یہ پاکستان ہے، دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت اور ساتویں طاقتور ترین فوج کاحامل پاکستان۔ بلحاظ آبادی دنیا کے پانچویں بڑے اِس ملک میں قحط الرجال کا یہ عالم کہ کوئی سریح الفکر نہ صحیح النظر اور نہ ہی صاحبِ ادراک۔ رَہنماؤں کی یہ حالت کہ اپنوں کے لیے "حریر و پرنیاں" نہ حلیمی کے گلستان، مگر زورآوروں کے دَرپر سجدہ ریزی کے لیے ہمہ وقت تیار۔ خوف کی تنی چادر سے جھانکتے رَہنماؤں کی سماعتوں پر غزہ کے معصوموں کی آہ وبقا گرتی ہے نہ کشمیر کی برہنہ سَر بیٹی کی صدا۔
زنگ آلود زبانوں پر ہیبتوں کے ڈیرے دہشتوں کے بسیرے۔ ایمان وایقان کی بنیادوں کو عالمی دہشت گرد اسرائیل کے خوف کا گھُن چاٹ چکاجو آقا ﷺ کے فرمان کے مطابق کمزور ترین ایمان کی نشانی۔ اُس قادرِمطلق کا حکم "کہو! کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا سرپرست بنالوں؟ اُس اللہ کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے" (سورۃ الانعام آیت 14)۔ ہم مگر کبھی آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز اور کبھی ورلڈ بینک کے آگے جھولی پھیلاتے ہوئے۔ اِس لیے یہ طے کہ اِن کشکول بدست رَہنماؤں سے تسخیرِ کوہِ الم کی اُمید عبث، بیکار۔
آج اگر غزہ کے معصوم بچوں کی جھلمل آنکھوں میں ٹمٹماتے جگنو عالمی دہشت گردوں کے اذہان وقلوب میں ارتعاش پید ا نہیں کر رہے تو کیا ہوا اُس سبوح و قدوس کی لوح پر تو درج ہوچکے جس کی رسّی دراز مگر پکڑ سخت۔ اِن زمینی خُداؤں کا "ہولوکاسٹ" پر زباں بندی کا حکم تو صادر ہو چکا مگر کیا اُس جبار و قہار کے ہاں یہ "مرگِ انبوہ" درج نہیں ہوچکی ہوگی؟
یہ پاکستان ہے جس نے "خونِ صد ہزار انجم" کے بعد دھرتی پر اِس وعدے کے ساتھ جنم لیا کہ ہم اِسے "اسلام کی تجربہ گاہ" بنائیں گے مگر اسلام ہے کہاں؟ یہ وہی پاکستان ہے جسے ربِ کائنات نے دنیا کی ہر نعمت سے نوازا مگر اناؤں کے اسپِ تازی پر سوار، نرگسیت کے شکار رہنماؤں کے ہاتھوں اِس کی وہ دُرگت بنی کہ اب یہاں افلاس اُگتی ہے۔ جہاں ترقی معکوس کے جاری سفر کے درمیاں آنکھوں میں ساون رُت اور لبوں پر بھوک ڈھلتی ہے۔
جہاں لڑکھڑاتی حسرتوں کے درمیاں سپنوں کے محل سجانے والے ریت کے گھروندے پاکر یہ سوچنے پر مجبور کہ کیا اِسی آزادی کی خاطر لاکھوں جانوں اور ہزاروں عصمتوں کی قربانی دی گئی؟ کیا یہی وہ "اسلامی جمہوریہ" ہے جہاں عدل کا پہیہ اُلٹا گھومتاہے حالانکہ رَبِ لم یزل نے تو اِس کائنات کی بنیاد ہی عدل پر رکھی ہے۔ سورۃ الحدید آیت 25 ارشاد ہوا "ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں"۔
لاریب اسلام دینِ فطرت ہے جس میں توازن، تناسب اور اعتدال کا نقش نمایاں۔ عدل صفاتِ ربی میں سب سے ممتاز صفت ہے جو آفرینش کے تمام مظاہر میں دکھائی دیتاہے۔ عدل کی اہمیت کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتاہے کہ یہ لفظ فرقانِ حمید میں 26 مقامات پر بیان ہوا ہے اور اِس کی مترادف اصطلاح قسط 22 مرتبہ آیا۔ سورۃ اعراف آیت 18 میں ارشاد ہوا "ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے"۔ ہمارے ہاں مگر یہ معیار کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق عدل کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے 139ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر۔ جسٹس منیر سے جسٹس عمر عطا بندیال تک "نظریہئی ضرورت" جاری وساری۔ سات عشروں سے زائد گزر چکے مگر میزانِ عدل کا پلڑا ہمیشہ زورآوروں کی طرف ہی جھکتا رہا۔
