Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Wohi Munsifon Ki Riwayaten

Wohi Munsifon Ki Riwayaten

بھارتی سپریم کورٹ کے جج سید عبدل نذیر 4 جنوری 2023ء کو ریٹائر ہو گئے۔ وہ ٹیپو سلطان کی ریاست میسور کے گائوں بیلو وائی میں ایک انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہوئے اور بمشکل تمام پہلے بی کام اور پھر قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بنگلور کی کرناٹک ہائی کورٹ میں بحیثیت وکیل پریکٹس کر رہے تھے کہ مئی 2003ء کو انہیں اسی ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا جہاں وہ چودہ سال جج رہنے کے بعد سپریم کورٹ کے جج کے مقام تک پہنچ کر ریٹائر ہو گئے۔

جس دن وہ ریٹائر ہوئے اس دن ان کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ نے ان کی تعریف و توصیف میں انگریزی میں ایک لمبی تقریر کی جس کا لبِ لباب اس تقریر کا یہ فقرہ تھا کہ، "The Embodiment of Secularism" یعنی "سیکولر ازم کا اصل مجسمہ"۔ انہیں ایسا کیوں کہا گیا، اور وہ بھی اس بھارتی معاشرہ میں جسے سیکولر ازم ترک کئے ہوئے تقریباً بتیس سال ہو چکے ہیں۔

واجپائی کی وزارتِ عظمیٰ سے لے کر نریندر مودی تک وہاں ایک کٹر شدت پسند ہندو مذہبی حکومت قائم ہے اور ایسے متعصب اور شدت پرست ماحول میں ایک مسلمان جج کو سیکولر ازم کا مجسمہ اس لئے کہا گیا، کیونکہ وہ ان پانچ ججوں میں شامل تھا جنہوں نے 2019ء میں بابری مسجد اور ایودھیا کے رام جنم بھومی والے قضیئے پر فیصلہ سنایا تھا۔ یہ فیصلہ چار ہندو ججوں چیف جسٹس رانجن گوکوئی، جسٹس شرداروند بوہڑی، جسٹس دھنان جایا چندرچد اور اشوک بھوشن اور واحد مسلمان جج جسٹس عبدل نذیر نے سنایا تھا۔

آثارِ قدیمہ کی تمام رپورٹس کے مطابق اس جگہ پر مندر کے کسی بھی قسم کے کوئی نشانات نہیں ملے تھے اور چار سو سالہ مسلمان عبادت گاہ کو 1992ء میں"مجرمانہ فعل" (Criminal Act) کے تحت گرایا گیا تھا۔ لیکن اس مجرمانہ فعل اور شہادتوں کو نظرانداز کر کے ہندوئوں کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔

یہ بات طے ہے کہ اگر وہ چاروں ہندو جج کسی طور پر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سنا دیتے تو پھر وہ کبھی بھی سیکولر نہیں کہلاتے بلکہ انہیں"دھرم بھرشٹ" کہہ کر پورے بھارت میں ذلیل و رُسوا کیا جاتا۔ لیکن مسلمان جج عبدل نذیر نے چونکہ ہندوئوں کے موقف کے حق میں فیصلہ دیا تھا، اسی لئے اسے سیکولر کہہ کر پکارا گیا۔ اگرچہ کہ یہ فیصلہ متفقہ تھا مگر اس پر صرف بھارت ہی نہیں پورے مغربی میڈیا کے سنجیدہ قانونی حلقے آج تک مسلسل تنقید کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن بھارت کے معاشرے میں انصاف کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ بار کے صدر نے اپنی اسی تقریر میں ایک خوفناک سچ بولا۔ اس نے کہا کہ جسٹس نذیر نے "بھارتی قومیت" کو انصاف پر ترجیح دی۔ یعنی بھارت کی اکثریت اگر ظلم کرنا چاہتی ہے، بے انصافی کی خوگر ہے تو پھر سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی ہرگز انصاف نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فیصلے کرنا چاہئیں۔

بات اگر اس فیصلے کی حد تک ہی ختم ہو جاتی تو ہم عدالتوں میں دیئے گئے عمومی فیصلوں کی طرح اس فیصلے کو بھی کسی جج کی ذاتی رائے سمجھ کر خاموش ہو جاتے اور خیال کرتے کہ ایک مسلمان جج اگر اختلافی نوٹ لکھ بھی لیتا تو اس سے کیا فرق پڑنا تھا، زیادہ سے زیادہ فیصلہ متفقہ نہ رہتا۔ پھر ایک اقلیتی فرد ایسا کر کے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالتا۔ ہر شخص اتنا طاقتور اور بہادر نہیں ہوتا کہ انصاف کے لئے جان خطرے میں ڈال دے۔ لیکن اصل معاملہ تو ریٹائرمنٹ کے بعد کھلا جب نریندر مودی نے جسٹس عبدل نذیر کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد آندھرا پردیش کا گورنر لگا دیا اور 23 فروری کو بھارت دھرتی کے اس "سپوت" نے حلف بھی اٹھا لیا۔ سیکولر ازم کا یہ مجسمہ گورنر شپ کی رشوت کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔

