کیا خوبصورت ضرب المثل ہے، کسی کو اس کی حیثیت یا اوقات یاددلانا ہو، تواس محاورے کا استعمال کیا جاتا ہے، "تین میں نہ تیرہ میں، سُتلی کی گرہ میں "۔ بے وقعتی اور کم حیثیتی کا احساس عموماًیہ محاورہ بول کر ایا جاتا ہے۔ جیسے ہر ضرب المثل کے پس منظر میں ایک یا ایک سے زیادہ قصے مشہور ہیں ویسے ہی اس محاورے کی بنیاد بھی ایک قصے پر ہے۔ ایک "زنِ بازاری" یعنی طوائف نے اپنے چاہنے والوں کو تین مختلف فہرستوں میں بانٹ رکھا تھا۔ سب سے اہم ترین لوگ تین تھے، دوسری فہرست تیرہ لوگوں کی تھی، جبکہ اس نے ایک مٹی کے برتن میں ایک لمبی سی سُتلی (دھاگہ)رکھی ہوئی تھی۔ جب کسی ایسے چاہنے والے کا اضافہ ہوتا جسے وہ خاتون پسند کرتی تو وہ اس کے نام کی ایک گرہ سُتلی میں لگا دیتی۔ کہتے ہیں کہ ایک صاحب اپنی محبت کا دعویٰ لئے اس کے پاس آئے، اس نے پہلے انگلیوں پر تین گنے، پھر تیرہ، پھر برتن سے سُتلی نکالی، ایک ایک گِرہ پر ایک ایک عاشق کا نام یاد کیا، سُتلی لپیٹی، برتن میں رکھی، موصوف کی جانب حقارت سے دیکھا اور یہ فقرہ بول کر اسے اسکی حیثیت یاد دلائی کہ "نہ تم تین میں ہو، نہ تیرہ میں اور نہ سُتلی کی گرہ میں "، اس دن سے یہ ضرب المثل بن گئی۔
پاکستان کبھی خود کو امریکہ کے تین یا تیرہ میں شمار کیا کرتا تھا۔ امریکہ بھی اس کا دل رکھنے کے لیے اس پر نظرِ التفات کرتا، کم از کم سُتلی کی گرہوں میں سے ایک گرہ پر اس کا نام ضرور موجود رہتا۔ کبھی پاکستان کی ضرورت زیادہ پڑتی تو سُتلی کی گرہوں سے نکال کر نام تیرہ کی فہرست میں بھی شامل کر دیا جاتا۔ کیمونزم کے خلاف سیٹو سینٹوکے معاہدوں سے لے کر سویت افغان جہاد اوردہشت گردی کے خلاف جنگ تک پاکستان کم از کم مسلسل ان ممالک میں ضرور شامل رہا جو امریکی وفاداروں اور عشاق کی کسی نہ کسی فہرست میں رہا کرتے تھے۔ پاکستان اور امریکی محبت کی ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم سُتلی کی گرہوں سے بھی نکال دیئے گئے ہیں۔ ہم اب امریکہ کے لیے اتنی اہمیت کے قابل بھی نہیں رہ گئے کہ ایک عام سی کانفرنس جوماحولیاتی تبدیلی کے لیے بلائی گئی ہے، اسی میں ہی بلالیا جائے۔ جوبائیڈن نے اس کانفرنس میں چالیس ممالک کے سربراہان کو بلایا ہے، جن میں پاکستان کا نام دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس انتہائی بے ضرر قسم کی کانفرنس میں تین طرح کے ممالک کو مدعو کیا گیا ہے۔
ایک وہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک جن کی معیشتوں کی وجہ سے اس زمین کی فضا آلودہ ہوئی اور ماحول بگڑا۔ یقینا ہم اس فہرست میں نہیں آتے۔ دوسرے وہ ممالک جنہوں نے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے قابلِ تقلید اقدامات کیے۔ ہم اس میں بھی نہیں آتے۔ جبکہ تیسری وہ فہرست ہے جس میں ایسے ممالک شامل ہیں جو ماحول کی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ہم عالمی سطح پر جاری کی گئی وارننگ لسٹ میں ایسے پہلے دس ممالک میں شامل ہیں۔ لیکن ہمیں اس حیثیت سے بھی نہیں بلایا گیا۔ یعنی اب ہماری حیثیت اور اوقات شاید اتنی بھی نہیں رہ گئی کہ ہمیں تباہی کی جانب گامزن اور توجہ کے مستحق ممالک کے طور پر ہی بلا لیا جاتا۔ اس فہرست میں بھوٹان، بنگلہ دیش، گبون، چلی، کانگو، ویت نام اور نائجیریا جیسے غیر اہم ملکوں کے سربراہ تو شامل ہیں لیکن ہم نہیں ہیں۔ کوچۂ عشاق میں بے آبروئی اور رسوائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم چند ماہ پہلے تک افغانستان میں امریکی افواج کے پرسکون انخلاء کے ذمہ دار تھے، طالبان اور امریکہ معاہدے کے اہم ستون تھے، لیکن آج امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن جنوبی ایشیا کے دورے پر آتا ہے تو ہمارے دشمن پڑوسی بھارت میں 19سے 21مارچ تک تین دن گزارتا ہے، پرواز کرتا افغانستان جا پہنچتا ہے اور ہمیں دور سے سلام بھی نہیں کرتا۔ امریکہ پہنچ کر اس کا ایسا بیان سامنے آتا ہے، جس سے مستقبل کی دنیا اور آئندہ کے میدانِ جنگ کا نقشہ واضح ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چین نے اپنی دفاعی صلاحیت کو بہت زیادہ بڑھا لیا ہے اور ہمیں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو لگام ڈالنے کے لیے اپنی دفاعی بالادستی کو مزید بڑھانا ہوگا۔
