عبداللہ بٹ ایک صاحب علم، زیرک دانش ور اور علم و عرفان کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز علم و ادب اور تہذیب و تمدن کے فروغ کے لئے وقف کررکھی تھی۔ مرحوم عمر بھر غربت اور افلاس کے خاتمے اور انسانیت کی بھلائی کے لئے کوشاں رہے۔ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے قلمی اور فکری جہاد کیا اگرچہ عبداللہ بٹ خود عمر بھر نامساعد حالات کا شکاررہے لیکن حوصلہ کبھی نہ ہارے۔ انہوں نے صحافت ایسے پیشے کا تقدس ہمیشہ بحال رکھا۔
6 فروری 1966ء کو چوہدری محمد علی نے اپنی رہائش گاہ واقع گلبرگ لاہور میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ چوہدری محمد علی راقم السطور اور عبداللہ بٹ کو اپنے ہاں حاضری کی دعوت دیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں مذکورہ کانفرنس ملک میں پہلی ایسی کانفرنس تھی جو انتہائی منظم انداز میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی شخص بلا اجازت شامل نہیں ہوسکتا تھا۔ مذکورہ کانفرنس، جو شام تک جاری رہی، کے کئی اجلاس ہوئے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت موجود تھی۔ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن بھی عارضی رہائی پر اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ بدقسمتی سے سیاسی رہنمائوں نے تنگ نظری اور قومی مفادات سے اغماض کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کے ساتھ بمعہ میاں ممتاز دولتانہ حکومت سے مطالبہ کر دیا کہ شیخ مجیب الرحمن کو غیر مشروط طور پر کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ اگر اس کانفرنس کا موثر بندوبست نہ کیا گیا ہوتا تو اس مطالبہ پر یہ کانفرنس بدنظمی اور ہنگامے کا شکار ہوسکتی تھی۔ چوہدری محمد علی جیسے عظیم مسلمان، سچے مومن اور صاحب فہم و فراست کی رہنمائی میں عبداللہ بٹ مرحوم نے جس انداز میں دن رات جدوجہد کی اس پر میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
اس روز کانفرنس میں ایک اہم کام یہ ہوا کہ کانفرنس جاری تھی جس میں ملک و ملت کو درپیش مسئلہ یعنی ون مین ووٹ کی بناء پر قومی رائے دہی اور دوسری طرف مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کی بنیاد پر پارلیمانی نظام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس دوران ایوب خان کی حکومت بار بار اعلان کررہی تھی کہ کانفرنس میں منظور کی گئی قرار دادیں کسی اخبار میں شائع نہیں ہوسکتیں۔ رات گئے اعلان ہوا کہ اس کانفرنس کے حوالے سے کوئی خبر بھی شائع نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن بھی شریک تھے۔ انہوں نے کانفرنس میں موجود بہت سے صحافیوں اور سیاسی رہنمائوں سے بالمشافہ ملاقات کی اور فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملائے۔ میں واضح کردوں کہ میں واحد صحافی تھا جس نے شیخ مجیب الرحمن سے ہاتھ ملانا مناسب نہیں سمجھا۔ میں سمجھتا تھا کہ انہوں نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک جلسہ عام کے دوران بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شان میں گستاخی کی اور ان کے خلاف نعرے لگوائے۔ شیخ مجیب الرحمن نے قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لئے بھارتی حکومت سے ساز باز کی اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے 6 نکات وضع کئے۔ مجھے شیخ مجیب کی ان حرکات سے سخت نفرت تھی لہٰذا میں نے ان سے ہاتھ ملانا اپنی اور پاکستان کے عوام کی توہین سمجھا۔
