آج ہم ایک بہت ہی انوکھے، عجیب الخلقت اور عجیب الہلاکت جانور کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس میں تقریباً تمام جانوروں کے بھی "گن" پائے جاتے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ دوسرے جانور تو جو کچھ کرتے ہیں اپنی جبلت پرکرتے ہیں یعنی وہی کرتے ہیں جس کے کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
شیر بھیڑ یا اور دوسرے درندے اگر چیرتے پھاڑتے، مارتے اور کھاتے ہیں تو یہی ان کی فطرت ہے۔ جو گھاس کھاتے ہیں یہی ان کی جبلت ہوتی ہے۔ اپنی اس جبلت اور فطرت کو اگر وہ چھوڑنا بھی چاہیں تونہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن جس جانور کا ذکر ہم کررہے ہیں، جو بڑی بے شرمی سے خود کو انسان کہتاہے یا حیوان اعلیٰ، یااشرف المخلوقات اور نہ جانے کیا کیا۔
اس نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنے زور بازو اور محنت سے حاصل کیاہے۔ اس سلسلے میں یہ خود اپنا استاد بھی ہے اور اپنا شاگرد بھی۔ اسے اصطلاحاً"سیلف میڈ" کہا جاتاہے یعنی یہ تمام خوبیاں اور ہنر اس نے خود حاصل کیے ہیں یہاں تک کہ ایک دن جب اس نے ایک سادہ لوح جانور پر زبردست تشدد کیا اور بعد میں اپنے اس فعل لائق صد تحسین پردھیان دیا تو پشیمانی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا، شیطان یہ تم نے کیا کروالیامجھ سے۔ اس پر شیطان نے دست بستہ عرض کیا کہ استاد محترم کیوں میرے کالے دامن پرسفید داغ ڈال رہے ہو، یہ جو تم نے کیاہے۔
ایسا کمال کا آئیڈیا تو میرے باپ دادا کے تصور میں بھی کبھی نہیں تھا اور تم نے کردکھایا، اس لیے آج سے مجھے اپنی شاگردی میں لے کرممنون ومشکور فرمائیں۔ ویسے تو اس کے کمالات اور ہنرات سے اس کی ساری تاریخ اور ساری زمین بھی بھری پڑی ہے یہاں تک کہ اب یہ زمین کو اپنے کرتوت کے لیے تنگ پاکر ستاروں سیاروں پرنگاہ کیے ہوئے ہے کہ
بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے "زمیں"
کچھ اور چاہیے وسعت مرے جولاں کے لیے
ارے ہاں ٹھہریے۔ شاید اس موقع پر اس "عادت" کو بیچ میں گھسادیں جو پاکستانیوں کا طرہ امتیاز اور واحد شغل ہے بلکہ مستقل طریقہ واردات ہے۔ یعنی ہربات کو "دین" کے دائرے میں لاکر اس کا تیاپانچہ کرنا۔ اگرکوئی سبزی لینے نکلتاہے تو دوسرے اس پر نگاہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ دینی سبزی خریدتاہے یا کفری سبزی خریدتا ہے جب ڈوب رہا تھا تو اس کا منہ قبلے کی طرف تھا یا کسی اور طرف۔ سائیکل گاڑی گدھا تانگہ اسلامی طریقے پر چلاتا ہے یا کوئی غیر اسلامی طریقہ استعمال کرتاہے۔
مال حرام ویسے ہی ہڑپتا ہے یا کھانے کے بعد کوئی دینی چورن بھی استعمال کرتاہے۔ مطلب کہ یہ خیال بھی رکھنا پڑتاہے کہ کہیں ایسا لفظ یاحرکت سرزد نہ ہوجائے، جو سنگساری، ذبیحہ اور بوری بند حالت پرمنتج ہو۔ خدا صلہ خیر دے، ہمارے مہربان لطیف چوہدری کوکہ انھوں نے کمال مہربانی سے ہمیں وہ حدود ازبر کرا رکھے ہیں جس سے باہر نکلنا ڈینجرزون میں قدم رکھناہے۔ اس لیے پہلے ہی یہ وضاحت ضروری ہے کہ دین کی رو سے اسے جو اشرف المخلوقات کہاگیا ہے، وہ سب بجا۔ کیونکہ آج کل بمقام پاکستان تو یہ ان سب خطابات کا لاج رکھے ہوئے ہے اور ہرلحاظ سے خود کو خدا کا لاڈلہ ثابت کرچکا ہے۔
