21 فروری 1952 کو ڈھاکہ کی سڑکوں پر ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نئی ریاست بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی۔ اس دن عام ہڑتال کی کال دی گئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں دفعہ 144 نافد کر دی گئی تاکہ مجمع جمع نہ ہوسکے۔ لیکن احتجاج کو روکنے کے لیے یہ ناکافی تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ تب یوم شہدا کا جنم ہوا۔ پولیس نے گولی چلا دی جس سے متعدد مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر طلبا تھے۔ اس واقعے نے زبان کے مسئلہ پر ہونے والے مظاہروں کو مزید بھڑکا دیا اور یہ تب تک کم نہیں ہوئے جب تک بنگلہ کو چار سال بعد سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے اپنے جیسے دوستوں اور بھارتی کرم فرماؤں سے مل کر "راشٹرا واسا سنگرم پریساد" نامی ایک تنظیم بنائی۔ ابتدا میں انھوں نے اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھیں۔ بعد میں یہ گروہ کھل کر سامنے آیا اور زبان کو بنیاد بنا کر پاکستان کے حصے کرنے کی طرف بات چل نکلی۔
شیخ مجیب کی جانب سے یہ دو ٹوک احکامات تھے کہ اردو بولنے والوں اور ایسے بنگالیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے جو اپنے دل میں مغربی پاکستان کے لیے ذرا برابر بھی ہمدردی رکھتے ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ مکتی باہنی میں مقامی بنگالیوں کی تعداد محض 20 فی صد تھی جب کہ اس عسکری ونگ کے 80 فی صد ارکان کا تعلق بھارت سے تھا۔ جنھیں مغربی بنگال سے بلایاگیا تھا چوں کہ شکل و صورت اور رہن سہن میں یہ مقامی بنگالیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ اس لیے یہاں کے معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان کی شناخت کرنا مشکل تھی۔
مشرقی پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنٹوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے پاک بحریہ اور سول سروس سے وابستہ بعض ملازمین کو بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ اس کا مقصدپاک فوج کے خلاف اعلان جنگ کرنا تھا۔ بغاوت تاریخ میں "اگر تلہ سازش کیس" کے نام سے مشہور ہوئی۔ بغاوت کا منصوبہ یہ تھاکہ پاک افواج و حکومت میں موجود بنگالی افسروں کو ساتھ ملا کر ان سے بغاوت کرائی جائے۔ چنانچہ عوامی لیگ کے رہنما حکومت و فوج میں شامل بنگالی افسروں سے رابطہ کرانے لگے۔ ان کے سامنے یہی رونا رویا جاتا کہ حکومت ہر شعبے اور سطح پر بنگالیوں کا استحصال کررہی ہے۔
اگرتلہ سازش کے ذریعے ثابت ہوگیا کہ شیخ مجیب الرحمن علیحدگی کی راہ پر چل نکلے تھے۔ وہ اب مشرقی پاکستان کو علیحدہ مملکت بناکر وہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اور آنے والے وقت نے بھی دیکھا کہ حکومت پاکر شیخ مجیب الرحمن آمر بن بیٹھے جبکہ ان کے رشتے دار کرپشن کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی ہوگئے۔ لیکن اس وقت عام بنگالیوں کی نظر میں شیخ مجیب الرحمن نجات دہندہ تھے۔ انہیں یقین تھا کہ خود مختاری پاکر غریب بنگالیوں کی حالت سدھر جائے گی۔
سقوط ڈھاکہ سے قبل بیرون ممالک میں جاسوسی اور دہشت گردی کرانے کے لیے را کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ لہذا مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے خلاف کارروائیاں کرنے اور باغیوں کو مدد دینے کا منصوبہ را کے حوالے کردیا گیا۔ را کا سربراہ، آراین کاؤ تھا۔ اس نے را کے سیکڑوں ایجنٹ مشرقی پاکستان بھجوا ئے تھے جو علیحدگی پسند تحریک کو کامیاب کرنے کی سعی کرنے لگے۔ ان سے مسلسل رابطہ رکھنے کی خاطر پاک بھارت سرحد پر را کے کئی مراکز تعمیر کیے گئے۔ انہی ایجنٹوں کے ذریعے عوامی لیگ کے غنڈوں کو اسلحہ بھی ملا جو بہاریوں وغیرہ پر استعمال ہوا۔ یوں مغربی اور مشرقی پاکستان کے لوگ آپس میں لڑ لڑ کر کٹ مرتے، جبکہ بھارتی یہ تماشا دیکھ کر خوشی سے بغلیں بجاتے۔
