8فروری 2024ء کے عام انتخابات سے شکوک وشبہات کی دھند آہستہ آہستہ چھَٹ رہی ہے۔ باوجودیکہ 28 ہزار سے زیادہ انتخابی میدان میں اُترنے والے گھوڑے تیاریوں میں ہیں اور الیکشن کمیشن اُن کی جیبوں سے لگ بھگ 70 کروڑ روپے نکلوا بھی چکا پھربھی کہیں کہیں سے انتخابات کے التوا کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ بہرحال الیکشن کمیشن سمیت پاکستان کی مقتدر ترین ہستیاں 8 فروری کوہی انتخابات کروانے کے لیے یکسو ہیں۔ اِس لیے اُمیدِواثق کہ مقررہ تاریخ پرہی عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا البتہ تاحال انتخابی گہماگہمی شروع نہیں ہوئی۔ شاید سیاسی جماعتیں اپنااپنا میمنہ میسرہ درست کر رہی ہوں۔
پہلے لیول پلینگ فیلڈ کابہت شور تھا جواب آہستہ آہستہ دَم توڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے تحریکِ انصاف کے "کاریگروں" نے شورتو بہت مچایا اور جھوٹ کی آڑھت بھی سجائی کہ تحریکِ انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی لیکن حقیقت اِس کے برعکس کہ تحریکِ انصاف کے لگ بھگ 2800 اُمیدوار میدان میں ہیں جن میں عمران خاں سمیت پی ٹی آئی کے مفرور رَہنماء بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ موجود کہ کوئی مفرور شخص انتخاب میں حصہ لے سکتاہے نہ سزایافتہ۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خاں 5 سالوں کے لیے نااہل قرار دیئے جاچکے ہیں۔ اب اگر سکروٹنی اور اعتراضات کے بعدیہ لوگ نااہل قرار پاتے ہیں تو ایک دفعہ پھر شور اُٹھے گاکہ لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریکِ انصاف انتخابی میدان میں نہیں؟ کیا عمران خاں کی عدم موجودگی میں تحریکِ انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیاگیا ہے؟ جواب اگر نہیں میں ہے توپھر 2002ء سے 2018ء تک کے 4 عام انتخابات میں سے 3 میں میاں نوازشریف کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ اِس کے باوجود بھی نوازلیگ انتخابی میدان میں ڈَٹ کر کھڑی رہی۔ اب اگر عمران خاں نااہل قرار پاچکے تو کیا لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا بہانہ بنایا جائے گا؟
عمران خاں کے چاہنے والے اگر تعصب کی عینک اُتارکر اپنی یاداشت پر زور دینے کی زحمت گوارا کریں تو اُنہیں نظر آجائے گاکہ خاں صاحب نے جب سے کارزارِ سیاست میں قدم رکھا ہے ملکی حالات متزلزل ہی ہوتے چلے گئے۔ شاید اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ سیاست کا میدان کرکٹ کا میدان نہیں ہوتا۔ کرکٹ محض ایک کھیل ہے جبکہ سیاست عبادت۔ کرکٹ میں کثافت کا عنصر بدرجہئی اُتم موجود جبکہ سیاست کا مطمح نظر دھرتی ماں کی خدمت۔
خاں صاحب نے سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھ کر جھوٹ کی ایسی آڑھت سجائی کہ الامان والحفیظ۔ نرگسیت کے شکار عمران خاں نے اپنے آپ کوہی عقلِ کُل سمجھ لیا جس کا نتیجہ یہ کہ آج وہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے بیتے دنوں کو یاد کررہے ہیں۔ عقیل وفہیم کہتے رہے کہ عمران خاں کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں وہ اپنے دشمن آپ ہیں لیکن خاں صاحب کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اُنہوں نے جو فیصلہ کیااپنی مرضی سے کیا یا پھر بشریٰ بی بی کے زیرِاثر۔
توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ کیسز کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ اُن کی تحقیقات میں ہم شامل نہیں تھے۔ ساری آڈیوز سے بھی صرفِ نظر کرتے ہیں کہ ہم اُن کے چشم دید گواہ نہیں لیکن اُن بیانات کو کس خانے میں فِٹ کریں جو خاں صاحب نے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں دیئے؟ کیا اِن کو اقراری بیانات نہیں سمجھا جانا چاہیے؟ کیاایچ نائن پارک کے جلسہئی عام میں عمران خاں نے سائفر نہیں لہرایا؟ کیا اُنہوں نے سائفر کو اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش قرار نہیں دیا؟ کیا اِسی امریکی سازش پر یوٹرن لیتے ہوئے خاں صاحب نے امریکا کو بیگناہ قرار دے کر سازش کا ماسٹڑمائنڈ جنرل باجوہ کو قرار نہیں دیا؟ کیا اُنہوں نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری سے تحریکِ عدم اعتماد پر غیرآئینی رولنگ نہیں دلوائی؟
