Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Idaron Ki Writ Kamzor Karne Ke Harbe

Idaron Ki Writ Kamzor Karne Ke Harbe

بظاہر پی ڈی ایم کی احتجاجی سیاست دَم توڑ چکی اور مہنگائی کے ستائے عوام کی اُس سے اُمیدیں زنگ آلود ہو چکیں۔ حقیقت یہی کہ پی ڈی ایم کے لیے جتنا سازگار ماحول اب تھا شاید پھر کبھی نہیں ہوگا۔ زورآوروں نے اگر حکومت کی پُشت پناہی سے ہاتھ نہیں بھی اُٹھایا تو پھر بھی اُس طرف سے گھمبیر خاموشی بہرحال موجود۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اظہرمِن الشمس لیکن ہوا وہی جس کے اہلِ فہم متواتر اندازے لگا رہے تھے۔ پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑی جس کی ذمہ دار پیپلزپارٹی جس نے حصولِ مقصد کے لیے اپوزیشن اتحاد کو "رَج کے" بیوقوف بنایا اور پھر اپنا "پاندان" اُٹھا لیا۔ شاہدخاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ اگر پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کو "داغِ مفارقت" دے بھی دیا تو کچھ فرق نہیں پڑے گا، 9 جماعتی احتجاجی سفر جاری رہے گا۔ فرق تو پڑتا ہے صاحب! اور بہت پڑتا ہے کہ مایوسیاں اپنے جلو میں ناکامیاں ونامرادیاں لاتی ہیں۔ مایوسیوں کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مہنگائی کے ستائے عوام انقلابِ فرانس کی طرح سڑکوں پر نکل آئے تو پھر انقلاب آئے گا، خونی انقلاب۔

فی الحال "گلیاں سُنجیاں " اور "مرزا یار" کے لیے عیش ہی عیش۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ عیش کوشی کب تک جاری رہتی ہے۔ ہمارے خیال میں اِس کی عمر تھوڑی ہے کیونکہ خان کے دائیں بائیں وہ براجماں جو ابھی خارزارِ سیاست میں طفلِ مکتب اور خود سربراہ انانیت کی رفعتوں پر۔ تحریکِ انصاف کے اندر کئی گروپ تشکیل پا چکے اور ہر کسی کی "اپنی اپنی ڈَفلی، اپنا اپنا راگ"۔ اِس لیے بقول اقبال کہا جا سکتا ہے کہ

مجھے روکے گا تو اے نا خُدا کیا غرق ہونے سے

کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

تحریکِ انصاف کے بزرجمہر "ایویں خوامخواہ" الیکشن کمیشن سے پنگا لے رہے ہیں۔ اُس کے بڑھک باز وزراء نے پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن کو مستعفی ہونے کا ایسے حکم دیا جیسے یہ ادارہ بھی نیب کی طرح حکومت کا غلامِ بے دام ہو۔ دراصل 2013ء سے 2018ء کے اوائل تک کپتان ایسی ہی بڑھکیں لگاتے رہے لیکن اُن کی زبان پر تالا لگانے کی کسی میں جرأت نہ ہوئی۔ اب وہی رویہ الیکشن کمیشن کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے لیکن اب حالات بدل چکے۔ یہاں ہمیں وہ پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے جس میں ایک شریف آدمی کو دورانِ نماز ایک

شرارتی بچے نے چُٹکی کاٹی۔ شریف آدمی نے نماز ختم کرنے کے بعد بچے کی ہتھیلی پر ایک روپیہ رکھ دیا جس پر بچے نے سمجھا کہ چٹکی کاٹنے سے روپیہ ملتا ہے۔ چند دنوں بعد ایک پٹھان نماز پڑھ رہا تھا، بچے نے اُس کے ساتھ بھی وہی حرکت کی۔ پٹھان نے نیت توڑی، تلوار نکالی اور بچے کا سَر تَن سے جُدا کر دیا۔ تحریکِ انصاف بھی ایسی بڑھکوں کی عادی ہوچکی، اِس لیے لگتا ہے کہ اِس کا انجام بھی اُس بچے کی طرح الیکشن کمیشن کے ہاتھوں ہوگا۔ یہ بزرجمہر شاید نہیں جانتے کہ الیکشن کمیشن کے پاس بھی ہائیکورٹ کے اختیارات ہوتے ہیں۔ 1990ء میں اُس وقت کے وزیرِپارلیمانی امور شیر افگن نیازی نے ایسی ہی پریس کانفرنس کی جیسی یہ بزرجمہر کر چکے۔ اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین نے شیرافگن کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا جس پر شیر افگن نے معافی مانگ کر جان چھڑائی۔ 1996ء میں میاں نوازشریف نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرِعالم کے بارے میں منفی ریمارکس دیئے تو توہینِ عدالت کا نوٹس ملنے پر میاں نوازشریف کو بھی معافی مانگنی پڑی۔ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ توہینِ عدالت کا اطلاق اِن بزرجمہروں پر بھی ہو سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے خلاف آگ اُگلنے کی وجہ نہ تو سینٹ انتخابات میں ایک مرکزی سیٹ کا کھونا ہے اور نہ ہی ڈَسکہ الیکشن بلکہ یہ سارا ڈرامہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ اپنے حق میں کروانے کے لیے رچایا جا رہاہے جس میں وزیرِاعظم صاحب کو بدھ کو نوٹس بھی جاری ہو چکاہے۔ عام خیال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن عنقریب فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔ اِسی لیے الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔

