مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ شہباز شریف ایک انتہائی غیر اہم قسم کی کانفرنس میں شرکت کے لئے مصر جا رہے ہیں جبکہ پورا پاکستان ہنگاموں کی زد میں ہے اور بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص پریشان نظر آتا ہے۔ ایسے میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے ہونے والی اس کانفرنس میں جہاں سوائے "نشتند، گفتند و برخاستند" کے کچھ نہیں ہو گا، وہاں پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کا جانا حیرت میں ضرور ڈالتا ہے۔
خبر یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہاں امریکی صدر جوبائیڈن اور برطانوی نومنتخب وزیر اعظم رشی سوناک بھی آئیں گے اور اس کانفرنس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شہباز شریف، ان دونوں سے یا دیگر حکمرانوں سے ملاقات کر پائیں گے۔ ایسی ملاقاتیں عموماً غیر رسمی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں دفتر خارجہ کی جانب سے کوئی طے شدہ ایجنڈا بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان اس وقت جس طرح کے معاشی، سیاسی اور امن عامہ کے بحران سے گزر رہا ہے، وزیر اعظم کو تو نیند نہیں آنی چاہئے جبکہ یہ محترم دو روز کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
مصر کے دورہ کا راز مجھ پر اس وقت کھلا جب میں 2008ء میں عالمی ادارۂ صحت کی ایک کانفرنس کے سلسلے میں مصر گیا۔ افتادِ طبع اور کھوج لگانے کی عادت مجھے قاہرہ کے گلی محلوں میں لئے پھرتی رہی۔ ایک دوست نے مجھے ایک مصری ریٹائرڈ افسر کو میرے لئے گائیڈ کے طور پر حوالے کر دیا تھا، جو کارِسرکار میں بہت اہم جگہ تعینات رہ چکا تھا۔ اس کے تجربے کی وسعت دیکھ کر میں نے اس سے اس وقت کے صدر حسنی مبارک کے طویل اقتدار کی وجہ دریافت کی تو وہ فوراً بول اُٹھا "کہ بس چل چلائو ہے، ایک دو سال مزید"۔
یہ فقرہ اس نے ایسے وقت بولا جب اس نے گاڑی ایک سٹیڈیم کی سیڑھیوں کے سامنے روکی اور پھر کہا، یہ ہے وہ جگہ، جہاں پریڈ کے دوران انور السادات کو قتل کیا گیا تھا۔ میرا تجسّس بڑھ گیا، میں نے پوچھا کیا یہ بھی ویسے ہی جائے گا۔ اس نے کہا اب ایسی واردات کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے، لیکن اس کے خلاف عوام میں لاوا بہت پک رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، سادات کے قتل کے الزام میں تو ایمن الظواہری بھی گرفتار ہوا تھا۔ اسے میری معلومات پر حیرت ہوئی اور پھر وہ کھل گیا۔
ہم دونوں اس محلے میں جا نکلے جہاں کبھی ماہر امراضِ جلد ایمن الظواہری کا کلینک ہوا کرتا تھا۔ آج بھی اس کے خاندان کے لوگ وہیں آباد ہیں۔ اس علاقے کی فضا یوں لگتا تھا کسی انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ حسنی مبارک کی طویل حکومت سے تنگ آئے جوان، بوڑھے اور عورتیں باتیں تو کرتے تھے لیکن دبے لہجے میں۔ لگتا تھا کہ یہ آتش فشاں ایک دن پھٹ جائے گا۔
میرے اس سفری رہنما نے جو مصر کی خفیہ ایجنسی "المخابرات" میں اچھے بڑے عہدے پر رہ چکا تھا، مجھ سے ایک سوال کیا جس کا بظاہر میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے کہا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستانی حکام بار بار مصر کیوں آتے ہیں اور اپنے ساتھ بے شمار اہل کاروں کو بھی لے کر آتے ہیں۔ سوائے اس بات کہ مصر ایک تہذیبی مرکز رہا ہے اور ہر کسی کو اہرامِ مصر اور فراعین کے آثار سے دلچسپی ہوتی ہے، میرے پاس کوئی دوسری وجہ نہیں تھی۔
اس نے کہا، صرف پچیس فیصد کی حد تک تمہاری بات درست ہے لیکن پچھہتر فیصد معاملہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے پاکستانی قیادت مصر کے حکمرانوں سے یہ سیکھنے میں مصروف ہے کہ اتنی جاندار اور انقلابی تحریک "اخوان المسلمون" کو کچلنے کے ساتھ ساتھ اقتدار کو طول کیسے دیا جاتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ اخوان کو تو جمال عبدالناصر نے کچلا تھا جو ایک ایسے دور میں مصر کا حکمران بنا تھا جب پوری دنیا دو عالمی طاقتوں کی کشمکش کی وجہ سے دو گروہوں میں تقسیم تھی اور ناصر سوویت یونین کے گروپ میں تھا اور اسے روس کی آشیر باد حاصل تھی جبکہ ہم تو ہمیشہ سے رہے امریکہ کے اتحادی۔
