پاکستان کا دانشور، ادیب اور صحافی طبقہ اس ملک میں کیمونسٹ انقلاب کے خواب دیکھ رہا تھا۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان اقتدار میں آنے کے بعد تمام ملیں، کارخانے اور بینک قومیا لیتا اور ملک میں مکمل کیمونسٹ نظام نافذ کر دیتا، امریکی سامراج کو رخصت کر کے سویت یونین کے ساتھ پینگیں بڑھا لیتا تو اس ملک کاہر عظیم شاعر، لکھاری اس کی شان میں قصیدے پڑھتا۔ حبیب جالب اس کے دستور کوبخوشی مانتا، فیض احمد فیض اسے "داغ داغ اُجالے" کی بجائے صبح امید کہتا۔ سید سبطِ حسن سے لے کر سجاد ظہیر تک اور عابد حسن منٹو سے لے کر سی آر اسلم تک کون ہوتا جو اس جنرل یحیٰی خان کے کیمونسٹ انقلاب کا پرچم نہ تھامتا۔ بات اتنی سی تھی کہ یحیٰی خان کے رنگا رنگ مزاج کو اپنی آزاد طبیعت کے لئے جمہوریت ہی پسند تھی، یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستانی تاریخ کے سب سے زیادہ غیر متنازعہ الیکشن کروائے۔
ریاست بنیادی طور پر ایک ایسا ادارہ ہے جو ایک مسلح، جاندار اور طاقتور قوتِ نافذہ سے وجود میں آتا ہے۔ یہ قوتِ نافذہ اگر بادشاہت کا نفاذچاہے تو کسی بادشاہ کی آمریت قائم ہوتی ہے، اگر یہ کیمونزم نافذ کرناچاہے تو مزدور کی آمریت (Proletariat Dictatorship) اور اگر یہی قوت ملک میں جمہوریت کا نفاذچاہے تو وہاں اکثریت کی آمریت نافذ ہوتی ہے۔ عوام کے چاہنے یا نہ چاہنے کی کوئی حیثیت نہیں۔