جس طرح بقول منیرنیازی
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اردو کے قدیم شاعر مرزا رفیع سودا کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ جب اسے کسی پرغصہ آتاتھا اور اس کی ہجو لکھنے کا ارادہ ہوتا تو اپنے نوکرکو آواز دیتا۔ غنچے ذرا لانا تومیرا قلم دان۔ ہمارے گاؤں میں بھی ایک بزرگ گزرے ہیں کہا جاتاہے بڑے لٹھ باز تھے اور ساتھ ہی کچھ افیونی بھی۔ جب کسی سے تکرار ہوتی تو اپنے بیٹے سے کہتے ذرا دوڑ کر میری ڈانک اور افیون تو لانا۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے اخباروں میں کوئی خاص نام یا چیز یا اصطلاح آتی ہے تو ہم پر فوراً تحقیق کا بھوت سوار ہوجاتاہے اور اپنے"ٹٹوئے تحقیق"کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔
ان دنوں اخباروں میں اشتہاروں میں لیڈروں کے بیانات میں دانا دانشوروں کے ارشادات میں اور کالم نگاروں تجزیہ نگاروں کی رشحات میں اور تھنکروں اینکروں اور ٹینکروں کے خیالات میں ایک نام "عالمی ضمیر"کابہت آتارہتاہے کہ عالمی ضمیرکوجگانا چاہیے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہیے عالمی ضمیرکویہ کرنا چاہیے وہ کرنا چاہیے۔ اب ہمیں یہ تجسس توہونا چاہیے کہ یہ عالمی ضمیر کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے اس کا پتہ کیاہے اور سویا ہوا کہاں ہے؟انوپم کھیر نے ایک فلم میں ایک شاگرد کو "تحقیق" پرمامور کرتے ہوئے کہا تھا کہ پتہ لگاؤ کہ فلاں کہاں رہتا ہے کہاں اٹھتا بیٹھتاہے کہاں سوتا ہے اور"کس"کے ساتھ سوتا ہے۔
اور ہمیں بھی یہی معلوم کرناہے کہ یہ "عالمی ضمیر" کہاں سویا ہوا ہے کس کے ساتھ سویا ہوا ہے اور یہ کیسا سویا ہے کہ جاگتا نہیں ہے اور اسے ایسا کیا ہوا ہے کہ اسے جگانے کی ضرورت پڑ گئی۔ "عالمی ضمیر"کے نام سے تو اندازہ ہوتاہے کہ یہ کوئی انسان ہی ہے جیسے بخت ضمیر، گل ضمیر، خان ضمیر، شاہ ضمیر، حسن ضمیر اور فاروق ضمیر وغیرہ لیکن اس بیچارے کو بے وقت جگانے کی آخرکیا ضرورت پڑگئی، بیچارا تھکا ہواہوگا۔ خواہ مخواہ جگانے سے تکلیف ہوگی۔ بلکہ ایک قسم کا آزار دینا ہوا کیونکہ بزرگ کہتے ہیں کہ کسی کونیند سے جگانا اچھی بات نہیں ہے۔
اور پھر ایک بات جو ہمیں بہت زیادہ کھٹک رہی ہے وہ یہ ہے کہ کیاان لوگوں نے جو "عالمی ضمیر"کوجگانے کے درپے ہیں اپنے اپنے ضمیروں کو جگایا ہواہے؟کیونکہ دوسروں کو تو وہی جگاسکتاہے جو خود جاگا ہوا ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک"سویا"ہوا شخص کسی اور "سوتے کھوتے"کوجگائے۔ خیر وہ توہم مان لیں گے کہ اپنے ہاں "نیک کام"دوسروں سے کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے اور حسب معمول حسب عادت اور حسب روایت چاہتے کہ عالمی ضمیر کوجگانے کی نیکی بھی کوئی اور کمائے لیکن یہ تو دیکھنا چاہیے کہ وہ جن سے عالمی ضمیر کوجگانے کی نیکی کروانی مقصود ہے وہ اور ان کے "ضمیر"جاگے ہوئے ہیں یا نہیں؟
