Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Naye Pakistan Ke Aik Hazar Din

Naye Pakistan Ke Aik Hazar Din

تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خانِ اعظم نے جب ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا عہد کیا تو تمام تر اختلافات کے باوجود ہم بہت خوش ہوئے لیکن ڈرے بھی ہوئے تھے کہ ضیاء الحق نے بھی اسلامی نظام کا "لولی پاپ" دے کر 10 سال گزار دیئے۔ آج ایک ہزار دن گزرنے کے باوجودریاستِ مدینہ کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔ ریاستِ مدینہ کی تشکیل تو کجا خود خانِ اعظم کی اپنی ذات میں بھی کسی ایسی خوبی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا جو ریاستِ مدینہ کے حکمرانوں کا وصف تھا۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ تو دریائے فرات کے کنارے مَر جانے والے کتّے کی پُرسش سے بھی لرزہ بَر اندام تھے لیکن "عوامی امیر" کے دَور میں مہنگائی کے مارے عوام کے ہاں دَر دَر نوحے، گھر گھر ماتم۔ خاں صاحب کا دعویٰ مگر یہ کہ معیشت پٹری پر چڑھ چکی اور شرحِ نمو جی ڈی پی کا 4 فیصد ہو چکی۔ حیرت ہے کہ وہ شرح نمو جو 2019ء میں منفی 0.47 فیصد تھی اور حکومتی زعماء کے مطابق اِس کو 2021ء میں 2.9 فیصد تک لے جانے کے دعوے کیے جا رہے تھے، اچانک ایسا کون سا معجزہ رونما ہوا کہ یہ 4 فیصد تک پہنچ گئی۔

نئے نویلے وزیرِخزانہ شوکت ترین جو تین ہفتے پہلے تک فرما رہے تھے کہ حکومت نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے، اب وہ بھی شرحِ نمو 4 فیصد ہونے کا "رَولا" ڈال رہے ہیں۔ وجہ شاید یہ کہ چونکہ خانِ اعظم کوئٹہ میں شرحِ نمو کی خوشخبری سنا چکے اِس لیے "ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں"۔ بین الاقوامی سروے مگر کچھ اور ہی خبر دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے 2021ء میں شرح نمو 2 فیصد تک کا اندازہ لگایا جبکہ ورلڈ بینک نے ڈیڑھ فیصد تک۔ اب عالمی اقتصادی ادارے بھی حیران وپریشان کہ آخر شوکت ترین کے پاس ایسی کون سی گیدڑسنگھی ہے کہ محض دو، تین ہفتوں میں شرح نمو رفعتوں کو چھونے لگی۔ دروغ بَر گردنِ راوی کئی ترقی یافتہ ممالک خانِ اعظم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ شوکت ترین کی خدمات اُن کے حوالے کی جائیں تاکہ وہ بھی اُن کی صلاحیتوں سے مستفید ہو سکیں۔ ہمارا اِن کو پیغام ہے کہ بَس تھوڑا عرصہ صبر کر لیں کیونکہ بجٹ کے بعد شوکت ترین کی بھی چھُٹی ہو جائے گی پھر جی بھر کے اُن کی صلاحیتوں سے استفادہ کر لیں۔ ویسے ہمارے پاس اسد عمر بھی ہے جس کے اقتدار میں آنے سے پہلے وزیرِاعظم تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے دھرتی پر اُس سے بڑا ماہرِمعیشت پیدا ہی نہیں ہوالیکن وہ بھی جلد ہی "ٹھُس" ہوگیا۔ پھر حفیظ شیخ کو درآمد کرکے وزارتِ خزانہ کی "کُنجیاں " اُس کے سپرد کی گئیں اور اب شوکت ترین۔ سوال یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے 

دَورِ حکومت میں حفیظ شیخ اور شوکت ترین معیشت کا "کَکھ" نہیں بگاڑ سکے تو تحریکِ انصاف میں کون سے پہاڑ توڑ لیں گے؟ سیانے کہہ گئے "آزمودہ را آزمودن جہل است" لیکن تحریکِ انصاف یہ جہالت بار بار کر رہی ہے۔ اب تو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ خانِ اعظم کو معیشت کا کچھ پتہ ہے نہ سیاست کا۔ اُن کے کان میں جو پھونک دیا جاتا ہے، وہی اُن کی زبان پر آجاتا ہے۔ گویا "جنیں لایا گلیں، اودھے نال ٹُر چلی"۔

بات ریاستِ مدینہ سے شروع ہوئی اور نکل گئی معیشت کی طرف۔ وجہ شائد یہ کہ پوری قوم کی نظریں آمدہ بجٹ پر۔ ہر کوئی خوف زدہ کہ پتہ نہیں اِس بجٹ سے مہنگائی کا کون سا جِن برّآمد ہوگا۔ ریاستِ مدینہ میں امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے اپنے کندھے پر اناج کی بوری رکھ کر اُس بیوہ کے گھر پہنچائی جس کے بچے بھوکے تھے لیکن پاکستانی ریاستِ مدینہ کے سربراہ کے پاس اناج کی بجائے صرف ایک جملہ "گھبرانا نہیں "۔ 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے نے ہزار دِن گزار دیئے لیکن سبق پھر وہی "گھبرانا نہیں "۔ اب جبکہ قوم گھبرا گھبرا کے تھک بلکہ "ہَپھ" چکی تو معیشت کے پٹری پر چڑھنے کی اور گروتھ ریٹ 4 فیصد ہونے کی نوید سنا دی گئی۔ صاحب! مفلسوں کی معیشت پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ آپ اُنہیں گروتھ ریٹ جیسے چکر دینے کی بجائے روٹی دے دیں وہ آپ کا گُن گانے لگیں گے۔ اِس وقت مزدور سڑکوں پر، کسان سڑکوں پر، کلرک سڑکوں پر، اُستاد سڑکوں پر، پینشنر سڑکوں پر، ڈاکٹر سڑکوں پر اور آپ اُنہیں گروتھ ریٹ کا سبق رٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا آپ کو خود بھی "ککھ" پتہ نہیں۔