یہ میدانِ جنگ بہت پہلے سے منتخب ہوگیا تھا۔ اسامہ بن لادن والے واقعہ سے چند ماہ پہلے ہیلری کلنٹن نے فارن پالیسی میگزین میں ایک مضمون تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا "امریکہ آئندہ اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں کہاں لگائے گا"۔ اس مضمون میں ہیلری کلنٹن نے 2011ء میں یہ کہا تھا کہ ہم اب افغانستان سے نکل جائیں گے اور مشرقِ وسطیٰ بھی ہمارے لیے کم اہم ہو جائے گا۔ ہمارا اگلا میدانِ جنگ چین کو روکنے کیلئے مشرقِ بعید (Far East)ہوگا۔ افغانستان سے نکلنے سے پہلے ایک "عالمی فائل "کا بند ہونا بہت ضروری تھا۔ وہ فائل تھی جس پر "اسامہ بن لادن" تحریر تھا۔ دنیا سوال کر سکتی تھی کہ اگر وہ زندہ ہے تو پھر خطرہ تو موجود ہے اور اتنے بڑے خطرے کی موجودگی میں امریکہ افغانستان سے کیوں نکل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے چند ماہ کے اندر 2مئی 2011ء کو ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی "فائل" خاموش کردی گئی اور افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت پاکستان میں کیمرون منٹر (Cameron Munter) امریکی سفیر تھا۔ یہ شخص بعد میں امریکہ کے بہت بڑے تھنک ٹینک"ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ" کا سربراہ بھی رہا ہے۔
یہ انسٹیٹیوٹ امریکی حکومت کو روس، چین، مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور بلقان کی ریاستوں میں موجود تنازعات پر رہنمائی دیتا ہے اور امریکہ اس کی روشنی میں اپنی پالیسیاں مرتب کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیمرون منٹر نے بڑے واضح انداز میں کہا ہے کہ اب پاکستان کاامریکہ کے ساتھ ستر سالہ "رومانس" ختم ہو چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جغرافیائی طور پر اس خطے سے باہر واقع ہے جہاں امریکہ نے آئندہ اپنی جنگ لڑنا ہے۔ یہ خطہ پاکستانی سرحد پر واقع واہگہ سے لے کر نیوزی لینڈ کے مشرقی کنارے ولنگٹن تک ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس پورے خطے کو "ایشیا پیسفک" کا نام دیا جاتا تھا۔ لیکن دسمبر 2019ء سے پینٹاگون کی جانب سے شائع شدہ حکمتِ عملی میں اب جنگ کے میدان کو محدود کرنے کے بعد اسے "انڈو پیسفک" کہا جانے لگا ہے۔ اس خطے کے تین بڑے ممالک آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کا چین کے خلاف امریکہ کے ساتھ عسکری اتحاد ہوچکا ہے۔ یہ اتحاد اس خطے میں جنم لینے والا "نیٹو"ہے۔ اس اتحاد کے اہداف کے حوالے سے خطے میں دوستوں کی جوفہرست مرتب ہوئی ہے اس میں اب پاکستان شامل نہیں۔
پاکستان کو ابھی تک دشمنوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ امریکہ کی ایک ٹانگ ابھی تک افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی ذمہ داری تو اسرائیل کے حوالے ہو چکی ہے کہ اب اسرائیل اسلحہ، سرمایہ اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اس قابل ہوچکا ہے کہ اسے خطے میں امریکہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن افغانستان میں اگر کوئی مخالف آبیٹھا تو پھر کیا ہوگا۔ ہر کسی کو طالبان کے افغانستان سے بہت خوف آتا ہے۔ چار لاکھ امریکی سپاہی جو اس میدنِ جنگ میں پاگل ہو کر امریکہ لوٹے ہیں ان کی شکلیں ہر کسی کو ڈراتی ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا بظاہر انکار تو کردیا گیا ہے، سُتلی کی گرہ سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ لیکن جب تک افغانستان میں طالبان اپنی شمشیر کو بے نیام رکھے ہوئے ہیں پاکستان کو اہمیت کے پائیدان سے کوئی نیچے نہیں اتار سکتا۔