ہائے ایک زمانہ تھا جو اگرچہ پرانا تھا لیکن بڑا ہی سہاناتھا، کہ پیٹ بھر میں کھاناتھا لبوں پرخوشی کا ترانا تھا لیکن افسوس دل محسوس کے یہ خیالات زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ جب اس کی یاد آتی ہے تو ساتھ ہی لبوں پر فریاد آتی ہے۔ یعنی
آئی تمہاری یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
اب ہم کیایہ بھول سکتے ہیں جب ایک روپیہ لے کربازار میں نکلتے تھے، خراماں خراماں چلتے تھے اور ادھر ادھر کی چیزیں ہاتھ ملتی تھیں کہ یہ حسینہ ماہ جبینہ ہاتھ آئے لیکن نہایت بے نیازی تیر اندازی و ادا طرازی سے کسی پہ نگاہیں بھی نشانہ باندھ کر بے نیازانہ، متکبرانہ اور تیراندازنہ نظر ڈال کر آگے آگے بڑھ کریہ زبان حال کہتی نظرآتی کہ
برسماع راست ہرکس چیرنیست
طغمہ ہر مرغکے انجیرست
کسی میں اتنی جرات ہمت اور حوصلہ نہیں ہوتا، کہ اس کو پوری کی پوری حاصل کرتی اگر اپنے"نرخ" اور قیمت بڑھا چڑھا کربھی سامنے لاتی تو وہ اپنا صرف ایک معمولی سا جلوہ آنہ پائی پیسہ دکھاکر تو وہ بازار لوٹ لیتی تھی۔ قیمتی سے قیمتی چیز کی بھی یہ مجال نہ ہوتی کہ اس پوری حسینہ کی تمنا کرتی۔ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا عید کے مواقعے پر والدین ہمیں ایک روپیہ دیتے تھے تو میلے کے تمام کھیل تماشے ڈھول تباشے بھی دیکھ آتے تھے، ہر ہر چیز پیٹ بھر کر کھابھی لیتے تھے اور جلیباں مٹھائیاں اور کھلونے وغیرہ بھی بہت سارے لے آتے تھے، پھر بھی جیب میں ہاتھ ڈالتے تو بہت سارے چاندی تانبے کے سکے نکل آتے تھے۔
پھرنہ جانے اسے کس منخوس نا مانوس سیاہی چوس مکھی چوس مثل کابوس کی نظر لگ گئی اور اس کو "ڈالریریا"نامی بیماری ہوگئی جو موجودہ زمانے کی ام الامراض اور ابولامراض بیماری ہے، جسے ایک مرتبہ ہوجاتی ہے تو پھر تب تک جان نہیں چھوڑتی جب تک وہ جان یہ جہان نہیں چھوڑتی۔ پہلے زمانوں میں "دمہ"کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دمہ دم کے ساتھ ہوتاہے لیکن اب کہا جاتا ہے "ڈالریریا"دم اور دُم دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حسینہ جہاں نازنینہ دوران ہرکس وناکس کی "جان" روپیہ بھی اس کا شکار ہوگیا، ایسا بیمار ہوگیا اور خوار ہوتے ہوتے سارے عالم میں اور بچوں بھکاریوں کے سامنے بھی شرمسار ہوگیا بلکہ فرار ہوکر نہ جانے کس جہاں میں کھوگیا۔
شرم رسوائی سے جا چھینا نقاب خاک
ختم ہے الفت کی تم پر پرداہ داری ہائے ہائے
اس دن دراز میں کچھ ڈھونڈ رہے تھے کہ کاٹھ کباڑ میں ایک پرانا روپیہ کا سکہ ملا۔ یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ روپیہ کا پرانا سکہ ہے ورنہ پہلی نظر میں تو ایسا لگا جسے کوئی بہت ہی گندے قسم کی کوئی چیز دراز میں آکر مرگئی ہو اور پھر مرورایام سے دب دباکر یہ شکل اختیار کرلی ہو کیونکہ ہلکی ہلکی بدبو بھی اس سے نکل کرناک کو خطرناک سندیسے دے رہی تھی لیکن کراہت سے چھو کردیکھا تو
یہ لاش بے کفن روپیہ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا
لیکن اب نہ مرد تھا نہ فرد تھا ایک سکہ درد تھا۔ جس کا رنگ کچھ سیاہ اور کچھ زردتھا۔ یعنی دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا۔ "کیش"نبرد پیشہ طلب گار مردتھا۔ گویا دل تاجگر جو ساحل دریائے خون تھا۔ اس رہگزر میں "جلوہ گل"آگے گرد تھا۔ ہم نے اگر اس کا زمانہ عروج وخروج اور بلندبروج نہ دیکھا ہوتا تو کچھ زیادہ تردد کیے بغیر کوڑے کے ساتھ سمیٹ کر پھینک دیتے لیکن اب جو اس کی یہ "بے گوروکفن لاش"دیکھی تو دل بھر آیا۔
دکھاتا ہے ظلم یہ جہاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کسیے کیسے
ہاتھ میں لیے دیکھتے رہے، سوچتے رہے، دل ہی دل میں روتے رہے کیونکہ ہم نے اس کے ذریعے کیاکیا عیش نہیں کیے، اس کے کیاکیاجلوے نہیں دیکھے تھے، اس کے خاندان کا کوئی چھوٹا سا رکن پیسہ ٹکہ آنہ بھی دکھائی دیتا تو لوگ جھک جھک کر آداب کرتے تھے۔ خود ہم جب اسکول جاتے تھے تواس کے خاندان کا ایک عام سا "رکن"آنہ ہمارے ساتھ ہوتا تھا جس کے طفیل ہم نہ جانے کیاکیا حاصل کرلیتے تھے، ایسی کوئی چیزتھی ہی نہیں جو اسے "نا"کرتی۔؟ہمیں یاد ہے ذرا ذرا جب چینی کا نرخ چار آنے بڑھا تو قیامت برپاہوگئی۔ ایک وزیر کو چینی چور کا خطاب ملا اور اسے اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس زمانے کے ایک شاعر حبیب جالب نے کہا
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
یاد رہے کہ وہ"من"پچاس کلوکا ہوت اتھا اور یہ رائج الوقت قسم کے توڑے اور تھیلے اس میں پانچ آتے تھے، گویا یہ جو ہزار آٹھ سو کا تھیلا ہے، اس کی کل قیمت "چار"روپے تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس "ڈالریریا"نے اس کاکام تمام کیا، اسے پہلے بدنام پھرعام کیا اور آخر میں "بے نام" کیا۔ اور اب یہ ہماری تھیلی رو رو کرنوحہ کناں ہے کہ
عہدجوانی رو روکاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
ہم نے بھی اسے بے آرام کرنا مناسب نہیں سمجھا اسے "زنگ" کے کفن سے نکالا۔ اور بڑے اختیاط اور عقیدت کے ساتھ اسی درازمیں اس کی تجہیزوتکفین کر دی۔
برمزار ماغریباں نے چراغے نے گلے
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے