مرشد نے بہت پہلے کہا تھا لیکن ہم اب سمجھے کہ
اپنے پہ کررہاہوں قیاس اہل دہرکا
سمجھا ہوں دلپذیر ہرمتاع ہنر کو میں
ہرطرف چہار دانگ عالم میں انصاف یعنی ففٹی ففٹی یا نصف لی ونصف لک۔ اورآدھی تیری آدھی میری کا عالم دیکھ کر ہم نے دہر کو تو اپنے پر قیاس نہیں کیا کیوں کہ ہمارے پاس کوئی دل پذیر "متاع ہنر" ہے ہی نہیں البتہ اپنے کو دہر پر قیاس کیا تو زبردست قسم کی مشابہت نظرآئی۔
جہاں اور دہر بھی سارا ففٹی ففٹی اورمبنی بر انصاف اورہم بھی ففٹی ففٹی نصف نصف آدھے آدھے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب ہم نے دہر میں انصاف ہی انصاف پایا تو اچانک احساس ہوا کہ سب کچھ تو جانا پہچانا لگ رہاہے، تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے اجنبی سی ہومگر غیرنہیں لگتی ہو۔ سوچتے رہے کہاں دیکھا ہے یہ نصف نصف یہ ففٹی ففٹی یعنی انصاف کہاں دیکھا ہے، کہاں دیکھا ہے اور پھر اچانک خیال آیا کہ کہیں اورنہیں یہ تو ہم نے خود اپنے آپ میں دیکھا ہے ہم بھی ہرلحاظ سے انصاف یعنی نصف نصف اور ففٹی ففٹی ہیں۔
ہم سمجھاتے ہیں بلکہ ثابت کرتے ہیں، پہلے تو یہ دیکھتے کہ ہم مسلمان بھی آدھے ہیں، باہرسے ہیں اندر سے نہیں، نمازپڑھتے لیکن "صاف" نہیں ہوتے، سحری افطاری کرتے ہیں، روزہ نہیں رکھتے اورجو رکھتے ہیں وہ بھی آدھا ہوتا ہے۔
ہم پشتون ہیں لیکن پورے نہیں آدھے کہ نصف بہادر ہیں۔ یعنی فرارکو بھی آدھی بہادری سمجھتے ہیں ڈرنا اورڈرتے رہنا بھی آدھی عقل مندی ہے۔
اپنے نام ہی کو لیجیے، پشتون ہیں لیکن "خان" نہیں "جان" ہیں، یہاں بھی اوپر کا نقطہ نیچے یعنی آدھی بہادری۔ یہ کہنا ادھورا نہیں ہے کہ پشتون بھی یعنی نسل اورخون کے لحاظ سے بھی آدھے پشتون اورآدھے کا کاخیل ہیں جو سید کہلاتے ہیں گویا وہی ففٹی ففٹی، نصف نصف اورانصاف۔
جھوٹ میں سچ ملاکر اورسچ میں جھوٹ ملاکر بولتے ہیں، نہ پورا جھوٹ بولتے ہیں نہ پوراسچ، یہاں بھی انصاف ہی انصاف۔ ایسے میں دہرکو اپنے پر اور اپنے کو دہر پرقیاس نہ کریں تو کیاکریں کہ انصاف کا "تقاضا"یہی ہے، ففٹی ففٹی کی ڈیمانڈ یہی ہے، آدھی تیری آدھی میری کی حقیقت یہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم اپنے ادھورے پن یا نصفا نصفی پربہت کڑھا کرتے تھے کہ یہ کیاکہ پشتون ہوتے بھی ہم آدھے ہیں، مسلمان ہوکربھی آدھے ادھورے مسلمان ہیں، "خان" ہوتے ہوئے بھی جان ہیں، آدھے صحافی آدھے ادیب ہیں، ان پڑھ اورجاہل ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو عالم بلکہ علامہ ہونے کا دھوکہ دے رہے ہیں، نیم پشتون، نیم کاکاخیل ہیں، آدھا سچ اورآدھا جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ میں سچ کی ملاوٹ کرتے ہیں بلکہ جھوٹ کو سچ اورسچ کوجھوٹ کہتے ہیں، سمجھتے ہیں اورجانتے ہیں اوریہ کہ ہیں پینڈو اورباتیں شہروں کی کرتے ہیں، بقول کسے، کھاتے ساگ ہیں اورڈکاریں مرغ کی لیتے ہیں گویا سب کا سب وہ ہیں۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اوریوں بھی۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسامرے آگے
