Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Shoq e Gul Bosi Mein

Shoq e Gul Bosi Mein

ہمیں تحریکِ انصاف سے غرض ہے نہ نوازلیگ سے اور نہ ہی پیپلزپارٹی سے کہ چہرے وہی رہتے ہیں البتہ سیاسی جماعت کا نام بدل جاتا ہے۔ حقِ حکمرانی اِسی ٹولے کو حاصل رہتا ہے جسے اشرافیہ کہہ لیں یا الیکٹیبلز، لوٹے کہہ لیں یا جیتنے والے گھوڑے۔ سیاسی جماعتیں بدلنا اور اپنی دولت بڑھانا اِس ٹولے کا شغل ہے۔ تحریکِ انصاف کے ساڑھے تین سالہ دَور میں اِس شغل میں کچھ زیادہ ہی تیزی آئی جسے دیکھ کر مجبورومقہور عوام بھی چیخ اُٹھے اور مہنگائی آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگی۔

اِس دَور میں شاہ محمود قریشی کے اثاثوں میں 241 فیصد، عمر ایوب کے اثاثوں میں 203 فیصد، اعظم سواتی 202 فیصد، خسرو بختیار 127 فیصد، مونس الٰہی 114 فیصد اور شیخ رشید کے اثاثوں میں 278 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ تو وہ اضافہ ہے جو ظاہر کیا گیا البتہ خفیہ اثاثے کئی گُنا زیادہ۔

محترم عمران خاں کی اہلیہ کی کرپشن کے قصّے ایسے کہ پڑھ سُن کر ہول اُٹھنے لگیں۔ ماضی میں شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن کے قصّے بھی زباں زدِعام رہے لیکن اُن کی کرپشن کا کوئی ایک ثبوت بھی سامنے نہ آسکا۔ ایسے میں کسی خالص رَہنماء کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور یہی اِس قوم کی بدقسمتی ہے۔

قوم آج بھی اُس رَہنماء کی تلاش میں ہے جو اِس مملکتِ خُداداد کو پٹڑی پہ چڑھا سکے۔ بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے۔ یہاں لہلہاتے کھیت بھی ہیں، سَربفلک پہاڑ بھی، حسین وادیاں بھی ہیں اور بہتے جھرنے بھی۔ زمین کے نیچے ایسے خزانے دفن کہ اگر باقی معدنیات سے صرفِ نظربھی کریں تو صرف بلوچستان کے ریکوڈیک میں کئی ٹریلین ڈالرز کا سونا دفن۔ پھر بھی ہم کشکولِ گدائی تھامے دربدر۔ نانِ جویں کی محتاج اِس قوم کے لبوں سے یہ آہ نکلتی ہوئی

یہ کِس نے شاخِ گُل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی

کہ میں نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی

یہاں جو بھی آیا سہانے سپنے دکھاتا رہا اور ہم شوقِ گُل بوسی میں گلے پھاڑ پھاڑ کر "آوے ای آوے، جاوے ای جاوے" جیسے نعرے لگاتے رہے۔ پھر جب یہ دِل خوش کُن خواب ریزہ ریزہ ہوتے تو ہم ایک دفعہ پھر کسی رَہنماء کی تلاش میں کسی دوسرے دھوکے کے انتظار میں بیٹھ رہے۔ کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو کسی نے ایک کروڑ نوکریاں اور 50 ہزار گھروں کی نوید سنائی۔ کسی نے "سب سے پہلے پاکستان" کہاتو کوئی نعرہ زَن ہوا کہ 2025ء تک پاکستان دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ اگر کسی نے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی بھی تو اُسے "زورآوروں" نے چلتا کیا۔

کسی کو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا اور کسی کو جَلاوطنی کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ کوئی اپنے ہی وطن میں دہشت گردی کا نشانہ بنا تو کسی کو عدل کے کٹہرے میں کھڑا کرکے مسترد کر دیا گیا۔ اگر تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں تو اِس کے پیچھے کہیں نہ کہیں زورآوروں اور اُن کی پُشت پر کھڑے عادلوں کا ہاتھ ضرور نظر آئے گا۔ آئیے ذرا تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

1951ء میں لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد 6 سالوں میں پاکستان میں 6 وزرائے اعظم رہے۔ یہ وہی دَور تھا جب بھارت کے وزیرِاعظم جواہرلال نہرو نے کہا تھا "میں اتنے پائجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزرائے اعظم بدلتے ہیں"۔ 1958ء میں صدر سکندرمرزا نے وزیرِاعظم کا عہدہ ہی ختم کر دیا۔ 1958ء کے ایوبی مارشل لاء سے یحییٰ خاں کے مارشل لاء تک صرف نورالامین کو یحییٰ خاں نے وزیرِاعظم منتخب کیا وہ بھی صرف 15 دنوں کے لیے۔

