ایک زمانہ تھا انسان کی زندگی نہا یت سادہ تھی بلکہ کمال عروج یہ تھا کہ زندگی کے راستے دشوار گزار اور کٹھن تھے، کیونکہ اسوقت انسان کے استعمال کی وہ اشیاایجاد نہیں ہوئی تھیں جیسی کہ آج ہیں۔
انسانی ضروریات زندگی میں اس نت نئی مشینری اور جدید آلات کی ایجادات نے دنیا کو انقلاب کی شکل دے دی۔ انسان کو کاہل بنا کر جسمانی بیماریوں کا مجسمہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے اس شکل میں آیا کہ حضرت انسان کی مجموعی حیات انسانی سو سال سے گھٹ کر پچاس سال رہ گئی یعنی آدھی ہو گئی۔
زندگی کی بنیادی آسائش بجلی، قدرتی گیس کا نام و نشان تک نہ تھا بلکہ لوگوں کے وہم و گمان بھی نہ ہوا کرتا تھا کہ بجلی اور قدرتی گیس بھی کوئی نعمت خداوندی ہیں۔ ایندھن کے طور پر جست کی چادر یا ٹین سے تیار کردہ مٹی کے تیل کے چولھے اور رات کی تاریکی میں لیمپ اور لالٹینیں روشنی کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ لکڑی، بھینس کے گو بر سے تیار شدہ تھاپیاں جس کو اردو میں اپلے کہا جاتا تھا، ایندھن کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔
اربنائزیشن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لاہور میں ہمارے بچپن اور لڑکپن کا یہی دور تھا۔ جہا ں ہم رہتے تھے وہ سادہ سا شہر تھا، ہندوانہ طرز کے تعمیر کردہ مکانا ت تھے۔ شہر سے چند مسافت کے دوری پر زرعی فصلوں پر مشتمل ایک طویل اراضی تھی، ہم زیادہ تر اسکول اور کالج پید ل ہی جایا کرتے تھے۔ سرکاری سطح پر ریڈیو اور ٹیلی و یژ ن میڈیا اور عوام کی تفریح طبع کا اہم ذریعہ تھا۔ باقی پرنٹ میڈیا کے اہم ذرایع اخبارات، رسائل، جرائد اپنی صحافتی ذمہ داریاں بحسن خوبی پوری کیا کر تے تھے۔
سرکاری اور ملک کے نجی کمر شل اداروں کی طرف سے اشتہارات کی مد میں موصول ہونے والی رقم ان کے کسب معاش کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی تھی۔ فی گھر میں ایک درجن یا اس سے زائد بچے ہونے کے با وجود آبادی کا وہ تناسب نہ تھا جتنا کے آج ہے۔ دور دور تک زمین خالی پڑی رہتی تھی اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوا کرتا تھا۔ اقربا پروری، دولت کی ہوس پرستی کا وہ رجحان ہی نہ تھا جتنا کے آج ہے۔ مافیا کیا ہوتا ہے کسی کو کچھ نہیں معلوم ہوا کرتا تھا۔ عوام ا لناس کا علاج معالجہ سرکاری اسپتالوں میں بہتر انداز میں ہوا کرتا تھا۔
ماضی کا موازنہ کریں تو ہمیں اس امر کا انتہائی ادراک ہوگا کہ ہماری سمت کہا ں ہے اور ہم کہا ں کھڑے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے؟ موجودہ دور سائنسی ترقی کا دور ہے مگر افسوس ہمارا معاشرہ روز اول سے ہی کسی نہ کسی پریشانیوں کا شکار رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں الجھی ہوئی قوم بلکہ میری نظر میں رعایا کہنے کی حقدار ہے۔ ان مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل پا رہا ہے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔
عصرجدید کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مغربی دنیا نے سا ئنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سا ئبر ٹیکنالوجی متعارف کروائی جس سے نوع بشریت خود دنگ ہو کر رہ گئی۔ جس نے بلا شبہ انسان کی زندگی کو یکسر بد ل کر رکھ دیا۔ فاصلوں کی دوری کو ختم کیا اور انٹر نیٹ کی ایجاد نے ایک دوسرے کے رابطہ کو نہایت آسان اور فوری بنا دیا۔ انٹر نیٹ نے جہاں پوری دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے وہا ں معاشرہ میں مثبت اور منفی انقلابی اثرات تبدیلی کی شکل میں لا چکا ہے۔