 ریاستِ مدینہ کے امیرالمومنین حضرت عمرؓ کچے گھر میں رہتے، پیوند لگے کپڑے پہنتے اور اپنے بیٹے سے چادر لے کراپنا تن ڈھانپتے تھے۔ ریاستِ مدینہ میں کسی خلیفۂ راشد کے پاس کوئی حفاظتی عملہ ہوتا تھا نہ پروٹوکول۔ حضرت عمرؓ تو اپنے ہاتھوں سے مسجد نبوی کی صفائی کرتے کرتے تھک کر وہیں چٹائی پر سو جایا کرتے تھے لیکن ہماری ریاستِ مدینہ کے امیر 300 کنال کے محل میں رہتے ہیں اور تمامتر حکومتی سہولیات کے باوجود میاں بیوی کا 2 لاکھ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا البتہ وہ محدود آمدنی رکھنے والے گورنمنٹ ملازمین اور پنشنرز کو گزشتہ تین سال سے اُسی تنخواہ میں گزارہ کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ حالانکہ روپے کی قدر 40 فیصد سے زائد کم ہوچکی۔ ہمارے خانِ اعظم تو بنی گالہ سے وزیرِاعظم ہاؤس تک چند کلومیٹر کا سفر بھی ہیلی کاپٹر کے بغیر نہیں کرتے۔ زمینی سفر پر آگے پیچھے پروٹوکول گاڑیوں کی طویل قطار۔ شنید ہے کہ اِس سفر میں ایک لاکھ روپے فی کلومیٹر اخراجات ہوتے ہیں۔ خانِ اعظم نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے فرمایا کہ ہالینڈ کا وزیرِاعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔ وہ بھی سائیکل پر ہی وزیرِاعظم ہاؤس جایا کریں گے لیکن گزشتہ ہزار دنوں میں اِس کی نوبت نہیں آسکی۔ رہی ایفائے عہد کی بات تو اُس کو خانِ اعظم کے یوٹرن کھا گئے۔

آخر میں کچھ ملالہ یوسف زئی کے بارے میں جس نے برطانوی فیشن میگزین "ووگ" کے جولائی میں آنے والے ایڈیشن کے لیے ایک انٹرویو میں اپنی شادی کے بارے میں سوال پرکہا "اگر آپ کسی کا زندگی بھر کا ساتھ چاہتے ہیں تو اِس کے لیے نکاح نامے پر دستخط کیوں ضروری ہیں، کیوں ایک پارٹنر کے طور پر نہیں رہا جا سکتا؟ "۔ بالکل رہا جا سکتا ہے اور مغرب میں رواج بھی اِسی کا ہے لیکن شرط یہ کہ ملالہ اپنا مذہب تبدیل کر لے کیونکہ دینِ مبیں میں نہ صرف اِس کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کے لیے 100 کوڑے یا "رجم" کی سزائیں مقرر ہیں۔ ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی مغرب زدہ لڑکی دینِ مبیں کا لبادہ اوڑھ کر اِس قسم کی بکواس کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے تو اُس دَور میں بھی ملالہ کے خلاف کھُل کر کالم لکھے جب ہمارے لکھاری اور رپورٹر پاپا زاریوں کی طرح ہر وقت ملالہ کا پیچھا کرتے تھے۔ ہمیں اُس وقت بھی یقین تھا کہ ملالہ کے ساتھ مغرب کی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہمدردی کسی سازش کا پیش خیمہ ہے۔ اہلِ یورپ کی ہمدردی اُس وقت کہاں سوئی ہوئی تھی جب امریکی ڈرون حملے میں باجوڑ مدرسے کے 80 طلباء شہید ہوئے۔ نائین الیون کے بعد امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں پاکستانیوں کے علاوہ 172 بچے بھی شہید ہوئے لیکن اہلِ یورپ کی پیشانی عرقِ ندامت سے تَر ہوئی نہ امریکہ کی۔ جب کرسٹینالیمب کی لکھی ہوئی کتاب "I am Malala" کو ملالہ یوسفزئی کے نام سے منسوب کیا گیا تو ظاہر ہوگیا کہ گُل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی میں جو کچھ لکھا گیا وہ بھی ملالہ کا لکھا ہوا نہیں تھا۔ گُل مکئی کی ڈائری کا بغور مطالعہ کرنے سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ کسی منجھے ہوئے لکھاری کی تحریر ہے۔ اِسی لیے میں نے اپنے کالموں میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا نوبل انعام یافتہ ملالہ اب بھی "پاکستان کی بیٹی" ہے؟ اور کیا ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعویدار ایسی لڑکی کو پاکستان کی بیٹی تسلیم کریں گے جس نے صریحاََ دینِ مبیں کا مذاق اُڑانے کی کوشش کی ہے؟ دِل خوش کُن خبریہ کہ خیبرپختونخواہ اسمبلی میں ملالہ کے انٹرویو پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُس کے والدین سے وضاحت کا مطالبہ کیا گیاہے۔