ٹھیک رات بارہ بجے شیخ مجیب الرحمن نے ملتان سے تعلق رکھنے والے صحافی منظور ملک کے ذریعے مجھے فون کرایا کہ میں شیخ صاحب کے پاس آئوں۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن سے فون پر علیک سلیک ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو 6 نکات کے بارے میں اہم خبر دینا چاہتا ہوں۔ میں نے شیخ صاحب سے عرض کی کہ جناب شیخ میں آپ کی یہ خبر شائع نہیں کرسکتا۔ انہیں معلوم تھا کہ میں اس کانفرنس کی کوریج کے لئے پاکستان ٹائمز لاہور، انگریزی روزنامہ مارننگ نیوز کراچی، روزنامہ مشرق لاہور، کوئٹہ، کراچی، پشاور اور روزنامہ امروز لاہور اور ملتان کی نمائندگی کررہا تھا، جو نیشنل پریس ٹرسٹ کے کثیر الاشاعت اخبارات تھے اور شیخ مجیب الرحمن میرے ذریعے 6 نکات کی تشہیر چاہتے تھے چنانچہ میں نے مؤدبانہ انداز میں ان سے معذرت کی کہ میں اپنی قوم اور ملک کے مفاد اور وقار کے خلاف یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس پر انہوں نے فون منظور ملک کو دے دیا۔ منظور ملک نے مجھے کہا ریاض چودھری صاحب، آپ کو معلوم نہیں ہے کہ شیخ مجیب الرحمن آپ کی کس قدر مالی مدد کرسکتے ہیں۔ میں نے منظور ملک سے کہا کہ میں ایک معمولی مگر غیور پاکستانی ہوں اور رزق حلال کما کر کھاتا ہوں۔ مجھے حرام خوری کی عادت نہیں۔ میں نے کہا شیخ مجیب الرحمن میرے ہاتھ پر پوری کائنات بھی رکھ دیں تو بھی میرا طرز عمل انشاء اللہ ملک و ملت کے حق میں ہوگا۔
ملک منظور اس وقت کنونشن لیگ مغربی پاکستان کے اخبار کوہستان، جو ملک خدا بخش بچہ کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا، کے رپورٹر تھے۔ چنانچہ انہوں نے 7 فروری 1966ء کے شمارہ میں 6 نکاتوالی خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی مگر اس اخبار کی اشاعت محدود تھی۔ بعدازاں مشرقی پاکستان کنونشن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ اور کنونشن لیگ مشرقی پاکستان کی صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس منعقد ہوئے جس میں ان چھ نکات کو مسترد کر دیا گیا۔ لیکن اس بارے میں مشرقی پاکستان کے کسی اخبار میں خبر شائع نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ فقیر عبدالمنان اور دیوان عبدالباسط یہ دونوں رہنما لاہور آئے اور انہوں نے ڈیوس روڈ پر واقع ایمبیسڈر ہوٹل میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ میرا معمول رہا ہے کہ میں اکثر ایسی تقریبات میں وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہوں چنانچہ میں ہوٹل پہنچا تو ان دونوں اصحاب سے مصافحہ کیا۔ وہاں مرکزی وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین بھی تشریف رکھتے تھے۔ ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس دوران مجھے دونوں رہنمائوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی پاکستان کا پریس محب وطن ہے جب کہ مشرقی پاکستان کا پریس بھارت کے ہاتھوں بک چکا ہے۔ وہاں چھ نکات کے خلاف کسی لیڈر کی خبر چھپ ہی نہیں سکتی۔ میں نے عرض کیا خواجہ شہاب الدین صاحب تشریف فرما ہیں ان کی وزارت اطلاعات میں چھ نکات بنے ہیں اور یہ اس حوالے سے شیخ مجیب سے ملے ہوئے ہیں۔ میں یہ بات پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے کررہا ہوں میرے پاس معلومات ہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ چھ نکات خواجہ شہاب الدین کی توثیق سے لکھے گئے اور شائع ہوئے ہیں اور مشرقی پاکستان کے پریس اور ٹرسٹ کے اخبارات پر ہندوئوں اور مکتی باہنی کا قبضہ ہے لہٰذا آپ کے اصل مجرم خواجہ شہاب الدین ہیں ان کا محاسبہ کیجئے۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور کے کالم نگار نجم الحسن ضیغم مرحوم گاہے بگاہے لکھتے رہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات کو نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات نے شائع کیا۔