دینِ مبیں میں تو مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی بے اعتدالیوں کا مداوہ یوں کیا کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، غلاموں، مزدوروں، یہاں تک کہ جانوروں اور فصلوں کے ساتھ بھی حق و انصاف کی تعلیم دی۔ یہی نہیں بلکہ دینِ مبیں میں قانون سب کے لیے مساوی جس میں رنگ ونسل، حسب ونسب، آقا و غلام اور دین ومذہب کی کوئی قید نہیں۔ ارشاد ہوا "اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو، اللہ تعالیٰ کی طرف کی گواہی دواگرچہ اپنی ذات کے خلاف ہو یا ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ اگر کوئی مالدار ہے یا فقیر اللہ تعالیٰ اُن کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے۔ تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرنا" (سورٰ النساء آیت 135)۔ ہمارے ہاں معاملہ مگر اُلٹ کہ دھن دولت ہو یا میزانِ عدل سب گِدھ سرشت اشرافیہ کے خونی جبڑوں میں۔
ارشاد رَبی ہے "اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتاہے اور بدی، بے حیائی اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو" (النحل 90)۔ اِس مختصر آیت مبارکہ میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیاہے جو پورے انسانی معاشرے پر محیط ہیں۔ پہلی چیز عدل جس کا تقاضہ توازن اور تناسب ہے۔ اِس حکمِ ربی کا تقاضہ ہے کہ حاکمِ وقت ہر شخص کو اُس کے معاشی، معاشرتی، اخلاقی، سیاسی اور تمدنی حقوق پوری ایمانداری سے ادا کرے۔ دوسری چیز احسان جس کا تقاضہ رواداری، فیاضی، خوش خلقی اور ایک دوسرے کے حقوق کا پاس و لحاظ ہے۔ تیسری چیز صلہ رحمی جس کا مطلب یہ کہ ہر صاحبِ استطاعت اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور خاندان ہی کا حق نہ سمجھے بلکہ اپنے قرباء کے حق کو بھی تسلیم کرے۔
ہمارے ہاں مگر طبقاتی کشمکش عروج پر اور مفلسوں کا رزق اشرافیہ کے پنجوں میں۔ حضورِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص مسلمانوں کا حاکم بنا اور اُس نے اِس کے ساتھ خیانت کی اور مر گیا تو اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام کردے گا"۔ یہاں مگر سیاست تجارت میں ڈھل چکی اور ذاتی اغراض و مقاصد کشید کرنے والے گلی گلی۔ پھر یہ گلہ کیوں کہ ہماری دعائیں مستجاب نہیں ہوتیں؟ بجا! مگر کیا ہم شکرگزار قوم ہیں؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت 8 میں طے کر دیا "اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے"۔
یہی بات حضورِ اکرمﷺ نے یوں فرمائی "اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو اُس سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے۔ جب وہ شکر ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اُن کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کرے تو وہ اُن کی نعمت کو اُن پر عذاب بنا دیتا ہے" (مفہوم)۔
بنی اسرائیل کی مثال ہمارے سامنے جسے اللہ نے بیشمار نعمتوں سے نوازا، فرعون سے نجات دلائی، من وسلویٰ اُتارا، شہر مسخر کیا اورباربار معاف بھی کیا لیکن جب اِس قوم نے ناشکری اور روگردانی کی انتہا کردی تو ہمیشہ کے لیے راندہئی درگاہ کر دیا۔ زمین کا یہ ٹکڑا جس میں ہم بَس رہے ہیں نعمتِ خُداوندی ہے اور شکرانِ نعمت ہمارا فرض مگر ہم نے زمینی خُداؤں کو ہی اپنا آقا و مولا اور محسن و مُنعم سمجھ لیا۔ ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم نے بھی وہی راہ تو اختیار نہیں کرلی جس پر چل کر بنی اسرائیل راندہئی درگاہ ہوئے۔