Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Takkar Ke Log

Takkar Ke Log

ہم پاکستانی (خصوصاََ خواتین) برانڈ کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہیں۔ یہاں کوالٹی نہیں، برانڈ کا نام بکتا ہے۔ پکوان خواہ کتنا ہی پھیکا اور بدذائقہ ہو دکان اونچی ہونی چاہیے۔ اشرافیہ کے ہاں تو قیمت ہی برانڈ کی ہے۔ جہاں چار خواتین اکٹھی ہوں وہیں برانڈڈ کپڑوں، جوتوں اور جیولری پر بات چل نکلتی ہے۔

عمران خان بھی اپنے آپ کو برانڈ کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔ یہ برانڈ 1992ء کے ورلڈ کپ سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ یہ الگ بات کہ اب اِس برانڈ پر تنقید وتنقیص کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ وجہ یہ کہ وہ نِت نئے سورج ایک نیا بیانیہ گھڑ کر سامنے آجاتے ہیں۔ اُن کا سیاسی سفر اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان کے جلسے سے شروع ہوا جس کا سارا انتظام وانصرام جنرل احمد شجاع پاشا نے کیا۔

اُس وقت خاں صاحب کا نعرہ "سونامی" تھا اور وہ اپنے ہر خطاب میں میری سونامی، میری سونامی کا ورد کرتے رہتے تھے۔ جب 2013 کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف بُری ہزیمت کا شکار ہوئی تو ایک معروف کالم نگار نے لکھا "سونامی گَٹر میں بہہ گئی"۔ اگست 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے پر وہ اپنے حواریوں کو بار بار دلاسا دیتے رہے کہ امپائر کی اُنگلی کھڑی ہونے والی ہے لیکن امپائر کی وہ انگلی سرہانے دھری دھری سو گئی۔

عمران خاں بڑے فخر سے یہ کریڈٹ لیتے رہتے ہیں کہ کرکٹ میں نیوٹرل امپائر اُنہوں نے متعارف کرائے لیکن ساتھ ہی میاں نوازشریف پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ امپائر کو ساتھ ملائے بغیر کھیل ہی نہیں سکتے۔ وقت نے مگر یہ ثابت کیا کہ جو الزام وہ میاں نوازشریف پر لگاتے ہیں وہ دراصل اُن کی اپنی ذات پر صادق آتا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں یہ امپائرز ہی تھے جنہوں نے اقتدار کا ہما اُن کے سر پر بٹھایا۔

اِسی لیے پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں بلاول زرداری نے اُنہیں"سلیکٹڈ وزیرِاعظم" کہہ کر مخاطب کیا جس پر خاں صاحب نے خوب تالیاں بھی بجائیں۔ بعد ازاں جب اُنہیں پتہ چلا کہ نوجوان بلاول اُن کے ساتھ "ہَتھ" کر گیا ہے تو اُنہوں نے لفظ سلیکٹڈ کو غیرپارلیمانی قرار دلا کر پارلیمنٹ کی کارروائی سے حذف کرا دیا۔ یہ بات الگ کہ یہ لفظ اُن کے ساڑھے تین سالہ دَورِ حکومت میں متواتر اُن کا پیچھا کرتا رہا۔

نیوٹرل امپائرز کا دعویٰ کرنے والے عمران خاں کو جب 9 اپریل 2022ء کو پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کے ذریعے مسترد کیا تو اُنہوں نے امپائرز ہی کو موردِالزام ٹھہرایا۔ پھر جب امپائرز نے اعلان کر دیا کہ وہ نیوٹرل ہو چکے تو خاں صاحب نے کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ اُنہیں چاہیے کہ امربالمعروف کے تحت نیکی کا ساتھ دیں اور نیکی کی علامت وہ خود ہیں۔

امپائرز کے نیوٹرل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے منتخب کردہ وزیرِاعظم نے اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی میں پاکستان کو نہ صرف اقوامِ عالم میں تنہا کر دیا بلکہ ڈیفالٹ کا خطرہ بھی سَر پر منڈلانے لگا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر لوگوں کی انگلیاں بھی اُن امپائرز پر اُٹھنے لگی تھیں جن کا نام لیتے ہوئے بھی قلم تھرتھرانے لگتا تھا۔ یہ سب کچھ کیا دھرا تو اُس برانڈ کا تھاجس نے صرف 45 ماہ میں ساڑھے 49 بلین ڈالر قرض لیا اور لگائی ایک اینٹ بھی نہیں۔

بین الاقوامی سرویز کے مطابق اِسی دَور میں کرپشن پہلے سے بڑھ گئی۔ کرپشن کی اِس بہتی گنگا میں عمران خاں اور حواریوں نے خوب ہاتھ دھوئے۔ توشہ خانہ کیس، ممنوعہ فنڈنگ کیس، القادر یونیورسٹی کی زمین، گھڑیاں اورحکومتِ پاکستان کے لیے برطانیہ سے آئے ہوئے 50 ارب روپے ملک ریاض کو ادا کرنے اور عوض میں ہیروں کے ہار، ہیروں کی انگوٹھیاں، القادر یونیورسٹی کے لیے 465 کنال زمین کے قصے زبان زَدِ عام۔ یہ اربوں روپے کی کرپشن ہے جس کے حکومتی دعوں کے مطابق مکمل ثبوت موجود ہیں۔ عمران خاں ہی کے دَور میں 65 روپے لٹر والا پٹرول 160 روپے ہوا۔

