میرے جاننے والے اکثر احباب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ سیاست کے موضوع پر کالم کیوں نہیں لکھتے، میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ آپ کونسی سیاست کی بات کر رہے ہیں۔ عالمی سیاست، ملکی سیاست یا دفتری یا خاندانی سیاست۔ عالمی سیاست کے موضوع پر تبصرہ یا کچھ لکھنا بغیر سمجھے یا پڑھے لکھے قطعی نا ممکن ہے۔
رہا ملکی سیاست کا تو وہ میں اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ تین یا چار دہائیوں سے ملک جن مسائل کا شکار ہے کیوں نہ ہو جب اس ملک کی مقتدر قوتیں چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ جائیں گی اور یہ خاندان اپنی املاک، زمینیں اور صنعتوں کے موروثی مالک ہیں انھیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ لوگ ملک میں جمہوریت کا راگ الاپ کر ملک میں اقتدارکے اہم منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔
ان خاندانوں میں سیاسی بصیرت کجا بلکہ ان کی مجموعی اور کلی ترجیحات اپنے کاروبارکو دوا م بخشنا ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور انتخابات کے نتائج کی پرچی ان ہی خاندانوں کے حصہ میں آ جاتی ہے، اگر کوئی عوامی حمایت یافتہ امیدوار عوامی فلاح و بہبود کے جامع منشور کے ساتھ کامیاب ہو بھی جائے تو وہ اپنی شکل ہی گم کر لیتا ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ عوام کو ملکی معاملات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ کوئی آئے کوئی جائے ان کی بلا سے۔ لوگ کب تک مہنگائی، بیروز گاری کا رونا روتے رہیں گے۔ ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کی بیشتر تعداد بیرون ملک اپنی فنی اور علمی خدمات پیش کر رہی ہے اور وہ وہاں مطمئن اور پر مسرت زندگی گزار رہے ہیں۔
ماضی میں ملک کا ایک حصہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا آج یہ ملک ترقی کی جس منزل پر ہے آپ اور میں سب جانتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ملک میں تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دانوں کا فقدان ہے۔ ملک کے انتظامی معاملات کا دارومدار جمہوریت کی عکاس کی بنیاد ڈیمو اور بیوروکریسی پر ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے اوائل میں سیاست کے قائد محمد علی جناح، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان اور دیگر تحریک پاکستان میں شامل معزز رہنما ہی سیاست کی بود و باش رکھا کرتے تھے۔
1972 کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے والی ملک گیر جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تھی جو درست معنوں میں سیاسی جماعت تھی، جس کی قیادت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو جو دور ایوبی کی کابینہ میں ایک طویل عرصہ تک وزارت خارجہ کے منصب پر فائز رہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عالمی حالات و واقعات کو بہت قریب سے دیکھا اور پر کھا بھی تھا۔ وہ جمہوریت کے قائل اور کمیونزم ان کا نظریہ تھا۔ وزیراعظم کا مسند سنبھالتے ہی سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ ان ہی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں انھوں نے بیرونی دنیا سے جی بھر کے داؤ پیچ کھیلے۔ اپنے دور اقتدار میں امت مسلمہ کو ایک منظم پلیٹ فارم کی فراہمی کے لیے انھوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروا کر پوری اسلامی دنیا کو ایک پیج پر لا کھڑا کیا۔
جس سے ملک میں عام لوگوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے اور عام آدمی خوشحالی کی طرف گامزن ہوا۔ ان کے اس منفرد کارنامہ سے ہی تو امریکا جیسی سامراجی قوتیں ناراض ہو گئیں اور انھوں نے بھٹو حکومت کو تہہ بالا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا اور سوویت یونین دنیا کی دو عظیم قوتیں تھیں۔ امریکا میں سرمایہ داری نظام تھا اور سوویت یونین کمیونزم کا حامی تھا چونکہ بھٹو صاحب کے تعلقات متعدد ریاستوں کے مجموعہ سوویت یونین جن کو انگریزی میں USSR (Union of Soviet Socialist Republic) (موجودہ روس)سے تھے، امریکا کویہ بات بھی پسند نہ تھی۔
آ ج جو آپ پاکستان اسٹیل مل کا انتظامی بدحالی کا جیتا جاگتا تباہ حال مردہ ڈھانچہ دیکھ رہے ہیں یہ بھٹو اور سوویت یونین کی بے مثال محبت کا شاہکار تھا، جن کے باہمی اشتراک سے فولادسازی کا یہ عظیم الشان منصوبہ مکمل ہوا تھا۔ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے تھے۔
ایک معلومات عامہ کے مقابلہ میں سوال کیا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کس ملک کی کاوش ہے تو جواب آیا " چین نے" سن کر بے حد افسوس ہوا اور پشیمانی بھی۔ نہ جانے سوویت یونین کو افغانستان میں کیا نظر آیا کہ اس نے اس مٹی کے پہاڑوں پر محیط ملک پر چڑھائی کردی۔ پاکستان میں جنرل ضیاا لحق کا دور اقتدار تھا انھوں نے افغانستان کی سرزمین سے روسی افواج کے انخلا کے لیے کام شروع کیا اور بعدازاں اپنے اقتدار کو طول دیا۔ مجاہدین اور قبائلیوں کے نام پر جنگجو مجاہد فورس"طالبان" کا وجود ہوا اور یہ فورس روسی افواج سے اس انداز سے لڑی کہ آخرکار اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
شکست کا نتیجہ یہ نکلاکہ سوویت یونین کی خود پندرہ ریاستیں آرمینیا، آذر بائیجان، بیلارس، عیسائی ریاست ایسٹونیا، جارجیا، قازقستان، کرغیستان، لیٹویا، لتھوانیا، مالدووا، تاجکستان، ترکمانستان، یوکرائن اور رشین فیڈریشن 1991 میں سوویت یونین سے علیحدہ ہو گئی اور یوں سوویت یونین سمٹ کر روس رہ گیا۔ یاد رہے سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنیوالی بیشتر ریاستیں مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں۔ بہر حال آج ملک کی جو حالت ہے اس کے پس منظر میں یہی حالات کار فرما ہیں۔ آج ہماری منزل کی سمت کس طرف ہے، ہمیں کچھ نہیں پتا۔ ملک میں اقتدارپر براجمان سب کاروباری ہیں، ان کا سیاست اور جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ سب امریکا بہادر کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ ملک کے عوام ایک تو ویسے ہی بد حال ہو چکے ہیں۔
پی ڈی ایم کے نام سے پارٹیوں نے حسب روایت حزب اقتدار پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اتحاد کر لیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی اگلی وزیراعظم مریم صفدر ہو نگیں ویسے بھی الیکٹرنک میڈیا نے ان کی پارٹی کو صبح و شام کوریج دے دے کر زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں اقتدارکی منتقلی میں شراکت کچھ تم کھاؤ کچھ ہم کھائیں کی بنیاد پر محض ایک رسم ہے۔ اب ایسے حالات میں عوام کیا کرے، کس پر بھروسہ کریں۔ کرپشن کیسے ختم ہو، ملک کی معیشت بیرونی قرضوں پر کھڑی ہے۔