بات ہماری لیول سے بہت اونچی اور ہماری سمجھ دانی سے باہر کی ہے اس لیے بار بار سوچنے کے باوجود گرفت میں نہیں آرہی ہے اس لیے یہی مناسب لگا کہ اب اسے دانا دانشوروں کے سامنے پیش کریں جوپاکستان میں لگ بھگ تیس چالیس کروڑ پائے جاتے ہیں کیونکہ زیادہ تر ان میں ٹوان ون اور تھری ان ون بھی مل جاتے ہیں جواخباروں اشتہاروں دیواروں اور سڑکوں کے کناروں پربھی اپنی دانش چھلکاتے رہتے ہیں یا ٹی وی بیوی اور سی وی والے ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ہمارے اس ملک جس کاایک نام مملکت چستان بھی ہے۔ ہرکوئی نہایت اچھی اچھی باتیں اور انتہائی برے برے کام کرتا ہے۔ تقریباً ہرشخص اگر موقع ملے توحرام ہڑپنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتا بلکہ حرام وحلال کا انحصار کسی عقیدے مذہب یاقانون کے تحت نہیں بلکہ ممکن اور ناممکن کی بنیاد پرقائم ہے یعنی کرسکتا یا نہ کرسکتا۔
جوکام یا کمائی میں "کرسکتا"ہوں وہ حلال اور جونہیں کرسکتا وہ حرام۔ چاہے وہ کسی کا گلہ کاٹنے یاخون چوسنے یا گھر کو آگ لگانے کا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر مجھے یقین بلکہ امید بلکہ شک بھی ہو کہ میں کسی اور کولوٹ سکتاہوں مارسکتاہوں کھا سکتاہوں توذرا بھی تامل نہیں کروں گا کہ یہ کام جائز ہے یا ناجائز، حلال ہے یاحرام، گناہ ہے یاثواب۔ یہ سب کچھ درمیان سے نکل چکاہے صرف"سکنا"اور نہ سکنا کی بات ہے۔ اسی لیے ایک صاحب نے کہاہے کہ
ہرسڑے پاگل دے خوخکارہ نہ دے
ہرسڑے غل دے خو موقع غواڑی
یعنی ہرشخص پاگل ہے لیکن ظاہر نہیں ہوا ہے اور ہرکوئی چور ہے اگر "موقع"ملے۔ اور یہ توآپ ہم اور سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک "مواقع"سے بھرپور بلکہ لدا پھندا اور ٹھونس کربھرا ہوا ہے پولیس کے سپاہی سے لے کر اعلیٰ ترین منصب تک ویلج کونسل کے کونسلر سے لے کر بہت اوپر حدنظر تک مواقع ہی مواقع۔ بلکہ اگر کوئی محنتی منشی حساب لگائے تووہ لکھے گا کہ اس ملک میں اتنی پیداوار بچوں (ہرقسم کے جانداروں کے)کی نہیں جتنی مواقع کی ہے۔ چنانچہ ہرطرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ کرپشن ہے کرپشن ہے اور پھرکرپشن ہے چوری ہے حرام خوری ہے جرائم ہیں غرائم ہیں اور الائم ہیں۔ کیونکہ سب کچھ ملائم ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان جرائم الائم غرائم اور غلائم کے خلاف جوکچھ کیا جاتا ہے یہ چھوت کامرض ہے ان اداروں کوبھی لگ جاتا ہے۔ گویا ڈاکٹر مریض کوتواچھا نہیں کرتا لیکن مریض ڈاکٹر کو مریض بنادیتاہے رہنما رہزن بن جاتاہے اور رہبر "رابر"بن جاتاہے
ہرایک سے منزل کاپتہ پوچھ رہاہوں
گمراہ میرے ساتھ ہوا رہنما بھی
اور یہ اس کے باوجود ہے کہ اخباروں میں اشتہاروں میں دیواروں پر اسپیکر اور لاوڈاسپیکر، مسجد مسجد مدرسہ مدرسہ گلی گلی کوچے کوچے گھر گھر بلکہ کمرے اور فرد فرد نیکیوں کی تلقین میں بھی زور شور سے مصروف ہے جلسے بھی ہورہے ہیں جلوس بھی ہورہے ہیں دھرنے ورنے کرنے بھی جاری ہیں پارٹیاں بھی چیخ چلارہی ہیں بڑے بڑے لیڈر رہنما رہبر عالم فاضل یعنی علمائے کرام مشائح عظام ناصحان علوم مبلغین دین واسلام سہ روزے فیروز بیروزے اور امروزے شمروزے بھی لگ رہے ہیں لیکن پھربھی کہیں گھڑے کے پاس ٹین کا لوٹا بھی محفوظ نہیں، نمازیوں کے جوتے بھی خطرے میں ہیں دیواروں کی گلیوں کی نالیوں کی اینٹیں تک چرائی جارہی ہیں۔
گٹروں کے ڈھکنے، مساجد کی ٹوٹنیاں اور گلیوں سڑکوں کے بلب، گاڑیوں کے ٹائر ٹیوب بلکہ نٹ بولٹ تک خطرے میں ہیں، بیچ بازار میں لوہے کے جنگلے اور پائپ تک غائب ہوجاتے ہیں اور یہ اس ملک میں جواسلام کے لیے بناتھا اسلامی قوانین کے لیے چلاتھا۔ پہلے اس کانام سایہ خدائے ذوالجلال تھا آج کل ایک اور ہے جو سب کومعلوم ہے اور اس کے رہنے والے بھی اس عالم کی سب سے محترم ہستی کے ہم لقب ہیں۔ اس کے مقابل ہم کچھ اور ممالک کے بارے میں سنتے پڑھتے ہیں اوراکثر لوگوں نے دیکھابھی ہے کہ وہاں ہرشخص دیانت کاپیکر اور اصولوں کی مثال ہوتاہے حالانکہ ان ممالک کاشمار کفرستانوں میں ہوتاہے جس کا ہرشخص ہماری نگاہ میں کافر مشرک اور واجب القتل ہوتا ہے۔