ہم بھلا اس سے سیکھنے کیوں آتے؟ اس نے کہا دیکھو میرا نام نجیب ہے اور تمہیں مصر میں میری عمر کے بیشمار مردوں کا نام نجیب ملے گا۔ جنرل نجیب وہ شخص تھا جس نے مصری فوج کے چند افسران کو ملا کر "حرکتہ الصباط الاحرار" بنائی تھی جسے اُردو میں"آزاد افسران تحریک" کہتے ہیں۔ یہ 1952ء کا زمانہ تھا جب مصر کی حکومت برطانوی خفیہ ایجنسی کے ہاتھ میں یرغمال تھی اور عوام میں نہر سویز پر مصر کے قبضے کیلئے ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ فوج کے اس گروہ نے عوامی جذبات سے فائدہ اُٹھا کر قاہرہ میں شاہ فاروق کے محل پر قبضہ کر لیا، اسے جلاوطن کرنے کے ساتھ ساتھ تمام برطانوی افواج اور فوج میں برطانیہ کے ہمدردوں کو بھی فارغ کر کے، جنرل نجیب کو صدر بنا دیا گیا۔
یوں 1882ء میں برطانیہ نے نہر سویز پر جو قبضہ جمایا تھا وہ ختم ہو گیا۔ لوگ بہت خوش تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اب مصر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر جگمگائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ان فوجی افسران نے عوامی سطح پر اخوان کے مقابلے میں قوم پرست خیالات کے تحت قاہرہ میں لبریشن ریلی نکلوائی جس نے "اخوان المسلمون" کے دفاتر پر حملے کئے اور شہر میں دونوں کے درمیان بہت بڑا فساد برپا ہوا۔ اس فساد کا بہانہ بناتے ہوئے اخوان المسلمون پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن عالمی قوتیں پابندی نہیں بلکہ اخوان کا قلع قمع چاہتی تھیں، اب کرنل جمال عبدالناصر نے یہ بہانہ بنایا کہ نجیب چونکہ اخوان سے نرمی برت رہا ہے، اس لئے خود اقتدار پر قابض ہو گیا۔
عرب قوم پرستی کا جنون، کیمونسٹ انقلاب کے نعرے اور امریکہ مخالف عرب دنیا کے لیڈر ہونے کی وجہ سے اس کے دور میں اخوان المسلمون پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لاکھوں شہید کر دیئے گئے۔ حسن البناء کا قتل اور سید قطب کی پھانسی بہت بڑے واقعات تھے، لیکن اس کے باوجود مصری فوج کا عوام پر غلبہ مستحکم رہا اور ہر اُٹھنے والی آواز کو دبا دیا گیا۔ مصر کے 2008ء کے اس دورے نے مجھے بے شمار حقیقتوں سے آگاہ کیا، لیکن میں نے وہاں کی مذہبی قیادت میں ایک انقلابی جذبہ دیکھا اور لگتا تھا آتش فشاں پھٹنے والا ہے۔
ٹھیک تین سال بعد ایک دن میں بیروت کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ میں بیٹھا اس انسٹیٹیوٹ کے یہودی سربراہ سے بحث کر رہا تھا کہ مصر میں اس وقت جو تحریک اُٹھی ہے، وہ اسلام کے نفاذ کے لئے ہے اور اس کے پسِ پردہ اخوان ہیں، اس نے کہا نہیں یہ عرب قوم پرست تحریک ہے۔ بحث بے نتیجہ تھی لیکن اس تحریک نے حسنی مبارک کو اتار باہر کیا۔ الیکشن ہوئے اور اخوان المسلمون بھاری اکثریت سے جیت گئی اور مرسی اقتدار پر فائر ہو گیا۔
24 جون 2012ء کو صدر منتخب ہونے والا مرسی صرف دس ماہ بعد اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور دو اہم اداروں فوج اور عدلیہ نے مل کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عادل منصور کو صدارت کا حلف اٹھوا دیا۔ اس کے بعد پھر اسی طرح کے ظلم کا آغاز کیا گیا جیسا ناصر نے اخوان پر کیا تھا۔ چیف جسٹس جو عبوری حکومت کے سربراہ تھے انہوں نے مرسی کا آئین ختم کر کے خود ایک آئین بنا کر نافذ کیا اور فوج نے ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے 98 فیصد ووٹوں سے اسے منظور کروایا۔ اس آئین کے تحت ریٹائرڈ فیلڈ مارشل سسی کو صدر منتخب کروا دیا گیا۔ اس دوران مصر کا مقبول رہنما اور سابقہ وزیر اعظم مرسی جیل میں انتقال کر گیا۔
آج مجھے نجیب کی بات یاد آ رہی ہے جو اس نے ابوالہول کے مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر کہی تھی۔ اس نے کہا تھا، مصر کی عوام صدیوں سے ان فراعین کے زیرِ سایہ رہنے کے عادی ہیں، اس لئے بہت جلدی دبا لئے جاتے ہیں۔ میں پاکستان سے آنے والے افسران سے ہمیشہ یہ کہتا تھا اگر تم ہماری مہارتیں اپنے عوام پر استعمال کرو گے تو پھر عوام بھی ہمارے جیسے لانا ہو ں گے۔ پاکستانی عوام مصر کی عوام سے بہت مختلف ہے۔