جب سپریم کورٹ کے حکم پر تحریکِ عدم اعتماد پر دوبارہ ووٹنگ کا کہا گیا توکیاآخری دن تک ووٹنگ پر لیت ولعل سے کام نہیں لیا گیا؟ جب خالص آئینی طریقے سے تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی توپھر اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے اُنہیں کس حکیم نے مشورہ دیاتھا کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوکر سڑکوں پر نکل آئیں؟ اگر استعفے دے ہی دیئے تھے توپھر عدالتوں کے ذریعے اسمبلی میں واپس آنے کی رائیگاں کوشش کیوں؟
چلیں! قومی اسمبلی کی رکنیت تو ہاتھ سے گئی لیکن خاں صاحب نے تو اپنی انانیت کے کلہاڑے سے وہ پناہ گاہیں بھی پاش پاش کردیں جن کی چھترچھاؤں میں بیٹھ کروہ سستا سکتے تھے۔ فہم وادراک رکھنے والے حواری اُنہیں متواتر سمجھاتے رہے کہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کرنا محض گھاٹے کا سوداہے مگر ضدی خاں نے اسمبلیاں تحلیل کرکے ہی دَم لیا۔ بیچارہ پرویز الٰہی "کُرلاتا" رہ گیا لیکن خان کی ضد کے ہاتھوں اُسے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی بجائے جیل کی کال کوٹھری نصیب ہوئی۔
عمران خاں کے چاہنے والے خوب جانتے ہیں کہ مئی 2022ء میں پی ڈی ایم اتحادکا جنرل باجوہ کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ اگر عمران خاں جلسے جلوسوں سے باز آجائیں تو اگست 22ء میں اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی اور نئے عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا لیکن عمران خاں تو اونچی ہواؤں میں تھے۔ وہ 25 مئی کو جلوس لے کراسلام آباد پر چڑھ دوڑے۔ تب سپریم کورٹ کی طرف سے حکم صادر ہواکہ عمران خاں ڈی چوک کی بجائے ایچ نائن پارک میں جائیں گے۔
عمران خاں کے وکلاء نے اِسے تسلیم بھی کیا لیکن جلوس کی قیادت کرتے ہوئے عمران خاں نے مجمعے کو ڈی چوک ہی پہنچنے کا حکم دیا۔ اِس کا فائدہ توکچھ نہ ہوا البتہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہوگئی۔ "بندیالی کورٹ" نے 2 تحقیقاتی اداروں کو ایک ہفتے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیا۔ وہ رپورٹس پہنچ بھی گئیں لیکن بندیالی کورٹ نے کیس فائلوں میں دبا دیا۔ وہ کیس آج بھی فیصلے کا منتظر ہے اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کسی وقت بھی فائل کی گَرد جھاڑ کر توہینِ عدالت کا کیس شروع کرسکتے ہیں۔ یہ کیس ایسا اوپن اینڈ شَٹ کہ عمران خاں کا بچنا ناممکن۔
عمران خاں کے کھاتے میں 190 ملین پاؤنڈ "فائلوں کو پہیے لگانے والے" کو واپس کرنا اور بدلے میں ہیروں کی انگوٹھیاں اور القادریونیورسٹی کے لیے 465 کنال زمین حاصل کرنا بھی ثابت شُدہ۔ اِس کے علاوہ وہ 9 مئی کے ماسٹرمائنڈ، جس کی تصدیق نہ صرف اُن کے حواری کرچکے بلکہ خود عمران خاں کا یہ بیان بھی سامنے کہ اگر اُنہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو 9 مئی سے بھی بڑا ہنگامہ ہوگا۔ وہ یہ بھی کہہ چکے کہ اگر اُنہیں رینجر کے اہلکار گرفتار کریں گے توپھر ہنگامے بھی فوجی تنصیبات پر ہوں گے۔ یہ کیس بھی عدالت میں ہے۔
میرا حُبِ عمران میں غلطاں پیروکاروں سے سوال ہے کہ میں نے جوکچھ لکھا اِس میں غلط کیا ہے؟ بہرحال یہ تو طے کہ فیصلہ عوام نے کرناہے اور آپ عوام ہی میں سے ہیں۔ اِس لیے جو فیصلہ بھی کریں جذبات کے بہتے دھارے میں نہیں، سوچ سمجھ کر ہی کریں۔