چوری اور حرام کی بات تو بہت دور کی ہے اگر کسی کی پرانی چپل بھی کہیں رہ جائے تو وہ یا تو دیکھنے والا شخص اس کے مالک تک پہنچادیتاہے چاہے کچھ وقت اور پیسہ بھی خرچ کرنا پڑے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پولیس یاکسی اور متعلقہ ادارے میں پہنچا دیتاہے اور سب سے حیران کن اور مبہوت کردینے والی بات یہ ہے کہ وہ متعلقہ شخص تک پہنچا بھی دی جاتی ہے۔
سڑکوں گلیوں اور یہاں وہاں گند پھیلانا جو ہمارے ہاں کسی"فرض"کی طرح سرانجام دیاجاتاہے وہاں خود توکیا اگرکسی اور کا پھینکا ہواگند بھی کوئی دیکھتاہے تواٹھاکرڈسٹ بن یامتعلقہ جگہ پہنچادیتاہے۔ اگردکاندار کسی کوغلطی سے کوئی اضافی چیز اور زیادہ پیسے دے دیتاہے تو وہ گھر سے بھی اسے واپس کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا۔ کسی سرکاری چیز یااملاک کونقصان پہنچانا تو دور کی بات اگر کسی اور کوبھی اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے دیکھتاہے تو جیسے "اپنی چیز"ہو اسے منع کرنے کی کوشش کرتاہے حالانکہ کہیں بھی کسی طرح کی تلقین اسے نہیں کی گئی ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے اندر کی تلقین کاتابع ہوتاہ۔ ے سناہے اب ہمارے لوگوں کے پہنچنے پر ان لوگوں میں بھی تھوڑی تھوڑی عقل آتی جاتی ہے لیکن اکثریت پھربھی دیانت، امانت اور صداقت کی علمبردار ہے۔
آخرکیوں؟ایسا کیوں ہے؟کہ وہ کام جو ہمارے تھے وہ دوسرے کررہے ہیں اور ہم ان کی خلاف ورزی کوفرض عین سمجھے ہوئے، ایسا کیوں ہے؟اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ کس نے ایسا کیاہے اور کس جادو کی چھڑی سے یا شو منتر سے۔ اگرایسا ہے تو شو منتر والے توہمارے ہاں بھی بے حد وحساب ہیں، دنیامیں لاجواب ہیں اور صاحبان کتاب ہیں۔ چلیے منہ کا مزا بدلنے کے لیے ایک پرانی کہانی آپ کو سناتے ہیں۔ ایک تھا بادشاہ جس کے ہاں بڑی منتوں زاریوں اور دعاؤں دواؤں کے بعد سلطنت کا وارث پیدا ہوا۔ بڑی خوشیاں منائی گئیں، جشن برپا کیے گئے اور بادشاہ نے دان پن کے دروازے کھول دیے۔
لیکن شہزادہ جیسے جیسے بڑھا ہوتاگیا۔ اس کاباپ روتا گیا۔ کیونکہ لڑکے میں لڑکے سے زیادہ لڑکی کے لچھن پیداہورہے تھے، ناچنا لہرانامٹکنا دہرا ہوکر اور تالیاں پیٹ پیٹ کرباتیں کرنا۔ بادشاہ کو فکرہوئی کہ یہ شہزادہ نماشہزادی یا شہزادی نما شہزادہ بار سلطنت بھی اٹھا پائے گا۔ ایک وزیر کے مشورے پراسے سو لڑکوں کے ساتھ ایک الگ تھلگ قلعہ میں رکھاگیا، مکمل مردانہ ماحول میں اور زنانہ آواز سے بھی دور۔ ایک سال بعد بادشاہ نے وہاں کی پراگرس دیکھنا چاہی تو پورے ایک سو ایک زنچے تالیاں بجابجاکر اور لہرا لہرا کر اس کا استقبال کرتے ہوئے نظرآئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔
ان سو نوجوانوں کا اثر اس ایک شہزادے پرکیوں نہیں ہوا اور یہ اکیلا ہی پورے سو مردوں کو زنخا بنانے میں کامیاب ہوا۔ لطیفہ اپنی جگہ لیکن اس "حقیقہ"کاجواب "ایسا" ہونے کے بجائے "ویسا" کیوں ہوگیا۔ شہزادہ اکیلا تھا وہ سو تھے اور جسم سے بھی کمزور تھا۔ مطلب یہ کہ ہرلحاظ سے "متاثر"اسے ہونا چاہیے تھا تو پھر کیوں نہ ہوا اس لیے کہ وہ "بادشاہ"کابیٹا تھا اور وہ عوام تھے۔ اور عوام۔ "الناس علیٰ دین ملوکھم" عوام اپنے حکمرانوں پرجاتے ہیں حکمران عوام پر نہیں جاتے، حکمرانی، بالادستی اور خاص ہونا بجائے خود ایک طاقت ہے۔ چھوٹے بڑوں کی نقالی کرتے ہیں اور اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ اب اسی کہانی میں اس بات کا جواب تلاش کیجیے کہ "یہاں "ایسا کیوں؟ اور "وہاں " ویساکیوں؟"النا س علیٰ دین ملوکھم" پڑھتے پڑھتے رہیے اور اپنے اوپر شو منتر کرتے رہیے سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔ یہاں تک کہ خربوزوں کے رنگ بھی سمجھ میں آجائیں گے۔