ڈالر 100 روپے سے چھلانگیں لگاتا ہوا 189 تک پہنچا۔ مہنگائی 4 فیصد سے 12 فیصد تک جا پہنچی اور جی ڈی پی گروتھ ریٹ 5.8 سے 0.45 فیصد تک جا پہنچا۔ عمران خاں خود ہی کہا کرتے تھے کہ اگرمہنگائی بڑھے تو سمجھ لیں کہ حاکم چور ہے۔ اُسی کے دَور میں مہنگائی کو عروج ہوا اور اب اتحادیوں کی حکومت میں آسمان کی رفعتوں تک جا پہنچی۔ اب خود ہی فیصلہ کر لیں کہ چور کون؟

9 اپریل 2022ء سے اب تک عمران خاں کی یہی کوشش ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے ساڑھے 3 کروڑ لوگ بے گھر ہوئے اور لگ بھگ 20 ارب ڈالروں کا نقصان ہوا۔ اِسی سلسلے میں جنیوامیں کانفرنس کا انعقاد ہوا جس پر عمران خاں نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول بھیک مانگنے جنیوا جا رہے ہیں لیکن اُنہیں کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اُن پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ میاں شہباز شریف تو جنیوا سے 9 ارب 80 کروڑ ڈالر کی امداد لے کر لوٹے اور پوری عالمی برادری سیلاب کی تباہ کاریوں سے نپٹنے کے لیے پاکستان کی پُشت پر آن کھڑی ہوئی۔

سوال مگر یہ ہے کہ عمران خاں کس برتے پر میاں شہباز شریف اور بلاول کو بھکاری کہہ رہے تھے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھیک مانگنے میں عمران خاں کا کوئی ثانی نہیں جس کا وہ خود بھی اقرار کر چکے ہیں۔ عمران خاں کے بیان پر بلاول زرداری نے کہا "عمران خاں کی بھیک مانگنے کے علاوہ خارجہ پالیسی کیا تھی؟ اُن کی تو پوری سیاست ہی بھیک مانگنے پر ہے"۔ تحقیق کہ اگر عمران خاں نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے تک نہ پہنچایا ہوتا تو شاید اِس امداد کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

جب عمران خاں نے دیکھا کہ حکومتِ پاکستان کی معیشت سنبھلنے کو ہے اور عالمی برادری بھی ساتھ دینے کو تیار تو اُنہوں نے افراتفری پھیلانے کے لیے پرویز الٰہی کی گردن پر انگوٹھا رکھ کے پنجاب اسمبلی تحلیل کرا دی۔ چودھری پرویز الٰہی کسی بھی صورت میں پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اگلے چھ سات ماہ میں کارکردگی دکھا کر انتخابی اکھاڑے میں اُترنا چاہتے تھے لیکن عمران خاں نے اُن کی ایک نہ چلنے دی۔

چودھری پرویز الٰہی تو چاہتے تھے کہ اتحادی اُنہیں گود لے لیں اور اُن کی وزارتِ اعلیٰ بچ جائے لیکن "مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈَسا جاتا" کے مصداق اتحادیوں نے صاف انکار کر دیا۔ اِس سے پہلے بھی پرویز الٰہی اتحادیوں کے ساتھ وعدے وعید کرکے اور قسمیں اُٹھا کر مُکر چکے تھے۔ اِس لیے اُن پر اعتبار نہیں کیا گیا۔ پرویز الٰہی نے عمران خاں کو سمجھانے کی تو بہت کوشش کی لیکن اُنہیں خان کی ضِد کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ اب یہ تو طے کہ آمدہ حکومت اتحادیوں کی ہو یا تحریکیوں کی، چودھری صاحب چراغِ رُخِ زیبا لے کر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ڈھونڈتے پھریں گے۔

عمران خاں کا دعویٰ تو یہی کہ وہ پنجاب میں کلین سویپ کریں گے لیکن اہلِ فکرونظر کے نزدیک یہ صرف دیوانے کی بَڑ ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں تو اتحادی حکومت پورے پاکستان میں عام انتخابات کے لیے مجبور ہو جائے گی لیکن فی الحال تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔

اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز نے متفقہ عبوری وزیرِاعلیٰ کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر دونوں کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوتے تو سپیکر دونوں طرف سے تین، تین ناموں کا انتخاب کرکے کمیٹی تشکیل دیں گے۔ اگر یہ کمیٹی تین دنوں میں کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوتی تو معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے گا جہاں چیف الیکشن کمیشن عبوری وزیرِ اعلیٰ کے لیے کسی ایک نام کا اعلان کریں گے۔ یہ تو بہرحال طے کہ کہ حتمی طور پر معاملہ الیکشن کمیشن ہی میں جائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا عمران خاں چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ کے منتخب کردہ عبوری وزیرِاعلیٰ کو تسلیم کر لیں گے؟

یہ وہی چیف الیکشن کمیشن ہیں جن کے خلاف عمران خاں ہمہ وقت زہر اُگلتے ہوئے اُنہیں نوازلیگ کا ورکر قرار دیتے رہتے ہیں۔ گویا ابھی سیاسی ہلچل تادیر برقرار رہے گی۔