درحقیقت را کے ایجنٹ ہی نے شیخ مجیب الرحمن کو اطلاع دی تھی کہ پاک فوج انہیں گرفتار کرنے آرہی ہے۔ شیخ صاحب نے خود تو گرفتاری دے دی، مگر بقیہ قیادت کو بھارت فرار کرادیا تاکہ وہاں سے مسلح بغاوت کا آغازہوسکے۔ عوامی لیگ کے سبھی بڑے لیڈر مثلاً سید نذر اسلام، تاج الدین احمد، خوندکر مشتاق احمد، قمرالزماں، منصور علی وغیرہ کلکتہ جاپہنچے۔ وہاں را چیف، آر این کاؤ نے انہیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ کاؤ کے مشورے سے ان لیڈروں نے 17 اپریل 1971ء کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت قائم کردی۔ نیز "آزاد بنگلہ دیش" کے نام سے ریڈیو اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان علیحدگی پسند دستوں کے مابین رابطہ ہوسکے۔
حسینہ واجد نے اس واقعے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ شیخ مجیب الرحمن کا قتل پہلے سے طے تھا اور اس پر عمل درآمد پاکستان نے کیا۔ حقیقت میں شیخ مجیب شروع ہی سے بھارت کے ہاتھ میں کھیل رہے تھے۔ بھارت یہ کیسے برداشت کر لیتا کہ پاکستان پھلے پھولے اسی وجہ سے اس نے شیخ مجیب کو استعمال کیا اور بنگلہ زبان کو ٹارگٹ بناتے ہوئے پاکستان کو دولخت کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔
بنگلہ دیش میں ہونے والی ایک تقریب میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیش کے قیام میں "فعال کردار" ادا کرنے اور دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط بنانے پر "بنگلہ دیش لبریشن وار آنر" سے نوازا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موقع پر کہا کہ جب بنگلہ دیش کیلئے لڑائی لڑنے والے بنگلہ دیشی اپنا خون بہا رہے تھے، تو بھارتی بھی انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر رہے تھے۔ اسطرح انہوں نے بنگلہ دیش بنانے کا خواب پورا کرنے میں مدد کی۔ بقول ان کے ہر بھارتی چاہتا تھا کہ آزاد بنگلہ دیش کا خواب حقیقت بنے۔
امسال فروری میں مادری زبان تقریب سے خطاب میں حسینہ واجد نے اعتراف کیا کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی سیاستدانوں، انتہا پسند ہندوؤں اور بھارتی حکومت نے بھرپور ساتھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن مادری زبان بنگلہ کی بنیاد پر ایک الگ ملک بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے اور یہ خیال ان کے دل میں 1948 سے ہی تھا۔
1947ء میں دو ایسی قوموں کے ساتھ پاکستان کی تخلیق ہوئی جن میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا، الگ زبانیں بولتے تھے اور ثقافتی طور پر بھی یکساں نہیں تھے۔ ایسے میں نظریاتی اختلافات ہونا ناگزیر تھے۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان نام کا ملک ہو گا تو اس بات پر بحث ہونے لگی کہ سرکاری زبان کیا ہوگی اردو یا بنگلہ؟ حتی کے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں عربی اور انگریزی زبانیں بھی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان کی کل چھ کروڑ نوے لاکھ کی آبادی میں چار کروڑ چالیس لاکھ افراد بنگالی زبان بولتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1948 میں محمد علی جناح ڈھاکہ آئے۔ مشہور ریس کورس میدان میں انھوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اردو صرف اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہو گی۔