Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Yahood Ka Agla Hadaf, America

Yahood Ka Agla Hadaf, America

آج سے ایک سو سال قبل آٹو موبائل کاروں، بسوں، اور ٹرکوں کی صنعت کے بانی ہنری فورڈ (Henry Ford) نے امریکی قوم کو یہودیوں کی چالوں سے خبردار کرنے کے لئے جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل مضامین لکھے تھے، یوں لگتا ہے ان کی حقیقتوں کے سچ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

اس نے یہ مضامین 1920ء میں اپنے ہی اخبار "ڈیربورن انڈی پینڈنٹ" (The Dearborn Independent) میں چھاپنے شروع کئے اور ساتھ ہی وہ انہیں پمفلٹوں کی صورت بھی تقسیم کیا کرتا تھا۔ یہ تمام مضامین دراصل ایک گفتگو کی صورت میں تحریر کئے جاتے جو ہنری فورڈ کا ذاتی سیکرٹری ارنسٹ جی لی بولڈ (Ernest G. Liebold) اس سے سوالات کی صورت پوچھتا ہے اور پھر ان سوالات کے جوابات کو یہودیت کے سوال (Jewish Question) کے طور پر مرتب کرکے چھاپتا تھا۔

اس اخبار کے اکیانوے (91) ہفتہ وار شمارے شائع ہوئے جن کے ایک کونے پر یہودیوں کی شیطانیت (Jewish Evil) لکھا ہوتا تھا۔ اخبار کا ایڈیٹر ای جی پیپ (E. G Pipp) ان مضامین کی اشاعت کے آغاز میں ہی احتجاجاً چھوڑ گیا کہ اس کے نزدیک یہ یہودیوں کے خلاف ایک پروپیگنڈہ مہم تھی۔ اس کے بعد ایک صحافی کیمرون (Cameron) نے یہ منصب سنبھالا۔ اس ذہین صحافی کے آنے کے بعد ہنری فورڈ کے لئے مزید آسانی پیدا ہوگئی۔ وہ صرف گفتگو کرتا اور کیمرون اس کے سیکرٹری لی بولڈ کے ساتھ مل کر اسے ایک شاندار مضمون کی شکل دے دیتے۔

یہ سلسلہ 22 مئی 1920ء سے 2 اکتوبر 1920ء تک چلتا رہا اور پھر اسے عالمی یہودی (international Jew) کے نام سے ایک کتاب کی صورت شائع کیا گیا جو اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کے پہلے ایڈیشن کی پانچ لاکھ کاپیاں بک گئیں۔ کتاب کے شائع ہوتے ہی نیویارک کے یہودی بینکار جو وال سٹریٹ پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے اور اس ساتھ ساتھ امریکہ کے پیشتر کپاس کے فارمز بھی ان کی ملکیت تھے، انہوں نے سان فرانسسکو کی ایک یہودی کوآپریٹو فرم آرون سیپریو (Aron Sapiro) کے ساتھ مل کر ہنری فورڈ اور اس کے اخبار "ڈیر بورن" پر ہتکِ عزت کا مقدمہ کر دیا۔

عدالت کے سامنے ایڈیٹر کیمرون نے ان مضامین کو اپنے ذہن کی اختراع قرار دے کر ہنری فورڈ کو بچانے کی کوشش کی، لیکن امریکی عدالتوں اور سیاسی نظام پر یہودیوں کا خوف ایسا تھا کہ ہنری فورڈ کو امریکی عوام کے سامنے عام معافی مانگنا پڑی اور ساتھ ہی اس نے 31 دسمبر 1927ء کو اپنا اخبار "ڈیربورن انڈی پینڈنٹ" بھی بند کر دیا۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپ بھی یہودیوں کا معاشی کنٹرول بھگت رہا تھا اور جرمن قوم اس سے بہت زیادہ متاثر تھی۔ جنگِ عظیم اوّل میں شکست کے بعد جرمن سیاست دان اور نازی رہنما بالدر وون شیراچ (Baldur Von Schirach) نے یہ کتاب پڑھی اور پھر اسے 1922ء میں جرمن زبان میں ترجمہ کروا کر چھاپا۔ اس نے اس کے سرورق پر لکھا، "میں نے اسے پڑھا اور میں یہودیوں کا مخالف (Anti Semitic) ہوگیا۔

جنگِ عظیم اوّل کے بعد جرمن اقوام کو شکست کی شرمندگی سے نکالنے والے عظیم لیڈر ہٹلر نے کہا تھا کہ ہنری فورڈ میرے لئے ایک روحانی تحریک (inspiration) کا باعث ہے۔ وہ فورڈ کو "واحد عظیم آدمی (Great Single Man) کا لقب دیتا تھا۔ ہٹلر نے اپنے میونخ کے دفتر میں ہنری فورڈ کا بہت بڑا پورٹریٹ لگا رکھا تھا اور دفتر میں ایک چھوٹی میز پر اس کی کتاب کی لاتعداد کاپیاں پڑی ہوتی تھیں۔ مدتوں یہ کتاب امریکہ میں نہیں چَھپ سکی۔