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو"جاگے"ہیں خواب میں
ویسے یہ بات ابھی تک پتہ نہیں چلی کہ "عالمی ضمیر" کو آخر جگایا کس لیے جارہاہے یعنی جاگ کر یہ مسمی"عالمی ضمیر"کرے گا کیا؟یا اس سے کیا کروانا مقصود ہے۔ تازہ صورتحال کے مطابق تو "مسئلہ کشمیر"ہی ایسا ایک اہم ہے جسے حل کروانا ہے۔ اور شاید اس "عالمی ضمیر"سے یہی کام کروانا مقصود بھی ہے اس سے پہلے ضروری مسئلہ "مہنگائی" کا تھا لیکن وہ تو خود بخود اس مسئلہ کشمیر سے حل ہوگیا ہے۔
ایک محلے میں ایک شخص ڈھول بجا کر لوگوں کو ڈسٹرب کرتاتھا محلے کے لوگ تنگ آکر بزرگ کے پاس گئے کہ آپ دعا کریں کہ خدا اس ڈھول والے کو غارت کرے جو ہروقت ڈھول بجابجاکر ہماری نیند اور عبادت میں خلل ڈالتا ہے۔ بزرگ نے کہا کہ میں دعاکروں گا لیکن اگر خدا نے پوچھ لیا کہ تم ایک ڈھول والے کو بھی خود ٹھیک نہیں کرسکتے اور یہ چھوٹا ساکام بھی مجھ سے کروارہے ہو تو میں کیا جواب دوں گا۔ اور یہی ڈر ہمیں "عالمی ضمیر"کے بارے میں بھی ہے اگر جاگنے پر اس نے کام پوچھ لیا اور ہم نے بتادیا کہ کیا تم اتنے مشنڈے جو ساری دنیا کو فتح کرنے کی بڑھکیں ہانکتے ہو۔
امریکا یورپ روس یہاں تک کہ چاند اور سورج تک کو بھی "سیدھا"کرنے کے مدعی ہو اس ایک مسئلے کوبھی حل نہیں کرسکتے تو تفُ ہے تم پر اور تمہارے ضمیروں پر۔ اور پھر یہ بھی توہے کہ کیا واقعی یہ "عالمی ضمیر"نام کا شخص واقعی سویا ہوا بھی ہے یا جان بوجھ کر سونے کی اداکاری کر رہا ہے کیونکہ کسی سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے جان بوجھ کر جاگے ہوئے "سوئے"کو کوئی کھوتا ہی جگانے کی کوشش کرے گا۔
اس سونے جاگنے پر ایک لطیفہ یاد آیا جو ایک سعودی پلٹ آدمی نے اپنے ہی گاؤں کے دو بھائیوں کے بارے میں سنایا ہے۔ یہ دو بھائی وہاں اچھی پوزیشن میں تھے اس لیے کوئی مسئلہ ہوتا تو ہم ان کے ڈیرے پہنچ کر ان سے مدد کی درخواست کرتے۔ بڑا بھائی کہتا ہاں ٹھیک ہے میں اپنے بھائی سے مشورہ کرکے بعد میں بات کروں گا۔ اس کا بھائی جو پاس پڑا ہوا ہوتا۔ بڑا بھائی اس کی طرف اشارہ کرتا اب تو میرا بھائی فی الحال سویا ہوا ہے پھر آواز دیتا بھائی "سویا ہوا" بھائی جواب دیتا۔ ہاں لالا۔ بڑا پھر کہتا۔ تم سوئے ہوئے ہو نا۔ چھوٹا اسی طرح آنکھیں موندے جواب دیتا ہاں لالا میں سویا ہوا ہوں۔ اور ہمیں شک ہے اور ہمارا شک یقین سے بھی پکا ہے کہ یہ "عالمی ضمیر"نامی بندہ بھی ایسا ہی "سویا"ہوا ہے اور ایسا سویا ہوا جاگ کربھی سویا ہوا ہی رہتاہے۔