تحریکِ انصاف کا حال "میٹھا میٹھا ہَپھ ہَپھ، کڑوا کڑوا تھو تھو" والا ہے۔ جب نیب اپوزیشن پر گرجتا برستا اور گرفتاریاں کرتا ہے تو سارے وزیرمشیر اُس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اِس ادارے کی کارکردگی پر اعلیٰ ترین عدالتیں سخت ترین ریمارکس دے چکی ہیں اور اکثر ملزمان کو ضمانتوں پر رہا بھی کر چکی ہیں۔ نیب کا سیاست زدہ ہونا زباں زدِ عام ہے لیکن ہماری "صاف چلی شفاف چلی" نے خیبرپختونخوا کے ریٹائر ہونے والے ڈی جی نیب کو ایک سال کی توسیع سے نواز دیاہے اور چیئرمین نیب کی توسیع کے منصوبے باندھ رہی ہے۔ دوسری طرف چونکہ الیکشن کمیشن اپنی آزادی وخودمختاری اور دیانتداری پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتا اِس لیے اُس کے خلاف زہر اُگلا جا رہاہے۔ نومنتخب سینیٹر فیصل واوڈا کی اہلیت کا کیس الیکشن کمیشن میں زیرِالتوا ہے۔ اِس کی سماعت کے دوران جب فیصل واوڈا کے وکیل نے کہا کہ پہلے درخواست گزار کی درخواست خارج کی جائے پھر بیشک ہمیں سُن لیں۔ اِس پر چیف الیکشن کمشنر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا "آپ کمیشن کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے"۔ ممبر الیکشن کمیشن پنجاب نے فیصل واوڈا کے وکیل سے کہا "آپ بار بار ہمیں ڈکٹیشن دے رہے ہیں کہ اِس کیس کو خارج کریں۔ آپ "مسٹ بی" کا لفظ استعمال کر رہے ہیں "۔ ممبرخیبرپختونخوا ارشاد قیصر نے کہا "ہم اِس کیس کو سیشن جج کو بھی بھیج سکتے ہیں "۔ واوڈا کے وکیل نے کہا "آپ ایسا نہیں کر سکتے"۔ معزز ممبر نے جواب دیا "ہم کر سکتے ہیں اور بہت سے ایسے کیسز موجود ہیں۔ ہم کسی کی شکل یا سیاسی جماعت کو دیکھ کر فیصلے نہیں کرتے، کتابوں کو دیکھتے ہیں "۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ اِس "تُوتکار" کو مدِنظر رکھتے ہوئے قوم خود ہی فیصلہ کر لے کہ تبدیلی سرکار کا اداروں کے ساتھ کیا رویہ ہے۔

تبدیلی سرکار NA-75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جا چکی جہاں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دیکھنا صرف یہ ہے کہ آیا 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخاب کروایا جائے یا پورے حلقے کا۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے دورانِ سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈسکہ الیکشن میں قانون پر عمل نہیں ہوا۔ پیش کردہ نقشے کے مطابق 20 پریذائیڈنگ آفیسرز صبح تک غائب تھے۔ پھر تمام غائب پریذائیڈنگ آفیسرز صبح ایک ساتھ نمودار ہوئے۔ اُنہوں نے فرمایا "کیا تمام پریذائیڈنگ آفیسرز غائب ہو کر اکٹھے ناشتہ کرنے گئے تھے؟ "۔ انتہائی معزز جسٹس صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ دروغ بَر گردنِ راوی اِن پریذائیڈنگ آفیسران ایک دعوت سے فارغ ہو کر اکٹھے آر او کے دفتر پہنچے۔ کیا الیکشن ڈیوٹی کے بعد بڑے بڑے "کارنامے" سرانجام دینے والے پریذائیڈنگ آفیسرز کا اتنا حق بھی نہیں بنتا تھا کہ وہ اِس کے عوض دعوت کے مزے ہی لوٹ لیتے۔ آخر اُنہوں نے یہ خدمت بھی تو سرانجام دی کہ 75 سے 85 فیصد ٹرن آؤٹ دکھا کر اقوامِ عالم پہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی جمہوریت کا نخلِ نو "تبدیلی سرکار" کے دَور میں تن آور درخت بن چکا۔