لیکن اب خوش ہیں مطمئن ہیں مزے میں ہیں کہ ہم اکیلے ایسے نہیں بلکہ دہربھی ہم جیسا ہے یا ہم بھی دہر کے جیسے ہیں، خاص طورپر یہ جو آج کل نصف نصف یعنی انسان یعنی ففٹی ففٹی آدھی تیری آدھی میری کا دوردورہ ہے۔ اسے دیکھ کر توہم پھولے نہیں سما رہے ہیں۔
جی خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
دوسرا مصرعہ اس لیے نہیں سناسکتے ہیں کہ پھر توشعرکے ساتھ ہم بھی پورے ہوجائیں گے جو ہمارے مزاج اور"انصاف" کے خلاف ہے ویسے غالباً یہ شعر عبدالحمید عدم کاہے جو خود بھی نصف نصف یعنی ہماری طرح تھے، رہتے دنیا میں تھے اورکہلاتے تھے "عدم"، اتنے بڑے وجود کو عدم کہنا کسی نصف نصف یا انصاف دار کا کام ہوسکتا ہے۔ ایک دن ہمارے گاؤں ایک بہت بڑا خان آیا تھا، قہرخداوندی سوری کورونا وائرس بھی اس کے ساتھ چارپائی پر ادوائن کی طرف بیٹھاتھا۔ اچانک وہ خان کے کوٹ کا کپڑا غورسے دیکھنے لگا پھر نہایت ادب سے خان کا کوٹ چھوکر کہنے لگا…خان… میرے کوٹ کا کپڑا اورآپ کے کوٹ کا کپڑا ایک ہے حالانکہ خان کا نیاکوٹ نہ جانے کتنی قیمت کا ہوگا اورکورونا وائرس کاکوٹ کباڑی بازارکابھی نہیں بلکہ زمین پر بیٹھے ہوئے کباڑی سے آٹھ روپے میں خریدا ہوا کوٹ تھا۔
چنانچہ ہم بھی "دہر" کے انصاف سے اپنا انصاف ملاکراچھا نہیں کررہے ہیں۔ کہاں زمین کی خاک اور کہاں عالم پاک لیکن کیا کریں، دل کے خوش رکھنے کو بھی توکچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔ اب مثلاً وہاں یعنی دہرکا انصاف دیکھئے جس کا ذکر روزانہ بڑی باقاعدگی بلکہ دوا کی طرح صبح وشام کر رہے ہیں خاص طور پر ہمارے وزیراعلیٰ تو یہ خبر بھی لائے ہیں کہ پی ٹی آئی کی کامیابیوں کی دنیا معترف، مشکلات ختم ہوتی جارہی ہیں۔ صنعت کاری کے ذریعے بیروزگاری کا خاتمہ ممکن بنائیں گے۔
اور اس کی اطلاع بھی کسی ایسے ویسے ذریعے نے نہیں دی ہے بلکہ اطلاعات کے نہایت ثقہ اورہمیشہ سچ بولنے اورسچ کے سوا کچھ نہ بولنے والے وزیر نے دی ہے۔ وزیراعلیٰ کے بہترین فیصلوں نے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیاہے۔ تیزترک گامزن منزل مادورنیست۔ امریکی صدر نے بھارت میں عمران خان کی تعریف کی ہے اب اتنے زیادہ اوربڑے بڑے انصافوں کے مقابلے میں ہماراچھوٹا سا ففٹی ففٹی یا انصاف کیابیچتا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ مماثلت بھی ہمارے لیے کافی ہے۔
بس یہی آپ کو بتانا تھا کہ ہمیں ایسا ویسا نہ سمجھیں ہم بھی انصاف کے نمونے اورعلمبردار ہیں پھر نہ کہنا خبرنہ ہوئی۔ کہ، ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔ ہم نے تودہر کو اپنے اوپر قیاس کرلیا۔ آپ چاہیں تودہر کوہمارے اوپر قیاس کرسکتے ہیں آدھا یہ آدھا وہ…پورا یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں۔ مزید فلسفہ بگھاریں تو " ہے بھی اور نہیں بھی"
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہرچند کہیں کہ ہے نہیں "ہے"