اس لیے ہم ان لاڈلوں کی بات نہیں کررہے ہیں جو چاند کھیلنے کو مانگیں یا توڑنے پھوڑنے کے لیے۔ ہم صرف ان لوگوں کی بات کررہے ہیں جن کے بارے میں خود خدائے عزو جل نے کہا ہے کہ میں نے تو اسے "احسن تقویم"پرپیدا کیا ہے لیکن اس کے بعد اس نے خود کو "اسفلہ سافلین"میں گرادیا یا وہاں کی رہائش اختیار کرلی اور اب اس مقام اسفلہ سافلین کا شہری ہے اور وہ سب کچھ کرتارہتاہے جو روم میں رومی اور اسفلہ سافلین میں اسفل وسافلین کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ اسفلہ سافلین سے خبریں بڑی مشکل سے باہر آتی ہیں لیکن اتنا علم ہے کہ وہاں پر"دینی"چیز اور نام کی بے حرمتی کو کام اور فریضے کے طور پر کیاجاتا ہے چنانچہ "احسن تقویم"میں جو نام محترم تھے ان سب کو کاروباری مفادات کے لیے استعمال کیاجارہاہے، مثلاً مکہ کولا، مدینہ چورن، کعبہ ہوٹل، زمزم شربت، عرفات پنکھے، منیٰ واشنگ مشین، وغیرہ۔ بلکہ اب تو کاروباروں اور دکانوں کے مقابل نام کم پڑرہے ہیں۔
اس لیے ڈبل ڈبل نام بھی مروج ہوگئے۔ مکہ مدینہ ہوٹل، صفا مروا لانڈری۔ ایک صحافی نے ہمیں خبردی ہے کہ صحابہ کرام کے متبرک نام کو بھی کاروباری مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، خاص طور پر اسکول مدرسے اور مساجد تو سارے صحابہ کرام کے نام ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ کچھ اور دینی اصلاحات بھی لانچ کی جاچکی ہیں۔ اقراء ہوٹل، یاسین پنکھے، طٰہ واشنگ مشین۔ تازہ ترین اطلاع جو اس صحافی نے ہمیں دی ہے یہ ہے کہ ریاست کا نام بھی تبدیل کر کے المکہ اور دارلحکومت کا نام المدینہ رکھا جا رہا ہے۔ صدر اور وزیراعظم کے عہدے کے لیے بھی مناسب اصطلاح تلاش کرلی گئی ہے۔
اس نے ایک لطیفہ بھی لکھاہے کہ وہ مچھلی فروش کی جس دکان کا بورڈ"یہاں تازہ مچھلی فروخت کی جاتی ہے" تھا لیکن یاروں نے مشورے سے ایک ایک لفظ کو ہٹانے کے بعد صرف مچھلی کی بو ُ رہ گئی تھی اس نے محکمہ کرن یا ڈیپارنمنٹ آف تسمیہ کو درخواست دے رکھی ہے کہ آخر میں بھی تو ایک اسفلہ سافلین کا مستند سیٹزن ہوں۔
اور مجھے بھی دینی شعائر استعمال کرنے بلکہ بیچنے کا حق ہے، جتنا دوسروں کوہے۔ اس لیے میری مچھلی کی دکان کے لیے "زمزم فش کارنر" کا نام منظور اور رجسٹرڈ فرمایا جائے۔ ویسے تو مملکت اسفلہ سافلین ہر ہر لحاظ سے سرزمین بے آئین ہے لیکن نام کی حد تک ایک آئین بھی بنایا گیا ہے۔
اس تاکید اور تنبیہہ کے ساتھ کہ اس پر عمل درآمد کرنے والے کو آن دی سپاٹ گولی ماردی جائے۔ ویسے تو اس آئین کے کل سات دفعات ہیں(1)سچ(2) ایمانداری (3) وفاداری(4) دیانت داری(5) اخلاص (6) محبت اور(7) اخوت۔ ۔ لیکن اس کے عنوان اور آخر کے دو دفعات شامل کرکے نو ہوجاتے۔ عنوان ہے خبردار خبردار خبردار۔ اور احتتام ہے ہرگز نہیں، ہرگزنہیں، ہرگزنہیں۔
نہایت سختی سے آئین کے لیے حکم ہے کہ اسے ہمیشہ آئینے میں رکھا اور پڑھا جائے تاکہ دفعات اصلی صورت میں اجاگرہوں۔ ایک مرتبہ پھر وضاحت اور خالص خوف خدا سے نہ سہی خوف انسان سے مجبور ہوکر عرض ہے کہ ہم نے یہ ساری باتیں اس انسان کے بارے میں کی ہیں جس نے شہریت بدل کر خود کو اسفلہ سافلین کا شہری بنایا ہوا ہے، باقی جو ہیں خاص طوپر وہ انسان جو ہمارے اردگرد ہیں اور ہم ان کی رسائی میں ہیں وہ تو احسن تقویم کے دائرے میں ہیں اور جوچاہے کرسکتے ہیں بلکہ جوکررہے ہیں وہ ہرلحاظ سے صحیح اور اسلام کے عین مطابق ہے، ایسے ہی لگے رہیں اور ثواب دارین کے ڈھیر لگاتے رہیں۔