عدالتوں کے سابقہ جج کیوں نوازے جاتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تو ان کے ہاتھ میں وہ میزانِ عدل بھی نہیں رہتی کہ وہ آئندہ کسی شخص کے کام آ سکے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جرنیل ہوں یا اقتدار پر متمکن سیاست دان، دونوں کی نگاہِ انتخاب انہی ججوں پر ہی پڑتی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اعلیٰ عہدے دینا دراصل وہ انعامات ہیں جو ان کے کسی گذشتہ "کارہائے نمایاں" کے طور دیئے جاتے ہیں۔

یہ کارہائے نمایاں وہ کرسی ٔ عدالت پر متمکن ہونے کے دوران سرانجام دے چکے ہوتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اعلیٰ عہدے دینے سے باقی ججوں کے لئے بھی ترغیب پیدا ہوتی ہے کہ اگر تم بھی اپنی نوکری کے دوران "اچھی" کارکردگی دکھائو گے تو پھر دیکھو! ریٹائرمنٹ کے بعد تمہارا مستقبل بھی بہت روشن ہوگا۔ یہ روایت بھارت میں تو تھوڑی بہت ہے، لیکن ہم اس میں درجہ کمال رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ججوں کو "بعد از نوکری" نوازنے کی یہ روایت بہت مضبوط جڑوں پر طویل مدت سے اُستوار ہے۔

جسٹس رفیق تارڑ کو صدرِ پاکستان، جسٹس نسیم حسن شاہ کو چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ، جسٹس سعیدالزمان صدیقی کو عالمِ مرگ میں گورنر سندھ اور جسٹس جاوید اقبال کو چیئرمین نیب لگانے جیسی بے شمار نوازشات اور لطف و کرم، شریف خاندان کا طرّۂ امتیاز ہے۔

پاکستان کی گذشتہ پچھہتر سالہ تاریخ سابقہ ججوں کو اعلیٰ انتظامی عہدے بخشنے سے بھری پڑی ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان کے اس پچھہتر سالہ زوال میں شریف خاندان کا مجموعی حصہ تقریباً ایک تہائی بنتا ہے، اس لئے اس جرم میں ان کا حصہ بھی سب سے زیادہ ہے۔ دیگر سیاست دانوں اور جرنیلوں کی نسبت یہ خاندان اوّل مقام پر فائز ہے۔ انہوں نے اپنے مختلف ادوار میں پاکستان کے دیگر لاتعداد طبقات کو بھی نوازنے میں کمال دکھایا ہے۔

یہ طبقات وہ تھے جن کے ہاتھ میں اس ملک کے فیصلے تھے، یا وہ فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہوں۔ اس بہتی گنگا میں وہ بھی خوب نہائے جو رائے عامہ تخلیق کرتے تھے اور حرمتِ قلم کے پاسبان کہلاتے تھے۔ فیصلے صرف عدلیہ نہیں کرتی بلکہ فیصلوں کا آغاز تو تھانے میں ایس ایچ او اور پٹوار خانے میں پٹواری سے ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں کاروباری گھرانوں کے افراد کی عمومی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ انہوں نے ان "فیصلہ ساز" لوگوں کو کیسے شیشے میں اُتارنا ہے۔ انہی فیصلہ ساز لوگوں کی سرپرستی میں ہی وہ اپنی مِل، کارخانے، دُکان یا کاروبار میں من مانی کر سکتے ہیں، اپنے ورکروں پر ظلم کر سکتے ہیں، مال میں دو نمبری کر سکتے ہیں، بجلی چوری سے لے کر ایکسائز ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کر سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک ایسے تمام افسران کی مالی خدمت، جسمانی آسودگی اور ذہنی لذت کا حسبِ ذوق، خاطر خواہ خیال نہ رکھا جائے۔ اسی لئے کاروباری دنیا سے میدانِ سیاست میں کودنے والا شخص ایک ہو یا پورا خاندان وہ ان تمام مہارتوں میں طاق ہوتا ہے۔

آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے مشہور فلسفی و ماہر علمِ سیاسیات افلاطون (Plato) نے اپنی کتاب "الجمہوریہ " (The Republic) میں لکھا تھا کہ "تباہ ہوگئیں وہ قومیں جن کے سربراہ کاروباری افراد تھے یا جرنیل ہوئے"۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی تباہی کے لئے ہمیں دہرا سامان میسر ہوا، ہم پر کاروباری حضرات بھی مسلّط رہے اور جرنیل بھی۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.