جنرل یحییٰ کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے۔ اُنہوں نے 1973ء کے آئین میں وزیرِاعظم کا عہدہ بحال کیا لیکن 1977ء میں ضیائی مارشل لاء میں یہ عہدہ پھر ختم کر دیا گیا۔ ضیاء الحق نے اپنی زیرِنگرانی 1985ء میں عام انتخابات کروائے اور محمد خاں جونیجو کو وزیرِاعظم مقرر کیا۔ اِس سے پہلے وہ آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 58-2B لاچکے تھے۔

اِس ترمیم کے تحت صدرِ مملکت کو یہ اختیار تفویض کیا گیا تھاکہ وہ کسی بھی حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ اِسی ترمیم کا پہلا شکار محمد خاں جونیجو بنے جنہیں 1988ء میں ضیاء الحق نے گھر کا راستہ دکھایا (58-2B کے تحت ہی بعد ازاں 2 دفعہ محترمہ بینظیر بھٹو اور ایک دفعہ میاں نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا)۔ جب 1988ء میں ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے تو ایک دفعہ پھر عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔

1988ء سے 1999ء تک محترمہ بینظیر اور میاں نوازشریف کو دو، دو بار وزارتِ عظمیٰ کا موقع ملا لیکن کسی بار بھی وہ اپنی ٹرم پوری نہ کر سکے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد میاں نوازشریف جَلاوطن ہوئے اور 3 سالوں تک یہ عہدہ خالی رہا۔ پرویزمشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کروائے اور پہلے میرظفر اللہ جمالی کو وزیرِاعظم بنایا پھر امپورٹڈ شوکت عزیز اِس عہدے پر متمکن ہوئے۔

2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی، یوسف رضاگیلانی وزیرِاعظم اور آصف زرداری صدر منتخب ہوئے۔ یوسف رضاگیلانی کو عدلیہ نے گھر بھیجاتو راجہ پرویزاشرف وزیرِاعظم بنے۔ پیپلزپارٹی ہی کے دَور میں 58-2B کا خاتمہ ہوا۔ 2013ء کے انتخابات میں میاں نوازشریف تیسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اِس دوران اسٹیبلشمنٹ کی گود کے پالے ہوئے عمران خاں اُبھر کر سامنے آئے۔

2017ء میں سپریم کورٹ کے ایک انتہائی متنازع فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تو بقیہ مدت کے لیے شاہد خاقان عباسی نے یہ منصب سنبھالا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں عمران خاں وزیرِاعظم منتخب ہوئے جنہیں آئین کے عین مطابق تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے 9 اپریل 2022ء کو مسترد کیا گیا۔ میاں شہبازشریف ارضِ وطن کے 30 ویں وزیرِاعظم ہیں (اِس فہرست میں نگران وزرائے اعظم بھی شامل ہیں)۔

وطنِ عزیز کی اِس مختصر تاریخ میں ہم 24 سالوں تک کسی بھی وزیرِاعظم کے بغیر رہے۔ گویا 51 سالوں میں ہم نے 30 وزرائے اعظم بھگتے۔ آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ جب کسی بھی وزیرِاعظم کو اُس کی 5 سالہ آئینی مدت ہی پوری نہیں کرنے دی گئی تو ملک نے کیا خاک ترقی کرنی تھی۔ اگر تاریخ کا بنظرِغائر مطالعہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے والی صرف 2 قوتیں یعنی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ہیں۔

یہ بجا کہ سیاستدانوں اور اشرافیہ کی کرپشن کے قصے زباں زدِعام لیکن کرپشن تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتی ہے مگر معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ جس ملک میں آدھا وقت مارشل لاؤں کی زَد میں رہا ہواور باقی آدھے وقت میں سیاستدانوں کو اپنی آئینی مدت بھی پوری نہ کرنے دی جائے، وہاں ترقی کا خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ایوبی مارشل لاء سے پرویز مشرفی مارشل لاء تک اور جسٹس منیر کے نظریہئ ضرورت سے دَورِ حاضر کے نظریہئ ضرورت تک کا سفر دیکھ لیں، آپ کو ہر شے روزِروشن کی طرح عیاں نظر آئے گی۔

یہ بجا کہ اب اسٹیبلشمنٹ نے آئین کے عین مطابق اپنے آپ کو اے پولیٹیکل قرار دے دیا ہے لیکن جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل فیض حمید اور سب سے بڑھ کر سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار سے کیا صرفِ نظر کر دیا جائے گا؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیاست میں ملوث ہونے کا بَرملا اظہار کیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ فوج نے فروری 2021ء میں ہی سیاست سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ گویا اِس سے پہلے فوج سیاست میں ملوث رہی۔ آئینِ پاکستان کے مطابق فوج کا سیاست میں دخل آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے اور اِس کی سزا سے بھی کوئی ناواقف نہیں۔