باالخصوص ہلالی معاشرہ میں نوجوانوں کے ذھن پر کاری ضرب لگا کر اپنے وجود کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ خاندانی رشتے ماند پڑگئے ہیں۔ ہر اس عمل کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے جس کی ہلالی معاشرہ میں مما نعت ہے۔ بزرگوں کا احترام اور پاس لحاظ، والدین کے حقوق و فرائیض اسلامی تعلیمات کے زاویہ نگا ہ کے اندر رہتے ہو ئے اس کی پاسداری کرنا۔ یہ ہمارے تیزی سے زوال پذیرہوتے ہوئے معاشرہ کے ہر فرد کا ذہنی و نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے کہ اب ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل رہنا لازمی ہے۔
بندر کے ہاتھ نا ریل کے مصداق کسی محفل میں داخل ہوتے وقت یہ مو بائل کانوں میں لگا ہوگا یا محفل میں شریک ہیں تو موبائل پرخوش گپیوں میں مصروف ہوں گے۔ شریک محفل سے بات کرنے کی رتی بھر ز حمت ہی نہیں کر نی پڑے گی۔
سوشل میڈیا پر زیادہ تر ذاتی قسم کی سرگرمیا ں زیادہ محسوس کی گئی ہیں۔ علمی گفتگو کے معاملا ت مدہم ہیں۔ میسینجر، فیس بک، واٹس اپ باہمی رابطہ کا فوری اور اہم ذریعہ ہے۔ لوگوں نے اس کو بھی ذاتی دلچسپی و تفریح طبع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس سے تعمیری کام کسی صورت نہیں لیا جا رہا ہے۔ فضول قسم کی چیٹنگ میں اپنے قیمتی وقت کا ضیاع۔ لا ئیکنگ، تبصرہ، شیئرنگ کے تین اہم آپشن دیے گئے ہیں۔
مشاہدہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوگوں کو لائیکنگ کے علاوہ شیئرنگ کرنے کا رجحان قطعا نہیں ہے، اگر آ پ کو پڑھنے کے بعد کوئی تحریر یا ویڈیو معنی خیز اور اصلاحی لگی ہو تو اس کو آگے اپنے گروپ میں شیئرنگ کرنے میں کیا قباحت ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پوسٹ معیاری نہیں ہے تویہ آپ کا بنیادی حق ہے کہ آگے شیئر نہ کریں۔ سوشل میڈیا کے ان اثاثوں کا استعمال مثبت ہونا چاہیے نہ کہ اس کے نتائج منفی ظاہر ہو نے لگ جائیں۔
کل ہی میں سابق سفیر پاکستان سید سبط یحیی نقوی کی حال ہی میں سفارتی سفر کی کہانیوں پر مبنی شایع ہونے والی تصنیف "جو ہم پر گزری " کا سویٹزر لینڈ کے لوگوں کا صفائی رکھنے کے متعلق ایک اقتباس پڑھ رہا تھا۔ لکھا تھا کہ سوئیٹرزلینڈ کے لوگ بے حد صفائی پسند ہیں۔ اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہی ہیں بلکہ پورے ماحول کو بھی صاف رکھتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ گائوں میں حتی کہ گھنے درختوں کے درمیان پہاڑوں، پگڈنڈیوں کے اطراف کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا یا پلاسٹک کی بوتل نظر نہیں آتی۔ ہمارے سفارت خانہ کے قریب ایک صاحب اپنے گھر کے سامنے سے سوکھے پتے صاف کر رہے تھے۔
ہمارے دوست شفقت سعید نے بتایا کہ یہ صاحب سو ئیٹرز لینڈ کے وزیر رہ چکے ہیں۔ صفائی کرنے میں یہا ں کسی کو کوئی عار نہیں ہے بلکہ صفائی کو لوگ اپنی عزت اور فرض سمجھتے ہیں۔" ایک ہم ہیں الحمدا للہ! امت ہلالی کہلاتے ہیں اور اپنے گھر کا کچرا پڑو سی کے گھر کے سامنے لگا دینے میں عار محسوس نہیں کرتے تاکہ صفائی کرنے والے کو اجرت نہ دینی پڑ جائے اور اللہ سے تجارت کی بنیاد پر ہٹے کٹے کاروباری گداگر کو خیرات عنایت فرما دیتے ہیں اور جنت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ہمارا وطیرہ ہے کہ جب تک انسان زندہ رہتا ہے، ہم اس کی خداداد صلاحیتوں سے یا تو واقف ہی نہیں ہوتے یا جان بوجھ کر اس کی خصوصیات کہ یکسر نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ دنیا سے پردہ کر جاتا ہے اس کی واہ واہ کرتے نہیں تھکتے۔ اگر اس کی زندگی ہی میں پذیرائی ہو جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ اس کہنہ مشق پریکٹس میں سوشل میڈیا اور ہماری الیکٹرونکس میڈیا کا بھی اہم رول ہے۔ آج یہاں جتنی بھی برائیاں اور مصیبت و پریشانیاں ہیں ان سب کے ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ کیونکہ ہم خود کچھ نہیں کرنا چا ہتے۔ ظاہر ہے جیسے ہم ہونگے ویسے ہی ہمارے منتخب یا سیلیکٹڈ نمائندے ہونگے۔