جنگِ عظیم دوم کے بعد 1949ء میں اس کی تخلیص برطانیہ سے شائع ہوئی اور اسے امریکہ میں لا کر بیچا گیا، مگر اسے ایک منصوبے کے تحت مارکیٹ سے غائب کر دیا گیا۔ اس کے بعد امریکی سیاست اور معیشت پر یہودیوں کا ایسا قبضہ ہوا کہ یہ کتاب تو دُور کی بات ہے، یہودیوں کے خلاف گفتگو تک کرنا بھی خود کو مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ہوگیا۔ جو کوئی بھی ہولو کاسٹ کے مظالم کے بارے میں یہودیوں کے گھڑے ہوئے افسانوں کو چیلنج کرتا تو اسے نہ صرف امریکہ، بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتیں۔ اس کے بالکل برعکس یہودیوں نے امریکی قوم کے سینے، یعنی واشنگٹن میں ایک بہت بڑا ہولو کاسٹ میوزیم قائم کرکے اپنی گھڑی ہوئی تاریخ کو مسلسل زندہ رکھا۔

ہنری فورڈ کی یہ کتاب دراصل ایک وارننگ تھی کہ یہودی ایک دن پورے امریکہ پر قبضہ کر لیں گے اور پھر وہ اسے برباد کرکے اپنے مقدس وطن لوٹ جائیں گے۔ لوگ اسے ایک پروپیگنڈہ سمجھتے تھے، لیکن جیسے ہی گیارہ ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو ایک بار پھر اس کتاب میں دی گئی وارننگ لوگوں کے اذہان میں زندہ ہوگئی۔

یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو 2002ء میں کوالالمپور ملائیشیا سے شائع کروایا گیا، مگر جیسے ہی یہ امریکہ پہنچی اسے پھر مارکیٹ سے غائب کر دیا گیا۔ اس کے بعد 2008ء کا معاشی بحران آ گیا۔ صرف پراپرٹی سیکٹر کا ایک بلبلہ پھٹا (Bubble Burst) اور دنیا بھر کا سودی بینکاری نظام ڈوب کر رہ گیا۔ دبئی میں بڑے بڑوں کا سرمایہ ایسے تباہ ہوا کہ لوگ گاڑیوں میں چابیاں لگائے، انہیں ایئر پورٹ پر چھوڑ کر بھاگ گئے۔

یہ بحران اتنا شدید تھا کہ آج پندرہ سال کے بعد بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شرح سود ایک فیصد سے زیادہ نہیں بڑھائی جا سکی۔ وہ تو بھلا ہو اسلامی بینکنگ سسٹم کا جسے شاید یہودی بینکاروں نے اسی دن کے لئے تیار کروایا تھا، اس نے اس سودی معیشت کو تباہ ہونے سے بچایا اور اسے دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔ مگر اس دفعہ وار بہت کاری ہے اور بہت مشکل ہے کہ امریکی معیشت اب اپنے مکمل زوال سے بچ سکے۔

گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ کو افغانستان اور عراق میں اُلجھا کر اس کی معیشت سے اسلحہ سازی کمپنیوں نے سرمایہ نچوڑا اور قوم کو مقروض کر دیا۔ ابھی امریکہ جنگ سے نکلا ہی تھا کہ اسے یوکرین کا محاذ کھولنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس محاذ کو کھولنے کے دو مقاصد تھے۔

یہودی یورپ سے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ڈیڑھ ہزار سال کے مظالم کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اور دوسرا مقصد امریکہ کی معیشت کو تباہ کرکے اس کی جگہ عالمی لیڈر کے طور پر اسرائیل کو پیش کرنا ہے۔ ابھی جنگ کا آغاز ہی ہوا ہے اور وہ ڈالر جو کبھی دنیا کی معیشت کا سٹینڈرڈ سمجھا جاتا تھا مسلسل زوال پذیر ہے۔ برازیل، ملائیشیا اور روس مل کر چینی کرنسی کے ذریعے متبادل مالیاتی نظام لا رہے ہیں۔ دنیا جس کی نوے فیصد تجارت کبھی ڈالر میں ہوتی تھی اب گھٹ کر ساٹھ فیصد تک رہ گئی ہے۔ اب امریکہ کا بینکنگ سسٹم تباہ (Collapse) ہونے جا رہا ہے۔

امریکہ میں اس وقت ایک اکائونٹ میں پڑے ہوئے صرف ڈھائی لاکھ ڈالر ہی کی حکومتی ضمانت (insurance) باقی رہ گئی ہے۔ اس سے زیادہ اگر آپ کے بینک میں ڈالر موجود ہیں تو وہ ایک ردّی کاغذ کا ٹکڑا ہیں، امریکی خزانہ اس کا ذمہ دار نہیں۔ اس کے مقابل میں اسرائیل دنیا کا اسلحہ بیچنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

نوے فیصد ڈرون اسرائیل میں بنتے ہیں۔ اس معاشی زوال میں تین یا چار بڑے بینک چھوٹے بینکوں کو کھا جائیں گے اور جب صرف یہی تین یا چار بینک رہ جائیں گے تو پھر انہی چار بینکوں کے ہیڈ کوارٹر اسرائیل منتقل ہو جائیں گے۔ جب ایسا ہوگیا تو پھر دنیا کا معاشی دارالحکومت نیویارک سے تل ابیب منتقل ہو جائے گا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.